آن لائن خرید و فروخت پر ٹیکس کی سختی، ایف بی آر نے ای کامرس ریٹیلرز کے لیے نئی شرائط طے کر دیں
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
ایف بی آر نے ای کامرس ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اہم اقدامات کرتے ہوئے آن لائن لین دین پر ٹیکس کی کٹوتی اور رجسٹریشن کو لازمی قرار دے دیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع خبر کے مطابق، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ای کامرس فروخت کنندگان کی رجسٹریشن اور ڈیجیٹل لین دین پر ٹیکس وصولی کے لیے نئے طریقہ کار جاری کر دیے ہیں۔
یہ اقدامات ریٹیل مارکیٹ کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ڈیجیٹل طور پر آرڈر کی جانے والی اشیا و خدمات پر ٹیکس کی مکمل عملداری کو یقینی بنانے کی ایک وسیع تر کوشش کا حصہ ہیں۔
ایف بی آر نے انکم ٹیکس سرکلر نمبر 01 اور سیلز ٹیکس سرکلر نمبر 02 جاری کیے ہیں، جن کا مقصد ای کامرس ریٹیلرز کو قومی ٹیکس نمبر (این ٹی این) الاٹ کرنے کے عمل کو آسان بنانا اور مؤثر ود ہولڈنگ ٹیکس سسٹم کا نفاذ ہے۔
نئے نظام کے تحت، آن لائن مارکیٹ پلیس (او ایم پی) یا ویب سائٹ کے ذریعے ڈیجیٹل طور پر آرڈر کی گئی اشیا یا خدمات کی تمام ادائیگیاں ٹیکس کے دائرے میں آئیں گی اور سیکشن 6 اے کے تحت ملکی ای کامرس لین دین پر ٹیکس نافذ کیا جائے گا۔
سیکشن 153(2 اے) میں کی گئی تبدیلیوں کے مطابق، ادائیگی فراہم کرنے والے ادارے بشمول بینک، مالیاتی ادارے، فارن ایکسچینج ڈیلرز اور ڈیجیٹل گیٹ ویز، اب ای کامرس لین دین پر 1 فیصد ٹیکس منہا کرنے کے پابند ہوں گے، جب کہ کیش آن ڈیلیوری (سی او ڈی) کا انتظام کرنے والے کورئیرز، سیلرز کو ادائیگی منتقل کرنے سے قبل 2 فیصد ٹیکس منہا کریں گے۔
یہ مختلف ٹیکس شرحیں ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دینے اور معیشت کو کیش لیس بنانے کی حکومتی کوششوں کا حصہ ہیں۔
سیکشن 6 اے کے تحت جمع کیا گیا ٹیکس، سیلرز کی ملکی و برآمدی آمدن پر حتمی ٹیکس شمار ہوگا۔
ادائیگی کے ثالثی ادارے اور کورئیر سروسز اس ٹیکس کی وصولی کے ذمہ دار ہوں گے، جسے ہر سیلر کے نام پر قومی خزانے میں ماہانہ جمع کروایا جائے گا، ساتھ ہی متعلقہ ود ہولڈنگ ٹیکس اسٹیٹمنٹس بھی جمع کرانا ہوں گی۔
نئے نظام کے تحت، ای کامرس فروخت کنندگان کے لیے انکم ٹیکس میں رجسٹریشن قانونی طور پر لازمی قرار دی گئی ہے۔
آن لائن مارکیٹ پلیسز (او ایم پیز) اور کورئیر سروسز کو غیر رجسٹرڈ فروخت کنندگان کو خدمات فراہم کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں، او ایم پیز اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر کام کرنے والے تمام فروشوں کی تفصیلات پر مشتمل بیانات وقتاً فوقتاً ایف بی آر کو جمع کرائیں۔
غیر رجسٹریشن یا ٹیکس کی کٹوتی میں ناکامی پر جرمانے عائد کیے گئے ہیں، جن کا اطلاق ان او ایم پیز اور کورئیر سروسز پر ہوگا جو ٹیکس منہا کرنے یا رجسٹریشن کی شرائط پوری کرنے میں ناکام رہیں۔
ای اسٹورز یا موبائل ایپس کے ذریعے سی او ڈی کی صورت میں چاہے وہ ایگریگیٹر ہوں، او ایم پی ہوں یا براہِ راست ڈیلیوری فراہم کرنے والے ٹیکس کی وصولی اور رپورٹنگ کی ذمہ داری کورئیر سروس پر عائد ہوگی، خواہ فروش او ایم پی کے ذریعے کاروبار کر رہا ہو یا آزادانہ طور پر۔
سیلز ٹیکس کے فریم ورک میں، کورئیرز کو ویڈ ہولڈنگ ایجنٹس کے طور پر مقرر کیا گیا ہے تاکہ ای کامرس سیکٹر میں قابلِ ٹیکس سرگرمیوں کا احاطہ کیا جا سکے۔
حکومت نے سیلز ٹیکس کی عملداری سخت کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔
سیکشن 3(7 اے) کے تحت، کورئیرز اور ثالثی اداروں کے ذریعے ڈیجیٹل طور پر آرڈر کردہ اشیا پر جمع کیا گیا ٹیکس، کاٹیج انڈسٹری اور نان-ٹائر-1 ریٹیلرز کے لیے حتمی ذمہ داری شمار ہوگا، اور اس پر کوئی ان پٹ ٹیکس دستیاب نہیں ہوگا۔
دیگر کاروبار معمول کے سیلز ٹیکس نظام کے تحت کام جاری رکھیں گے، جہاں منہا کیا گیا ٹیکس ان کے آؤٹ پٹ ٹیکس کے خلاف ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔
