افراط زر میں کمی؛ کیا شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جا سکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران افراط زر میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے بعد یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ آیا اب شرحِ سود میں نمایاں کمی کا وقت ہوچکا ہے یا نہیں، بعض معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ معاشی حالات، خاص طور پر افراط زر کی سست روی، شرحِ سود کو 6 فیصد تک لانے کی گنجائش فراہم کرتے ہیں۔
تاہم، متعدد ماہرین معاشیات اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے اور محتاط مالی پالیسی جاری رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ کرنسی پر دباؤ، درآمدات میں اضافے اور مالیاتی عدم توازن جیسے خدشات سے بچا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:
ماہرِ معیشت ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں افراط زر میں کچھ کمی ضرور آئی ہے، لیکن اس میں دوبارہ اضافہ متوقع ہے، ان کے مطابق جب افراط زر کا موازنہ پچھلے سال کی نسبت سے کیا جاتا ہے، تو ہر نئے مہینے میں معمولی سہی لیکن اضافہ ضرور نظر آتا ہے، اسی لیے یہ ضروری تھا کہ شرحِ سود کو فوری طور پر کم نہ کیا جائے۔
ڈاکٹر عابد سلہری نے واضح کیا کہ شرحِ سود کا تعلق صرف افراط زر سے نہیں بلکہ روپے کی قدر سے بھی ہے، اگر شرح سود میں اچانک اور زیادہ کمی کی گئی، تو لوگ بینکوں میں موجود اپنی بچتوں کو ڈالرز میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔
مزید پڑھیں:
’جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ جائے گی اور روپے پر دباؤ آئے گا، نتیجتاً، روپے کی قدر میں گراوٹ آئے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق اسٹیٹ بینک کے لیے یہ ایک نازک توازن ہے، ایک طرف شرح سود کو افراط زر پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو دوسری جانب اسے روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کا ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ’اگر موجودہ حالات میں شرح سود کو کم کر کے 6 فیصد تک لایا گیا، تو اس سے روپے کی قدر کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘
مزید پڑھیں:
’میرا نہیں خیال کہ شرح سود کو اس وقت 6 فیصد تک لانے کی ضرورت ہے، مانیٹری پالیسی کو موجودہ احتیاط کے ساتھ ہی آگے لے کر چلنا چاہیے۔ جب کچھ گنجائش پیدا ہو، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے، اور آئی ایم ایف کے اگلے ریویو کے بعد آر ایس ایف سے کچھ فنڈز دستیاب ہوں، تب شرحِ سود میں نرمی پر غور کیا جا سکتا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا تھا کہ چونکہ گزشتہ برس افراط زر کی شرح کم تھی، اس لیے رواں سال جب اسی مدت سے موازنہ کیا جائے گا، تو اعداد و شمار میں افراط زر زیادہ محسوس ہوگا، اگرچہ حقیقی معاشی دباؤ اتنا نہ ہو۔
مزید پڑھیں:
معاشی ماہر راجہ کامران کے مطابق پاکستان میں اس وقت شرحِ سود یعنی پالیسی ریٹ کو ایک خاص سطح پر برقرار رکھا گیا ہے، اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت حقیقی شرحِ سود کو مثبت رکھنا چاہتی ہے۔ ’یعنی مہنگائی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے سود کی شرح میں تھوڑا سا اضافہ برقرار رہے، تاکہ سرمایہ کاری اور خرچ کرنے کے رجحانات کو متوازن رکھا جا سکے۔‘
