نوجوانوں میں کیفین پاؤچ کا بڑھتا جنون: کتنی مقدار خطرناک ثابت ہوسکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
امریکا میں نوجوانوں میں کیفین پاؤچ استعمال کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جو کچھ دیر کے لیے توانائی کو اچانک بڑھا دیتی ہے۔ اس رجحان کے جلد ہی برطانیہ میں بھی مقبول ہو نے کا خدشہ ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ چھوٹے پاؤچ، جو چائے کی تھیلی کی طرح ہوتے ہیں، ہونٹ اور مسوڑھوں کے درمیان رکھے جاتے ہیں اور کیفین کو براہ راست خون میں پہنچاتے ہیں۔
کچھ سوشل میڈیا انفلوئنسرز ان مصنوعات کو پروموٹ کر رہے ہیں، خاص طور پر جم جانے والوں کے لیے بہتر کارکردگی کے لیے یا امتحانات میں چوکنا رہنے کے لیے طلبہ کو سفارش کر رہے ہیں۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر راب وان ڈیم کے مطابق، ٹک ٹاک شاپ پر ایسے کئی برانڈز اور ذائقے دستیاب ہیں جو نوجوانوں کو پسند آ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ ایک پاؤچ میں تقریباً 2 کپ عام کافی کے برابر کیفین ہوتی ہے اس لیے زیادہ استعمال سے نقصان دہ اثرات ہوسکتے ہیں۔
کیفین پاؤچ اتنے پوشیدہ ہوتے ہیں کہ والدین یا اساتذہ کو یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کسی کے منہ میں یہ موجود ہے جس کی وجہ سے نوجوان انہیں آسانی سے چھپا سکتے ہیں۔
کچھ صارفین آن لائن یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ 2 پاؤچ ایک ساتھ استعمال کرنے سے انہیں اضافی کیفین کا بڑا جھٹکا ملتا ہے۔
چونکہ کیفین جلدی جذب ہو جاتی ہے اس لیے اثرات چند منٹوں میں شروع ہو کر کئی گھنٹوں تک رہ سکتے ہیں اور کیفین کی مقدار قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر وان ڈیم نے بتایا کہ نوجوانوں کی کیفین برداشت کم ہو سکتی ہے اور اگر وہ بہت زیادہ لے لیں تو ایمرجنسی روم میں پہنچ سکتے ہیں۔
کیفین کیا ہے اور زیادہ لینے سے کیا ہوتا ہے؟کیفین ایک محرک ہے جو دماغ اور اعصابی نظام پر اثر ڈال کر آپ کو زیادہ چوکنا اور کم نیند محسوس کرواتا ہے۔
لاگبورو یونیورسٹی کے لیوس جیمز کے مطابق کافی ثبوت موجود ہیں کہ کیفین ورزش کو آسان محسوس کروانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
یہ کھلاڑیوں کے درمیان سب سے زیادہ استعمال ہونے والا سپلیمنٹ بن چکا ہے۔
ورزش کے دوران جسم ایک کیمیکل ’ایڈینوسین‘ بناتا ہے جو تھکن محسوس کرواتا ہے، کیفین اس کی رسیپٹرز کو بلاک کر دیتا ہے جس سے درد اور تھکن کم محسوس ہوتی ہے۔
لیکن کیفین دل اور خون کی نالیوں پر بھی اثر ڈالتی ہے جو خطرناک ہو سکتا ہے۔
زیادہ مقدار میں کیفین سے دل کی دھڑکن تیز ہو سکتی ہے، بے ترتیب ہو سکتی ہے اور دورے پڑ سکتے ہیں۔
اگرچہ کم واقعات ہیں لیکن کیفین کی زیادتی سے موت کے بھی دستاویزی کیسز موجود ہیں۔
کچھ لوگ کیفین کے لیے حساس ہوتے ہیں اور کم مقدار میں بھی متلی، بے چینی، چڑچڑاپن اور سر درد محسوس کر سکتے ہیں۔
عمومی طور پر، صحت مند بالغ افراد کے لیے روزانہ 400 ملی گرام کیفین محفوظ تصور کی جاتی ہے جو تقریباً چار کپ فوری کافی کے برابر ہے۔
چائے میں کیفین کی مقدار کم ہوتی ہے اس لیے 5 کپ روزانہ ٹھیک رہتے ہیں۔
حاملہ خواتین کو کیفین کی مقدار نصف یعنی 200 ملی گرام یا اس سے کم کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
بچوں اور نوجوانوں میں کیفین کے خطرات اور زیادتی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