سیکشنز 14(1 اے) اور 14(1 بی) میں ترامیم کے تحت، اب تمام ای کامرس فروش حتیٰ کہ غیر ملکی افراد بھی، جو پاکستان میں یا یہاں سے ڈیجیٹل طور پر اشیا فروخت کرتے ہیں، ان کو سیلز ٹیکس فریم ورک کے تحت رجسٹر ہونا اور عمل کرنا لازمی ہوگا۔
مزید برآں، سیکشن 26 میں ترامیم کے تحت، او ایم پیز، ادائیگی ثالثی اداروں اور کورئیرز کو ماہانہ سیلز ٹیکس بیانات جمع کروانے ہوں گے، جن میں فروشوں کے مطابق ادائیگیاں، ٹیکس کی تفصیلات اور دیگر ضروری معلومات شامل ہوں گی، جو ملکی ڈیجیٹل لین دین کے حوالے سے درکار ہوں گی۔
یہ تبدیلیاں ای کامرس سیکٹر میں ٹیکس کی بہتر عملداری اور حکومت کی ڈیجیٹل معیشت کی طرف منتقلی کی حمایت کے لیے کی گئی ہیں۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ڈیجیٹل طور پر اور کورئیر لین دین پر او ایم پیز سیلز ٹیکس کرنے والے ایف بی آر کے ذریعے کیا گیا آن لائن پر ٹیکس ٹیکس کی کے تحت ہوں گی کے لیے
پڑھیں:
تاجروں کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کی تیاری
ملک بھر کے 11 ہزار سے زائدکمپنیوںکا سیلز ٹیکس گوشواروں کی بنیاد پر گہیرا تنگ،بھاری جرمانے کی تیاری
کراچی، لاہور اور اسلام آبادکے کارپوریٹ ٹیکس دفاتر سے نوٹس جاری ،کاروباری مراکز سیل کرنے کافیصلہ
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے سیلز ٹیکس گوشواروں میں پائی جانے والی بے قاعدگیوں پر ملک بھر کے 11 ہزار سے زائدکمپنیوں اور افراد کو’’نَجنگ‘‘ نوٹسز جاری کر دیے ہیں، اصلاح نہ کرنے پر بھاری جرمانے، بینک اکاؤنٹس منجمدکرنا اور کاروباری مراکز کو سیل کرنا شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق یہ نوٹسز گزشتہ ماہ اس وقت جاری کیے گئے جب کاروباری برادری اور حکومت کے درمیان ٹیکس اصلاحات پر مذاکرات جاری تھے۔چیئرمین ایف بی آر رشید لنگڑیال نے موجودہ ٹیکس دہندگان کی کم ادائیگیوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ٹیکس گوشواروں کی جانچ کیلیے جدید رسک مینجمنٹ سسٹم متعارف کروایا ہے جو پچھلے پانچ سال کے ریکارڈ کا تجزیہ کرتا ہے، پہلے مرحلے میں کراچی، لاہور اور اسلام آبادکے کارپوریٹ ٹیکس دفاتر سے یہ نوٹسز بھیجے گئے ہیں، کراچی اور لاہور کے تاجروں نے ایف بی آر کو گرفتاری کے اختیارات دینے اور 2 لاکھ روپے سے زائدکی نقد ادائیگیوں کو دوبارہ ٹیکس میں شامل کرنے کے خلاف ہڑتال بھی کی تھی۔ایف بی آر نے واضح کیا کہ یہ نوٹسز قانونی طور پر پابند نہیں لیکن ان کا مقصد ٹیکس دہندگان میں سماجی و معاشی رویوں میں تبدیلی لانا ہے۔نوٹس میں کہاگیا کہ براہ کرم اپنی سیلز ٹیکس ریٹرن میں موجود بے قاعدگیوں کو درست کریں، بصورت دیگر اسے نافرمانی سمجھا جائے گا۔ایف بی آر نے انتباہ دیا کہ اگر آئندہ بھی بے قاعدگیاں برقرار رہیں تو بھاری مالی جرمانے، کاروباری جگہوں پر ایف بی آر کے افسران کی تعیناتی اور کمشنرکی جانب سے بہترین تخمینے پر مبنی تشخیص جیسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ جدید ڈیٹا اینالیسز نظام کے ذریعے ٹیکس دہندگان کی سیلز ٹیکس ریٹرن کا دیگر اداروں اور ہم منصب کاروباروں سے موازنہ کیاگیا، جس میں 2024 کے ریٹرن میں متعدد بے قاعدگیاں سامنے آئیں۔ بے قاعدگیوں میں سب سے نمایاں یہ تھیں کہ بہت سی فروختیں معاف شدہ یا کم شرح والے زمروں میں ظاہرکی گئیں جبکہ اصل میں وہ قابلِ ٹیکس تھیں۔مزید یہ کہ خرید و فروخت کے موازنے سے کاروبار کی ویلیو ایڈیشن نہایت کم ظاہر ہوئی۔ کراچی چیمبر کے صدر جاوید بلوانی نے ایف بی آر کے اقدام پر تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ بغیر کسی آگاہی مہم کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ ایف بی آر نے دعویٰ کیا ہے کہ ان نوٹسز کی وجہ سے جولائی میں سیلز ٹیکس ریٹرن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، تاہم حتمی تجزیہ 4 اگست کو ڈیڈ لائن مکمل ہونے کے بعد ہوگا۔نوٹسز کے مطابق بعض کاروباری افراد نے غیر معمولی حد تک ریفنڈکلیمز، کریڈٹ و ڈیبٹ نوٹسز جمع کروائے ہیں، جن کی بنیاد پر ایف بی آر نے انہیں سخت کارروائی سے خبردار کیا ہے۔