ایوب کھوسہ نے شوبز انڈسٹری میں آنے کی دلچسپ داستان سنا دی
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
لاہور:پاکستان شوبز کے سینئر اداکار ایوب کھوسہ نے شوبز میں آنے کی دلچسپ داستان سنا دی۔
اداکار ایوب کھوسہ نے حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو میں شرکت کے دوران شوبز انڈسٹری میں اپنے سفر کے آغاز کا دلچسپ واقعہ شیئر کیا۔ میزبان کے سوال پر کہ وہ پی ٹی وی میں کیسے آئے؟ ایوب کھوسہ نے مسکراتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ ابتدا میں محض پی ٹی وی میں خوبصورت لڑکیوں کو دیکھنے جایا کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک دن پی ٹی وی کے اُس وقت کے جنرل مینیجر، کریم بلوچ نے مجھے وہاں گھومتا دیکھ کر دریافت کیا کہ میں وہاں کیوں آیا ہوں؟ جس پر میں نے جواب دیا کہ صرف ٹی وی اسٹیشن دیکھنے آیا ہوں۔ اس پر کریم بلوچ نے پوچھا کہ کیا ڈرامہ بھی کرنا چاہتے ہیں؟
جنرل مینیجر کے اس سوال پر ایوب کھوسہ نے فوراً اپنی دلچسپی ظاہر کی، جس کے بعد ان کے کیریئر کا آغاز بلوچی زبان کے ڈراموں سے ہوا۔
ایوب کھوسہ نے بتایا کہ اُن کے والد چاہتے تھے کہ وہ بیوروکریٹ بنیں، تاہم وہ اس خواہش کو پورا نہ کر سکے۔ اگرچہ انہوں نے تعلیم مکمل کی، لیکن فنونِ لطیفہ سے وابستگی نے انہیں اس میدان میں مستقل طور پر مصروف رکھا اور وہ آج بھی اس ہی شعبے سے جڑے ہوئے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
میری کہانی: غزہ کے کھنڈروں میں آس و یاس کی داستان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 اگست 2025ء) 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں کے حملوں سے 21 ماہ بعد غزہ کی جنگ میں ہزاروں لوگ ہلاک ہو گئے ہیں، آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں اور کسی شہری کے پاس زندگی کی کوئی ضمانت نہیں۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے والے ایک مقامی صحافی نے یو این نیوز کے نمائندے کو بتایا کہ غزہ کے باسیوں کو اس جنگ کا مفہوم سمجھنے کے لیے طویل وضاحتوں کی ضرورت نہیں۔
آسمان پر ہر وقت جنگی طیاروں کی گھن گرج سنائی دیتی ہے اور ان کے حملے اس خوف کے سوا ہر شے کو تباہ کر دیتے ہیں جو بظاہر دکھائی نہیں دیتا لیکن بے گھر فلسطینیوں کی خیمہ بستیوں میں ہر جا پھیل چکا اور ان کے جسموں میں سرایت کر گیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ راتوں کو مکمل اندھیرا چھا جاتا ہے اور صرف بمباری کی چمک دکھائی دیتی ہے۔
(جاری ہے)
لوگ یہ سوچ کر سوتے ہیں کہ نجانے وہ زندہ جاگیں گے یا نہیں۔
غزہ میں ہر صبح جینے کی نئی کوشش اور ہر شام بقا کی نئی جدوجہد ہوتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد وہ مسلسل بے گھری کی زندگی گزار رہے ہیں اور لوگوں کی مایوسی اور جنگی حالات کے بارے میں خبریں دیتے ہیں جبکہ ان کی اپنی زندگی بھی انہی لوگوں جیسی ہے۔
نومبر 2023 میں ان کا گھر تباہ ہو گیا تھا اور تب سے خیمہ ہی ان کی واحد پناہ گاہ ہے۔
ان کا خاندان اب اُن داستانوں کا حصہ بن چکا ہے جو وہ دنیا کو سناتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہاں زندگی المناک ہے۔ زمین پر سونا، لکڑی جلا کر کھانا بنانا اور روٹی کے ایک نوالے کی تلاش میں گھنٹوں خوار ہونا اس سفاکانہ جنگ کی حقیقت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے 14 سالہ بیٹے کی آنکھوں میں اس جنگ کا عکس دیکھتے ہیں جو اس کا بچپن نگل گئی ہے اور اس پر عمر سے کہیں بھاری بوجھ ڈال دیے ہیں۔
اب وہ بخوبی جانتا ہے کہ پینے کا پانی کہاں ملے گا اور اسے روٹی حاصل کرنے کے لیے سودے بازی کرنا آ گیا ہے۔وہ اس کی بہادری پر فخر کے ساتھ ایک کرب ناک سی بے بسی بھی محسوس کرتے ہیں کہ ان کے لیے اسے اُس تباہی سے بچانا ممکن نہیں جو ہر جانب چھائی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی اہلیہ اپنے بچوں کے لیے امید کا نخلستان بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کی دو بڑی بیٹیوں کو جب کبھی انٹرنیٹ میسر ہو تو وہ آن لائن تعلیم حاصل کرتی ہیں یا جو بھی کتاب ہاتھ آئے اسے پڑھ لیتی ہیں۔
ان کی سب سے چھوٹی بیٹی پرانے گتے کے ٹکڑوں پر تصویریں بناتی ہے جب کہ چار سال عمر کے چھوٹے بیٹے کو بموں کی آوازوں کے سوا کچھ اور یاد نہیں ہوتا۔