راجہ کامران کے مطابق اگر شرحِ سود کم کی جائے تو لوگ بینکوں سے آسانی سے قرض لے کر گاڑیاں، موبائل فونز اور دیگر مہنگی درآمدی اشیا خریدنے لگتے ہیں، اس کے نتیجے میں ملک کی درآمدات بڑھ جاتی ہیں، جو تجارتی توازن کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
مزید پڑھیں:
’چونکہ پاکستان میں بنیادی صنعتی ڈھانچہ موجود نہیں، اس لیے جب ہم گاڑیاں یا دیگر اشیاء بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان کے بیشتر پرزے بیرونِ ملک سے منگوانے پڑتے ہیں۔ اس سے نہ صرف درآمدات بڑھتی ہیں بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی دباؤ پڑتا ہے، جو بالآخر بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔‘
راجہ کامران سمجھتے ہیں کہ اسی وجہ سے حکومت روپے میں قرض لینے کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے تاکہ معیشت کو ضرورت سے زیادہ دباؤ سے بچاتے ہوئے درآمدات کو قابو میں رکھا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی ایم ایف افراط زر پالیسی ریٹ درآمدات ذخائر راجہ کامران زر مبادلہ شرح سود صنعتی ڈھانچہ قرض گراوٹ مالیاتی عدم توازن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف افراط زر پالیسی ریٹ درآمدات راجہ کامران زر مبادلہ صنعتی ڈھانچہ گراوٹ مالیاتی عدم توازن ڈاکٹر عابد سلہری راجہ کامران روپے کی قدر مزید پڑھیں شرح سود کو کے مطابق افراط زر سکتا ہے فیصد تک کیا جا
پڑھیں:
ایم ڈی کیٹ، کراچی کے طلبہ بازی لے گئے
کراچی(نیوز ڈیسک) آئی بی اے سکھر یونیورسٹی کے ایم ڈی کیٹ 2025 کے ٹیسٹ میں کراچی کے طلبہ سندھ کے تمام اضلاع کے طلبہ پر بازی لے گئے اور پہلی تینوں پوزیشنز کراچی کے نام رہیں جبکہ ٹاپ ٹین میں شامل 124 امیدواروں میں سے 41 امیدواروں کا تعلق کراچی سے ہے۔ آئی بی اے سکھر کے ایم ڈی کیٹ کے ابتدائ نتائج کے مطابق سندھ بھر کے تعلیمی بورڈز سے اے ون اور اے گریڈ لانے والے طلبہ کی اکثریت یعنی 56 فیصد امیدوار ایم بی بی ایس کے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں فیل ہوگئے جب کہ بی ڈی ایس کے 48 فیصد امیدوار ٹیسٹ میں ناکام ہوگئے۔ نتائج کے مطابق 14300 امیدوار 55 فیصد (99) یا اس سے زائد نمبر لا کر کامیاب ہوسکے جب کہ بی ڈی ایس کے لیے 17123 امیدوار 50 فیصد (90) یا اس سے زائد نمبر لا کر کامیاب ہوئے ۔ اس طرح 56 فیصد امیدوار ایم بی بی ایس کے ٹیسٹ میں ناکام ہوگئے جب کہ بی ڈی ایس میں 48 فیصد امیدوار ناکام ہوگئے۔ ایم ڈی کیٹ نتائج کے مطابق سید محمود خان ولد عدالت خان کراچی ضلع غربی نے ایم ڈی کیٹ میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیئے انھوں نے 180 میں سے 175 نمبر حاصل کیئے کراچی کورنگی کے فیصل اشرف خان ولد نوید اشرف خان اورضلع قمبر شہداد کوٹ کے شیراز حسین ولد نیاز حسین مغیری 174 نمبر لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ کراچی شرقی کے محمد ریان ہمایوں ولد ہمایوں فاروق، کورنگی کی ماہ نور شاہنواز بنت سید شاہنواز حسین، اور حیدرآباد کی حرا عابد ولد عابد علی سیہتو 173 نمبر لا کر تیسرے نمبر پر رہے۔ 124امیدوار ٹاپ ٹین میں شامل رہے جن میں سے 41امیدواروں کا تعلق کراچی سے ہے۔ آئی بی اے سکھر یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکڑ آصف شیخ نے بتایا کہ ایم ڈی کیٹ 2025 کے عارضی نتائج کا باقاعدہ اعلان کیا جاچکا ہے اور یکم نومبر 2025کو شام 5:00بجے تک امیدوار وں کو شکایت کے اندراج کا وقت دیا گیا ہے کہ اگر کوئ شکایت ہے تو اس کا اندراج ای میل کے ذریعے کردیں اتوار کو شام 5بجے حتمی نتائج جاری کردیئے جائیں گے۔