WE News:
2025-08-04@05:52:35 GMT

افراط زر میں کمی؛ کیا شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جا سکتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT

افراط زر میں کمی؛ کیا شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جا سکتا ہے؟

پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران افراط زر میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے بعد یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ آیا اب شرحِ سود میں نمایاں کمی کا وقت ہوچکا ہے یا نہیں، بعض معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ معاشی حالات، خاص طور پر افراط زر کی سست روی، شرحِ سود کو 6 فیصد تک لانے کی گنجائش فراہم کرتے ہیں۔

تاہم، متعدد ماہرین معاشیات اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے اور محتاط مالی پالیسی جاری رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ کرنسی پر دباؤ، درآمدات میں اضافے اور مالیاتی عدم توازن جیسے خدشات سے بچا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:

ماہرِ معیشت ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں افراط زر میں کچھ کمی ضرور آئی ہے، لیکن اس میں دوبارہ اضافہ متوقع ہے، ان کے مطابق جب افراط زر کا موازنہ پچھلے سال کی نسبت سے کیا جاتا ہے، تو ہر نئے مہینے میں معمولی سہی لیکن اضافہ ضرور نظر آتا ہے، اسی لیے یہ ضروری تھا کہ شرحِ سود کو فوری طور پر کم نہ کیا جائے۔

ڈاکٹر عابد سلہری نے واضح کیا کہ شرحِ سود کا تعلق صرف افراط زر سے نہیں بلکہ روپے کی قدر سے بھی ہے، اگر شرح سود میں اچانک اور زیادہ کمی کی گئی، تو لوگ بینکوں میں موجود اپنی بچتوں کو ڈالرز میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔

مزید پڑھیں:

’جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ جائے گی اور روپے پر دباؤ آئے گا، نتیجتاً، روپے کی قدر میں گراوٹ آئے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق اسٹیٹ بینک کے لیے یہ ایک نازک توازن ہے، ایک طرف شرح سود کو افراط زر پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو دوسری جانب اسے روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کا ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ’اگر موجودہ حالات میں شرح سود کو کم کر کے 6 فیصد تک لایا گیا، تو اس سے روپے کی قدر کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘

مزید پڑھیں:

’میرا نہیں خیال کہ شرح سود کو اس وقت 6 فیصد تک لانے کی ضرورت ہے، مانیٹری پالیسی کو موجودہ احتیاط کے ساتھ ہی آگے لے کر چلنا چاہیے۔ جب کچھ گنجائش پیدا ہو، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے، اور آئی ایم ایف کے اگلے ریویو کے بعد آر ایس ایف سے کچھ فنڈز دستیاب ہوں، تب شرحِ سود میں نرمی پر غور کیا جا سکتا ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا تھا کہ چونکہ گزشتہ برس افراط زر کی شرح کم تھی، اس لیے رواں سال جب اسی مدت سے موازنہ کیا جائے گا، تو اعداد و شمار میں افراط زر زیادہ محسوس ہوگا، اگرچہ حقیقی معاشی دباؤ اتنا نہ ہو۔

مزید پڑھیں:

معاشی ماہر راجہ کامران کے مطابق پاکستان میں اس وقت شرحِ سود یعنی پالیسی ریٹ کو ایک خاص سطح پر برقرار رکھا گیا ہے، اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت حقیقی شرحِ سود کو مثبت رکھنا چاہتی ہے۔ ’یعنی مہنگائی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے سود کی شرح میں تھوڑا سا اضافہ برقرار رہے، تاکہ سرمایہ کاری اور خرچ کرنے کے رجحانات کو متوازن رکھا جا سکے۔‘

راجہ کامران کے مطابق اگر شرحِ سود کم کی جائے تو لوگ بینکوں سے آسانی سے قرض لے کر گاڑیاں، موبائل فونز اور دیگر مہنگی درآمدی اشیا خریدنے لگتے ہیں، اس کے نتیجے میں ملک کی درآمدات بڑھ جاتی ہیں، جو تجارتی توازن کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

مزید پڑھیں:

’چونکہ پاکستان میں بنیادی صنعتی ڈھانچہ موجود نہیں، اس لیے جب ہم گاڑیاں یا دیگر اشیاء بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان کے بیشتر پرزے بیرونِ ملک سے منگوانے پڑتے ہیں۔ اس سے نہ صرف درآمدات بڑھتی ہیں بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی دباؤ پڑتا ہے، جو بالآخر بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔‘

راجہ کامران سمجھتے ہیں کہ اسی وجہ سے حکومت روپے میں قرض لینے کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے تاکہ معیشت کو ضرورت سے زیادہ دباؤ سے بچاتے ہوئے درآمدات کو قابو میں رکھا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی ایم ایف افراط زر پالیسی ریٹ درآمدات ذخائر راجہ کامران زر مبادلہ شرح سود صنعتی ڈھانچہ قرض گراوٹ مالیاتی عدم توازن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف افراط زر پالیسی ریٹ درآمدات راجہ کامران زر مبادلہ صنعتی ڈھانچہ گراوٹ مالیاتی عدم توازن ڈاکٹر عابد سلہری راجہ کامران روپے کی قدر مزید پڑھیں شرح سود کو کے مطابق افراط زر سکتا ہے فیصد تک کیا جا

پڑھیں:

سرکاری ملازمین کے لیے بری خبر؛ جی پی فنڈ کی شرحِ منافع میں کمی

سٹی 42: سرکاری ملازمین کی امیدوں پر پانی پھر گیا ، حکومت نے جی پی فنڈ پر شرح منافع میں کمی کرکے سرکاری ملازمین   پر تلوار چلا دی 
مالی سال 2024-25 کیلئے شرح 12.46 فیصد مقرر کی گئی ، جی پی فنڈ میں سرکاری ملازمین کو کم منافع ملے گا،وفاقی وزارتِ خزانہ نے جی پی فنڈ کی شرحِ منافع کم کر دی
شرح کم ہونےسے ملازمین کی سالانہ آمدنی پر منفی اثر پڑے گا ،سرکاری ملازمین کو پچھلے سال کے مقابلے میں کم منافع ملے گا
2022-23 میں شرح 14.22 فیصد، 2023-24 میں 13.97 فیصدرہی،2024-25کیلئے 12.46 فیصد  کرنے سے  ملازمین کی آمدنی میں کمی کا خدشہ ہے 

پاکستان نے بھارتی لوک سبھا میں آپریشن سندور سے متعلق بیانات کو مسترد کردیا

واضح رہے سرکاری ملازمین  جی پی فنڈ کی آمد ن پر توقعات قائم کیے ہوتے ہیں ۔ اور ریٹائرمنٹ یا دوران  ملازمت جب انہیں پیسوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ جی پی فنڈ نکلوا کر اپنی ضروریات پوری کرلیتے ہیں ۔ جی پی فنڈ کی شرحِ  منافع کم ہونے سے ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے اور اب سرکاری ملازمین کو جی پی فنڈ توقعات سے کم ملے گا
 

متعلقہ مضامین

  • ترکیہ کا جنگی’’ کتا‘‘ دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا
  • نیٹو کی مسلسل مشرق کی جانب توسیع روس یوکرین تنازع کا سبب ہے ، وزیراعظم ہنگری
  • مسائل کو جنگ، تشدد اور طاقت سے ہرگز حل نہیں کیا جا سکتا، میر واعظ
  • پیدائش کے وقت ہزاروں بچوں میں خطرناک وائرس کی موجودگی کا انکشاف
  • فیسوں میں100 فیصد اضافہ
  • ٹُرتھ اینڈ ری کنسلیئیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے، اعلامیہ آل پارٹیز کانفرنس
  • مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوؤں کے باوجود گزشتہ ہفتے 11 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ
  • سرکاری ملازمین کے لیے بری خبر؛ جی پی فنڈ کی شرحِ منافع میں کمی
  • ریحام خان اور بشریٰ بی بی سے شادی کرنے والا کبھی لیڈر نہیں ہو سکتا، شبر زیدی