اسی لیے یورپی یونین کے قوانین کے تحت انرجی ڈرنکس جن میں 150 ملی گرام سے زیادہ کیفین ہوتی ہے ان پر یہ لیبل لگانا لازمی ہے: ’زیادہ کیفین مواد، بچوں اور حاملہ یا دودھ پلانے والی خواتین کے لیے نہیں’۔
کیفین والے دیگر مشروبات اور کھانے پر نظر رکھیںڈاکٹر وان ڈیم کا کہنا ہے کہ کیفین کی زیادتی آسانی سے ہو سکتی ہے کیونکہ یہ کئی مشروبات اور کچھ کھانوں میں بھی پائی جاتی ہے اس لیے مقدار کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کافی میں زیادہ کیفین لینا مشکل ہوتا ہے مگر ان مصنوعات کے ساتھ آسان ہے، خاص طور پر اگر نوجوان انرجی ڈرنکس بھی استعمال کر رہے ہوں۔
وہ کہتے ہیں کہ لیبارٹری میں چیک کرنے پر کئی مصنوعات میں لیبل پر درج مقدار سے زیادہ کیفین پائی گئی ہے۔
کیفین کی عام مقدار (تقریباً):کافی کے ایک مگ میں 100 سے 140 ملی گرام
چائے کے ایک مگ میں 75 ملی گرام
انرجی ڈرنکس کے 250 ملی لیٹر کین میں تقریباً 80 ملی گرام
سافٹ ڈرنکس کے ہر کین میں تقریباً 40 ملی گرام
چاکلیٹ: 50 گرام ڈارک چاکلیٹ میں تقریباً 25 ملی گرام، 50 گرام ملک چاکلیٹ میں تقریباً 10 ملی گرام۔
ڈینٹسٹ کہتے ہیں کہ کیفین پاؤچ کا لمبے عرصے تک استعمال مسوڑھوں میں جلن پیدا کر سکتا ہے، جیسا کہ سناس (پاؤڈر ٹوبیکو) اور نکوٹین پاؤچ کرتے ہیں۔
کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ کیفین پاؤچ نوجوانوں کو نکوٹین جیسی نشہ آور اشیا کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
کلِیولینڈ کلینک لندن میں غذائیت کی سربراہ اور برٹش ڈائٹیٹک ایسوسی ایشن کی ترجمان بِنی سوریش کہتی ہیں کہ پاؤچ استعمال کرنا ’فیشن‘ یا بے ضرر لگ سکتا ہے لیکن یہ نوجوانوں میں محرک اشیا کے استعمال کو معمول بنانے اور نشے کی عادت ڈالنے کا خطرہ رکھتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ کیفین عارضی توانائی دیتی ہے لیکن یہ نیند کو متاثر کرتی ہے اور وقت کے ساتھ تھکن بڑھا سکتی ہے، خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں میں جو اس کے اثرات کے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔
مشورہاگر نوجوان کیفین لینا چاہتے ہیں تو برٹش ڈائٹیتک ایسوسی ایشن اور این ایچ ایس دونوں احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں۔
یورپی فوڈ سیفٹی اتھارٹی بچوں اور نوجوانوں کے لیے 3 ملی گرام فی کلوگرام وزن کو زیادہ سے زیادہ حد قرار دیتی ہے، یعنی 30 کلوگرام وزن والے بچے کو روزانہ 90 ملی گرام سے زیادہ نہیں لینی چاہیے۔
بِنی سوریش کہتی ہیں کہ کیفین کی بجائے بہتر ہے کہ نوجوان باقاعدہ کھانے، پانی پینے اور غذائیت سے بھرپور خوراک پر توجہ دیں جو دن بھر توانائی برقرار رکھتی ہے۔
ایک صحت مند غذا جس میں کافی آئرن، پروٹین اور آہستہ آہستہ توانائی دینے والے کاربوہائیڈریٹس ہوں، توانائی کی ضرورت پوری کر سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا برطانیہ پاؤڈر ٹوبیکو پاؤچ کیفین پاؤچ کیفین پاؤچ کا استعمال نکوٹین پاؤچ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا برطانیہ نکوٹین پاؤچ نوجوانوں میں استعمال کر ہو سکتی ہے میں کیفین ہے اس لیے سے زیادہ ملی گرام سکتے ہیں بچوں اور ہوتے ہیں ہوتا ہے ہوتی ہے ہیں کہ کے لیے ہے اور
پڑھیں:
جو کام حکومت نہ کر سکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-8
آصف محمود
کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے
ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)