غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، مزید 36 فلسطینی شہید؛ امداد کا بحران شدت اختیار کرگیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری کا سلسلہ بدستور جاری ہے، جس کے نتیجے میں ایک ہی دن میں مزید 36 فلسطینی جان کی بازی ہار گئے، جن میں امداد کے منتظر 21 افراد بھی شامل ہیں۔
غیر ملکی ذرائع کے مطابق اسرائیلی کابینہ کی جانب سے غزہ پر مکمل قبضے کے فیصلے کے بعد جمعے کے روز بھی علاقے میں شدید حملے کیے گئے، جن میں معصوم شہریوں کی بڑی تعداد نشانہ بنی۔
غزہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بھوک اور غذائی قلت کے باعث مزید چار فلسطینی دم توڑ گئے، جس کے بعد اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے اب تک فاقہ کشی سے مرنے والوں کی تعداد 201 ہو گئی ہے۔ ان اموات میں 98 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔
ادھر صورتحال کو مزید سنگین بنانے کے لیے اسرائیل نے غیر ملکی امدادی تنظیموں کو غزہ میں سرگرمیاں جاری رکھنے سے روک رکھا ہے، جبکہ خوراک کی تقسیم صرف اسرائیلی اور امریکی انتظامیہ کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ اس دوران کئی واقعات میں اسرائیلی فوج اور امریکی کانٹریکٹرز کی جانب سے خوراک کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے فلسطینیوں پر فائرنگ بھی کی گئی، جن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک 61 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اس بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج طلب کرلیا گیا ہے، جس کی درخواست 15 میں سے 14 رکن ممالک نے پیش کی تھی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اسرائیلی جنگی جرائم: یو ٹیوب نے سیکڑوں ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گوگل، مائیکروسافٹ اور ایمیزون جیسے بڑی ٹیکنالوجی اداروں پر طویل عرصے سے اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں تعاون کے الزامات لگتے رہے ہیں، اور اب ایک اور بڑا پلیٹ فارم یوٹیوب بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق امریکا میں بائیں بازو کے نمائندہ سمجھے جانے والے میڈیا گروپ دی انٹرسیپٹ نے رپورٹ کیا ہے کہ مطابق گوگل کی ملکیت والے اس پلیٹ فارم نے خاموشی سے فلسطینی انسانی حقوق کی 3 بڑی تنظیموں کے اکاؤنٹس حذف کر دیے، جس کے نتیجے میں اسرائیلی تشدد کو دستاویز کرنے والی 700 سے زائد ویڈیوز غائب ہو گئیں، یہ اقدام سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے بعد کیا گیا۔
یہ تین تنظیمیں الحق، المیزان سینٹر فار ہیومن رائٹس، اور فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو شواہد فراہم کر چکی تھیں، جس نے بعد میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
اکتوبر کے آغاز میں آئی سی سی کے فیصلے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کے دفاع میں شدت اختیار کرتے ہوئے عدالت کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کیں اور ان افراد کو نشانہ بنایا جو عدالت کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔
سینٹر فار کونسٹی ٹیوشنل رائٹس کی وکیل کیتھرین گیلاگر نے دی انٹرسیپٹ کو ایک بیان میں بتایا کہ یوٹیوب کا ٹرمپ انتظامیہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے شواہد عوامی نظروں سے ہٹانا افسوسناک ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان حذف شدہ ویڈیوز میں امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی تحقیقات، اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تشدد کا شکار فلسطینیوں کی گواہیاں، اور دی بیچ جیسی دستاویزی فلمیں شامل تھیں، جو اسرائیلی فضائی حملے میں ساحل پر کھیلتے ہوئے بچوں کی شہادت کی کہانی بیان کرتی تھیں۔
الحق کے ترجمان نے بتایا کہ ان کا یوٹیوب چینل 3 اکتوبر کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے حذف کر دیا گیا، انہوں نے کہا کہ یوٹیوب کا انسانی حقوق کی تنظیم کا پلیٹ فارم ختم کرنا اصولی ناکامی اور اظہارِ رائے و انسانی حقوق کے لیے خطرناک رجحان ہے۔
فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق کے قانونی مشیر باسل السورانی نے کہا کہ یوٹیوب اس اقدام سے فلسطینی متاثرین کی آواز دبانے میں شریک جرم بن گیا ہے۔
یوٹیوب کے ترجمان بوٹ بولوِنکل نے تصدیق کی کہ ویڈیوز یہ کہتے ہوئے حذف کر دی گئی ہیں کہ گوگل متعلقہ پابندیوں اور تجارتی قوانین پر عملدرآمد کا پابند ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ اقدام صرف تنظیموں کی سرکاری اکاؤنٹس تک محدود تھا، اگرچہ کچھ حذف شدہ ویڈیوز فیس بک، ویمیو اور وے بیک مشین جیسے پلیٹ فارمز پر جزوی طور پر دستیاب ہیں، لیکن مکمل ریکارڈ موجود نہیں رہا،جس سے شواہد کا ایک بڑا حصہ ہمیشہ کے لیے انٹرنیٹ سے غائب ہو گیا۔