بلوچستان: ژوب میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں، 2 روز میں 47 دہشتگرد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
بلوچستان ضلع ژوب کے علاقے سمبازه میں 7 اور 8 اگست 2025 کو سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائیوں کے دوران بھارتی سرپرستی میں سرگرم 33 خوارج کو ہلاک کرنے کے بعد، 8 اور 9 اگست کی درمیانی شب پاکستان افغانستان سرحد کے قریب سمبازه اور گرد و نواح میں کلیئرنس آپریشن کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن کے دوران مزید 14 خوارج کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ ہلاک دہشتگردوں سے بھاری مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکا خیز مواد برآمد ہوا۔ 2 روزہ کارروائیوں میں ہلاک دہشتگردوں کی مجموعی تعداد 47 ہو گئی ہے۔
مزید پڑھیں: بلوچستان میں پاک افغان سرحد کے قریب سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی، 33 بھارتی سرپرستی یافتہ خوارج ہلاک
سیکیورٹی فورسز نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ملک کی سرحدوں کے تحفظ اور پاکستان کے امن، استحکام اور ترقی کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان سمبازه ضلع ژوب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان ضلع ژوب سیکیورٹی فورسز
پڑھیں:
سکھر,ڈسپنسری سے ادویات غائب، مزدور طبقہ پریشان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سکھر (نمائندہ جسارت) سکھر سوشل سیکیورٹی ڈسپنسری میں ادویات غائب، مزدور طبقہ شدید پریشانی میں مبتلا پیناڈول تک دستیاب نہیں، مزدوروں کا حکومت سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ سندھ ایمپلائرز سوشل سیکیورٹی انسٹیٹیوشن کے زیرِ انتظام سوشل سیکیورٹی سٹی ڈسپنسری باغ حیات علی شاہ، سکھر میں ادویات کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے، جس کے باعث علاج کے لیے آنے والے درجنوں مزدور روزانہ پریشانی کا شکار ہو کر خالی ہاتھ واپس لوٹنے پر مجبور ہیں۔ذرائع کے مطابق ڈسپنسری میں بخار، نزلہ، درد اور دیگر عام بیماریوں کے لیے استعمال ہونے والی بنیادی ادویات تاحال دستیاب نہیں یہاں تک کہ پیناڈول جیسی عام دوا بھی مریضوں کو فراہم نہیں کی جا رہی۔ڈسپنسری کا رخ کرنے والے مزدوروں نے شکایت کرتے ہوئے بتایا کہ ‘‘ہم محنت کش طبقہ ہیں، روزانہ دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔ سوشل سیکیورٹی کی سہولت اس امید پر لی تھی کہ علاج مفت ملے گا، مگر یہاں دوا کا نام و نشان نہیں۔ اب باہر میڈیکل اسٹور سے مہنگی دوا خریدنا ہماری پہنچ سے باہر ہے۔مزید بتایا گیا کہ ہر روز درجنوں مزدور اور ان کے اہلِ خانہ علاج کے لیے ڈسپنسری پہنچتے ہیں، مگر خالی ہاتھ واپس جانے پر مجبور ہیں۔ مزدوروں نے سوال اٹھایا ہے کہ ‘‘جب حکومت ہر سال ڈسپنسریوں کے لیے باقاعدہ بجٹ مختص کرتی ہے، تو پھر یہ ادویات کہاں جا رہی ہیں۔شہریوں اور مزدور تنظیموں نے کمشنر سوشل سیکیورٹی، سیکریٹری لیبر اور محکمہ سوشل ویلفیئر کے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ معاملے کا فوری نوٹس لیا جائے، ڈسپنسری میں ادویات کی فراہمی بحال کی جائے اور مبینہ غفلت یا کرپشن میں ملوث ذمہ دار افسران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔مزدور طبقے کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے دور میں علاج کی سہولیات کا نہ ہونا ان کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں، حکومت کو چاہیے کہ مزدوروں کے اس بنیادی حق صحت کی سہولت کو یقینی بنائے تاکہ وہ باعزت طریقے سے زندگی گزار سکیں۔