نیتن یاہو کے منصوبے کے خلاف اسرائیل میں بھی احتجاج، ایک لاکھ سے زائد افراد کا مظاہرہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
TEL AVIV:
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے غزہ پر فوجی قبضے کے منصوبے کے خلاف تل ابیب میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ جنگ فوری طور پر بند کرکے گرفتار افراد کو رہا کروایا جائے اور ٹرمپ سے مداخلت کا مطالبہ کیا۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو کے فیصلے خلاف تل ابیب میں نکالی گئی ریلی میں قیدیوں کے اہل خانہ بھی شامل تھے اور غزہ میں قید اومری میران کی اہلیہ لیشے میران لیوی نے کہا کہ یہ صرف فوجی فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں کے لیے موت کی سزا بھی ہوسکتی ہے، جن سے ہم پیار کرتے ہیں۔
انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے پر مداخلت کریں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ عوامی سروے میں اسرائیل کے عوام کی بڑی تعداد نے واضح طور پر جنگ فوری ختم کرنے کے حق میں فیصلہ سنایا تاکہ غزہ میں قید رہ جانے والے 50 افراد کی بحفاظت رہائی ممکن ہوسکے۔
اسرائیلی حکومت کو اپنے اس فیصلے پر اپنے عوام اور دنیا بھر میں مخالفت کا سامنا ہے، جس میں قریبی یورپی اتحادی بھی شامل ہیں۔
احتجاج میں شامل 69 سالہ رامی ڈار نے کہا کہ حکومت جنونی ہے اور وہ ملک کے مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ تل ابیب میں عوام کی جانب سے مسلسل احتجاج کیا جارہا ہے اور حکومت پر زور دیا جا رہا ہے کہ حماس کے ساتھ جلد جنگ بندی کرکے قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
مظاہرے کے منتظمین نے دعویٰ کیا کہ آج کی ریلی میں شامل افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ غزہ پر فوجی قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کی منظوری ان کی ہنگامی کابینہ نے بھی دے دی تھی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ نیتن یاہو کو گوشہ گیر کر دے گا، مغربی ذرائع
مغربی ذرائع ابلاغ نے خبردار کیا ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ اسے اور صیہونی رژیم کو عالمی سطح پر ہمیشہ سے زیادہ گوشہ گیر اور تنہا کر دے گا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی نیوز چینل سی این این نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں کہا: "غزہ جنگ کو تقریباً دو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد اسرائیل کی سیکورٹی کابینہ نے فوجی آپریشن میں وسعت دینے کے ایک اور منصوبے کی منظوری دی ہے اور پورے غزہ پر فوجی قبضے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ یہ منصوبہ نیتن یاہو کی طرف سے پیش کیا گیا ہے اور اسی نے اس کی منظوری میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک تحقیق شدہ فوجی حکمت عملی کی بجائے نیتن یاہو کا سیاسی ایجنڈا ہے۔" سی این این نے مزید کہا: "یہ منصوبہ اعلی سطحی اسرائیلی فوجی سربراہان کی شدید مخالفت کے باوجود اور غزہ میں انسانی بحران مزید شدت اختیار کر جانے کے ممکنہ خطرے کی وارننگ اور 50 اسرائیلی یرغمالیوں کی جان خطرے میں پڑ جانے کی تشویش کا اظہار کیے جانے کے باوجود منظور کر لیا گیا ہے۔ غزہ میں جنگ کا پھیلاو ایسے وقت انجام پا رہا ہے جب دنیا بھر میں اسرائیل کی حمایت اور خود اسرائیل کے اندر حکومت کی عوامی حمایت میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔" ان سب کے باوجود نیتن یاہو نے اپنا منصوبہ جاری رکھا ہوا ہے کیونکہ اس سے نیتن یاہو کو اپنی سیاسی بقا کے لیے ہاتھ پاوں مارنے کا موقع فراہم ہو سکتا ہے۔
سی این این اپنی رپورٹ میں مزید کہتا ہے: "نیتن یاہو کے دائیں بازو کے انتہاپسند سیاسی اتحادیوں کے وجود کے باعث جنگ مزید طولانی ہو جائے گی۔ اب تک وزیر سلامتی اتمار بن غفیر اور وزیر خزانہ بیزالل اسموتریچ جیسے نیتن یاہو کے انتہاپسند اتحادی بارہا جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہونے میں رکاوٹ ڈال چکے ہیں کیونکہ اگر جنگ بند ہو جاتی ہے تو نیتن یاہا کی کابینہ بھی ٹوٹ جائے گی۔" سی این این کے مطابق بن غفیر اور اسموتریچ غزہ پر مکمل قبضے کو وہاں یہودی بستیوں کی تعمیر اور آخرکار اسے اسرائیل سے ملحق کر دینے کا پہلا قدم سمجھتے ہیں۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے جمعرات کے دن فاکس نیوز چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ تل ابیب غزہ پر مکمل فوجی قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ وہ غزہ پر مکمل قبضے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ نیتن یاہو نے شروع میں کوشش کی کہ صرف غزہ شہر پر قبضہ کرنے کے مرحلے کا اعلان کرے اور جان بوجھ کر اس کے آغاز کے لیے دو ماہ کی مختصر ڈیڈ لائن کا اعلان کیا۔
سی این این نے غزہ پر مکمل فوجی قبضے کے منصوبے پر پائے جانے والے اسرائیل کے اندرونی اختلافات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "نیتن یاہو کا منصوبہ اس کے اتحادیوں اور فوجی سربراہان کو راضی نہیں کرتا اور اسرائیل کے چیف آف آرمی اسٹاف ایال ضمیر نے بھی اس کی شدید مخالفت کی ہے۔ اسرائیل کے اس اعلی سطحی فوجی عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ غزہ پر نیا فوجی حملہ اسرائیلی فوجیوں اور غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کی جان کو خطرے میں ڈال دے گا اور اسرائیلی فوج کے لیے نیا پھندا ثابت ہو گا جو پہلے ہی گذشتہ دو سال کی جنگ میں شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ اس طرح یہ جنگ مزید تھکا دینے والی ہو جائے گی اور فلسطین میں انسانی بحران بھی مزید شدت اختیار کر جائے گا۔" سی این این نے مزید کہا: "فوجی سربراہان کے یہ تحفظات اسرائیل کے اس رائے عامہ کی عکاسی کرتے ہیں جو اکثر اسرائیلی شہریوں میں پائی جاتی ہے اور وہ جنگ بندی کے حامی ہیں۔ لیکن اسرائیلی حکمرانوں کے فیصلے فوجی سربراہان کے مشوروں اور عوامی رائے کے خلاف ہیں اور مختلف سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ نیتن یاہو کی جانب سے اقتدار میں باقی رہنے کی خواہش سے متاثر ہیں۔"