مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاضبانہ قبضہ زیادہ دیر نہیں رہ سکتا: عطاء تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
’جیو نیوز‘ گریب
وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاضبانہ قبضہ زیادہ دیر نہیں رہ سکتا۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کا دن تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں گنا جائے گا، کشمیر کا مقدمہ پاکستان لڑتا رہا ہے اور لڑتا رہے گا۔
عطاء تارڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کی ہر طرح سے حمایت جاری رکھے گا، ہم کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے، ایک دن کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت ملے گا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم کشمیری بہن بھائیوں کو پیغام دیتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں، فیلڈ مارشل نے جس طرح سے معرکہ سرنجام دیا وہ دنیا میں یاد رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کو عسکری اور سفارتی سطح پر بھی منہ کی کھانا پڑی، معرکہ حق کی فتح سے کشمیری بہن بھائیوں کا بھی حوصلہ بلند ہوا ہے، بھارت نے میلی آنکھ سے دیکھا تو بھارتی جہاز ہی نہیں مودی کا غرور بھی گرا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افواجِ پاکستان اور پاکستانی قوم نے دشمن کا مقابلہ کیا جسے تاریخ میں لکھا جائے گا، افواجِ پاکستان نے جیسے بھارت کے خلاف مقابلہ کیا وہ کیس اسٹڈی بن گیا ہے، افواجِ پاکستان کا کردار مختلف ملٹری اسکولوں میں پڑھایا جائے گا۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، زعفران کی پیداوار میں 90 فیصد کمی، کاشتکار پریشان
کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کا مشہور زعفران سیکٹر ایک بار پھر شدید بحران کی لپیٹ میں ہے، کاشتکاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس سال کی پیداوار میں تقریباً 90 فیصد کمی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وادی کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ کے علاقے پامپور کے کسانوں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ زعفران کی پیداوار بمشکل 10 تا 15 فیصد ہے اور ہزاروں خاندان معاشی بدحالی کے دہانے پر ہیں۔ پامپور جہاں زعفران کی سب سے زیادہ کاشت ہوتی ہے، کے کاشتکاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو صدیوں سے کشمیر کی شناخت کی حامل زعفران کی فصل ختم ہو سکتی ہے۔ ”زعفران گروورز ایسوسی ایشن جموں و کشمیر“ کے صدر عبدالمجید وانی نے کہا کہ پیداوار بمشکل 15 فیصد ہے۔ یہ گزشتہ سال کی فصل کا نصف بھی نہیں ہے، جو بذات خود عام فصل کا صرف 30 فیصد تھا۔ ہر سال اس میں کمی آ رہی ہے اور حکومت اس شعبے کی حفاظت کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ بار بار کی خشک سالی، موثر آبپاشی کی کمی اور دستیاب کوارمز کا خراب معیار ہے۔ کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ پامپور کے پریشان کسانوں کے ایک گروپ نے کہا، "زعفران کی بحالی صرف فصل کو بچانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک روایت، ایک ثقافت اور ایک شناخت کو بچانے کے بارے میں ہے اور اگر فوری اور موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2030ء تک پامپور میں زعفران نہیں بچے گا۔