وہ اس کے معصوم سوالات کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ غزہ میں نہ سکول باقی رہے ہیں اور نہ ہی تعلیم۔ ان حالات میں وہ بچوں میں بچپن کی چمک برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔غزہ میں 6 لاکھ 25 ہزار سے زیادہ بچے تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔
اس کی وجہ سکولوں کی تباہی اور محفوظ تعلیمی ماحول کا نہ ہونا ہے۔
ان حالات میں پوری نسل کا مستقبل خطرے میں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ دوسرے صحافیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے اور دن بھر ہسپتالوں، سڑکوں اور پناہ گاہوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنا صحافتی سامان صرف واقعات کو ریکارڈ کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اُن لوگوں کی آواز بننے کے لیے اٹھائے پھرتے ہیں جن کی آوازیں خاموش کر دی گئی ہیں۔
وہ ایسے بچے کی ویڈیو بناتے ہیں جو شدید غذائی قلت کا شکار ہے، ایک ایسے شخص کی کہانی سنتے ہیں جس نے سب کچھ کھو دیا اور ایک ایسی عورت کے آنسو دیکھتے ہیں جو اپنے بچوں کے لیے کھانا مہیا نہیں کر سکتی۔
وہ ایک ایسا منظر ریکارڈ کرتے ہیں جو روزانہ دہرایا جاتا ہے۔ ہزاروں لوگ آٹے کے ٹرک تک پہنچنے کی کوشش میں بھاگتے اور زمین پر گرنے والے اناج کے بچے کھچے دانے چنتے ہیں۔ خطرہ ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ اب ایک روٹی مل جانا زندگی سے زیادہ اہم ہے۔
امدادی قافلوں کے راستوں میں اور خوراک کی تقسیم کے مراکز پر متواتر ہلاکتیں ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنا کام کرتے ہوئے ہر آواز پر چونک جاتے ہیں جیسے ہر موڑ پر موت کا سامنا ہونے والا ہو۔ اب حیرت یا غم کے لیے وقت نہیں بچا، صرف ایک مسلسل تناؤ اور بے چینی رہ گئی ہے جو اب لوگوں کی فطرت میں شامل ہو چکی ہے۔
یہ وہ حقیقت ہے جو کیمرے نہیں دکھاتے، مگر غزہ کے صحافی روزانہ دنیا کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کی کوششوں کو بھی دستاویزی شکل میں محفوظ کرتے ہیں۔ وہ ان اداروں کے عملے کو بروقت امداد پہنچانے کے لیے گاڑیوں میں سوتا اور غزہ کے لوگوں کے لیے روتا دیکھ چکے ہیں۔
غزہ آنے والی امداد ناکافی ہے۔ سرحدی گزرگاہیں اچانک کھلتی اور بند ہوتی ہیں، اور بعض علاقوں کو کئی دنوں تک کوئی مدد نہیں ملتی۔
غزہ شہر کے مغربی علاقے بھر چکے ہیں۔ ہر گوشے میں، فٹ پاتھوں پر اور تباہ شدہ گھروں کے ملبے کے درمیان خیمے دکھائی دیتے ہیں۔
خالی ہاتھ، خالی بازارغزہ میں مقامی کرنسی کی قدر ختم ہو چکی ہے۔ جن لوگوں کے اکاؤنٹس میں رقم ہے، وہ اسے نکالنے کے لیے 50 فیصد تک فیس ادا کرتے اور پھر خالی بازاروں کا سامنا کرتے ہیں۔
جو بھی شے دستیاب ہے، وہ ناقابل برداشت قیمت پر فروخت ہو رہی ہے۔
سبزیاں نایاب ہیں، اور اگر مل بھی جائیں تو ایک کلو کی قیمت 30 ڈالر سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
پھل اور گوشت اب لوگوں کی یادوں میں ہی باقی ہیں۔
صحت کا نظام مکمل تباہی کا شکار ہے کیونکہ 85 فیصد ہسپتال غیرفعال ہیں اور ڈائیلیسز اور کینسر کے علاج کی بیشتر سہولیات بند ہو گئی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والدین ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریض ہیں جن کے لیے وہ دوا کا بندوبست نہیں کر سکتے۔
ان کے بھائی ایک فضائی حملے میں زخمی ہو گئے تھے جن کی زندگی بچانے کے لیے سرجری کی کوئی امید نہیں رہی۔ان کا کہنا ہے کہ کبھی انہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ دو شناختوں کے درمیان پھنسے ہیں۔ ان میں ایک شناخت صحافی کی ہے جو لوگوں کی تکالیف کو ریکارڈ کرتا ہے اور ایک ایسے انسان کی ہے جو خود انہی تکالیف کا شکار ہے۔
پھر وہ سوچتے ہیں کہ شاید غزہ کے صحافیوں کی قوت یہی ہے کہ اسی علاقے سے اور دیگر لوگوں جیسے المیوں کا سامنا کرتا ہوئے دنیا کو ان حالات سے آگاہ کیا جائے جن کا یہاں کے لوگ روزانہ سامنا کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں:
غزہ میں ہر دن ایک نیا سوال لے کر آتا ہے کہ
آیا ہم زندہ بچیں گے؟
کیا ہمارے بچے پانی کی تلاش سے واپس لوٹیں گے؟
کیا جنگ ختم ہو گی؟
کیا سرحدی گزرگاہیں کھلیں گی تاکہ امداد پہنچ سکے؟
یہاں سے ہم آگے بڑھتے رہیں گے، کیونکہ ان کہی کہانیاں مر جاتی ہیں اور غزہ کے ہر بچے، ہر عورت اور ہر مرد کا حق ہے کہ اس کی آواز سنی جائے۔
میں ایک صحافی ہوں۔
میں ایک باپ ہوں۔
میں بے گھر ہوں۔
اور میں ہر واقعے کا گواہ ہوں۔