آج بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو چھ برس مکمل ہو رہے ہیں؛ صدرِ مملکت
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
سٹی 42 : صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ آج بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو چھ برس مکمل ہو رہے ہیں، کشمیری عوام کو اپنے ہی وطن میں بے اختیار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، کشمیری عوام دھمکیوں، بلاجواز گرفتاریوں اور محاصروں کا شکار ہیں۔
صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے “یومِ اِستحصال“ کے موقع پر پیغام میں کہا کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی اقدام کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازع حیثیت کو بدلنا اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو کمزور کرنا تھا۔
ٹی ٹونٹی سیریز ؛پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی ڈبلن میں بھرپور پریکٹس
آصف علی زرداری نے کہا کہ بھارت نے چھ برسوں میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی آبادیاتی ساخت اور سیاسی نقشے کو بدلنے کے لیے متعدد اقدامات کیے، من مانی حلقہ بندیاں، غیر کشمیریوں کو ووٹر لسٹ میں شامل کرنا اور باہر کے افراد کو ڈومیسائل دینا بھارتی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جبر و استبداد میں اضافہ کر دیا ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ مقامی میڈیا کو خاموش اور کشمیری عوام کو آزادی اظہار سے محروم کر دیا گیا ہے، کشمیری عوام اپنے ناقابلِ تنسیخ حقِ خودارادیت کے استعمال سے روکے گئے ہیں۔ بھارت کی جارحیت کے تناظر میں اس سال کا یومِ استحصال غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن بنیان المرصوص کی شاندار کامیابی پاکستانی عوام کے لیے باعثِ فخر ہے۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے جموں و کشمیر کے تنازع کا حل سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ناگزیر ہے۔ پاکستان کشمیری عوام کو اُن کے جائز حقوق کے حصول تک سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا ۔
تحریک انصاف نے اسلام آباد میں احتجاج اور جلسہ منسوخ کردیا
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: کشمیری عوام نے کہا کہ
پڑھیں:
وادی کشمیر سے دفعہ 370 کی تنسیخ کے چھ سال مکمل، عوام میں اضطراب
کشمیر وادی میں ہڑتالی سیاست، پتھر بازی اور علیحدگی پسندانہ سیاست اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں تاہم جس مجموعی ترقی کا نعرہ دیا گیا تھا اس پر عوام محتاط ردعمل دے رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آج سے ٹھیک چھ برس قبل مودی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے دفعہ 370 کو ہٹانے اور اسے دو مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد مودی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اب جموں کشمیر میں امن و قانون کی صورتحال بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں تعمیر و ترقی کے نیچے باب رقم ہوں گے ۔ تاہم اب جبکہ چھ برس گزر چکے ہیں اور فی الوقت ریاستی درجہ کی بحالی کے لئے سیاست کافی گرم ہوگئی ہے۔ عام لوگوں کو 5 اگست 2019ء کے بعد اب تک کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ حالانکہ کشمیر وادی میں ہڑتالی سیاست، پتھر بازی اور علیحدگی پسندانہ سیاست اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں تاہم جس مجموعی ترقی کا نعرہ دیا گیا تھا اس پر عوام محتاط ردعمل دے رہی ہے۔
عادل اشرف نامی ایک نوجوان نے کہا کہ مجموعی طور پر جموں و کشمیر کے حالات میں زیادہ بہتری چھ سالوں میں نظر نہیں آئی ہے۔ کیونکہ بیروزگاری، مہنگائی اور غیر یقینیت 2019ء کے بعد بھی کم نہیں ہوئی ہے اور جوانوں کو لگتا ہے کہ ان کا اب تک استحصال ہی ہوا ہے۔ کبھی سبز رومال دکھا کر اور کبھی دیگر نعروں سے کشمیر کا نوجوان مرعوب ہوا لیکن سواے مایوسی کے کچھ نہیں ملا۔ عادل کے مطابق 2024ء کے عام انتخابات میں لوگوں نے جمہوری عمل میں بڑی تعداد میں بشمولیت کی لیکن بدقسمتی سے جو سرکار منتخب ہوئی ہے وہ بھی کچھ کرنے سے قاصر ہے۔