اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) کنوینئر عوام پاکستان پارٹی شاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ پینتالیس فیصد لوگ سطح غربت سے نیچے ہیں۔ تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ معیشت میں منفی گروتھ ہے۔ لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ملک کوئی ترقی نہیں کر رہا۔ ہم نے بہت سے مسائل حل کئے تھے۔ اب پاکستان میں تجربوں کی گنجائش نہیں رہی۔ سب تجربے ناکام ہو چکے۔ شفاف انتخابات الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے۔ بتا دیں آج لوگوں کو کتنے بنیادی انسانی حقوق میسر ہیں، جس ملک میں نیا کاروبار نہ آئے‘ روزگار کے مواقع پیدا نہ ہوئے وہ معیشت ترقی یافتہ نہیں سمجھی جاتی۔ کیا اوورسیز کیلئے کوئی پالیسی بنائی ہے۔ ملک کی خرابی کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ ہم نے سیاست کو دشمنی میں بدل دیا۔ الیکشنز سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ سب سیاستدان، فوج کے سربراہ، جیوڈیشری کے سربراہ سب ایک میز پر بیٹھیں۔ ایک میز پر بیٹھنے کیلئے عمران خان کو پیرول پر لانا کونسا مشکل ہے۔ ملک کا سسٹم ناکام ہو چکا ہے۔ آئین کا نفاذ کریں، قانون کی حکمرانی کریں‘ تمام پاکستان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ترقی وہی ممالک کر رہے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ ہم کہتے ہیں جو ہمارے منہ سے نکلے وہی قانون ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت اختیارات اور پیسے دے دیئے۔ کیا صوبے ان کو صحیح استعمال کر رہے ہیں۔ پی آئی اے آپ ایک روپے میں بھی بیچ دیں گے تو ہر سال ڈیڑھ سو ارب کا نقصان حکومت کے کھاتے سے ختم ہو جائے گا، عوام میں مایوسی اب بے حسی میں بدل گئی ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: رہے ہیں

پڑھیں:

پاکستان کا معاشی ترقی کا ماڈل ناکام ہو رہا ، غربت میں کمی کرنے میں معاون نہیں

لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 24 ستمبر 2025ء ) عالمی بینک کی رپورٹ "ریکلیمِنگ مومینٹم ٹوورڈز پراسپرٹی: پاکستان کی غربت، مساوات اور لچک کا جائزہ" میں مزید انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کی ابھرتی ہوئی متوسط طبقہ آبادی، جو کل آبادی کا 42.7 فیصد ہے، ''مکمل معاشی تحفظ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔‘‘ رپورٹ میں کہا گیا کہ متوسط طبقہ بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے جیسے کہ محفوظ نکاسیٔ آب، صاف پینے کا پانی، سستی توانائی اور رہائش، جو پاکستان میں "کمزور عوامی خدمات کی فراہمی" کی نشاندہی کرتا ہے۔

ایک تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے 15 سے 24 سال کی عمر کے 37 فیصد نوجوان نہ تو ملازمت کر رہے ہیں اور نہ ہی تعلیم یا تربیت میں شامل ہیں، جس کی وجہ سے آبادی کا دباؤ اور مزدور منڈی کی طلب و رسد میں عدم توازن ہے۔

(جاری ہے)

اس رپورٹ کو، جسے پاکستان کے متعدد میڈیا اداروں نے شائع کیا ہے، کے مطابق "پاکستان کا ترقیاتی ماڈل جس نے ابتدا میں غربت کم کرنے میں مدد دی تھی، اب ناکافی ثابت ہوا ہے، اور 2021-22 سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

‘‘ جب عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی اس ناکام ماڈل کی حمایت پر ذمہ داری کے بارے میں پوچھا گیا تو عالمی بینک کے سینئر ماہر معاشیات ٹوبیاس ہاک نے کہا کہ پاکستان نے کوئی ایک مخصوص معاشی ماڈل اختیار نہیں کیا جو عالمی بینک یا آئی ایم ایف نے مسلط کیا ہو۔ رپورٹ میں کہا گیا، ''پاکستان کا کبھی امید افزا غربت میں کمی کا سفر اب رک گیا ہے اور برسوں کی محنت سے حاصل کردہ کامیابیاں ضائع ہو رہی ہیں۔

‘‘ پاکستان میں عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر بولورما آنگابازر نے کہا کہ بینک یہ جاننا چاہتا ہے کہ غربت کی شرح ماضی کی طرح تیزی سے کم کیوں نہیں ہو رہی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں معیشت اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہی۔ رپورٹ کے مطابق "حالیہ دھچکوں نے غربت کی شرح کو مالی سال 2023-24 میں بڑھا کر 25.3 فیصد تک پہنچا دیا ہے، جو آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے۔

صرف گزشتہ تین برسوں میں غربت کی شرح 7 فیصد بڑھ گئی ہے۔‘‘ رپورٹ نے پاکستان میں غربت کی دو مختلف شرحیں ظاہر کیں: قومی سطح پر غربت 25.3 فیصد ہے، جو آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے، لیکن بین الاقوامی غربت لائن کے مطابق یہ شرح 44.7 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ عالمی بینک کی غربت پر تحقیق کی ماہر کرسٹینا ویسر نے کہا کہ 2001 سے 2015 تک غربت میں اوسطاً سالانہ 3 فیصد کمی ہوئی، جو 2015-18 کے دوران کم ہو کر سالانہ صرف 1 فیصد رہ گئی۔

انہوں نے کہا کہ 2018 کے بعد مختلف دھچکوں، جن میں معاشی حالات کی خرابی شامل ہے، نے غربت میں اضافہ کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2022 کے سیلاب سے غربت میں 5.1 فیصد اضافہ ہوا اور مزید 1.3 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ 2022-23 میں توانائی کی قیمتوں میں حکومتی اضافے کے باعث مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا جس نے گھرانوں کی قوتِ خرید اور حقیقی آمدنی کو شدید متاثر کیا۔

رپورٹ کے مطابق ترسیلاتِ زر اگرچہ گھرانوں کی فلاح میں مددگار ہیں لیکن یہ صرف آبادی کے ایک چھوٹے حصے تک پہنچتی ہیں۔ دیہی اور کم آمدنی والے گھرانے زیادہ تر اندرونِ ملک ترسیلات کے وصول کنندہ ہیں۔ مزدور منڈی میں زیادہ تر غیر رسمی اور کم اجرت والی ملازمتیں ہیں، جہاں 85 فیصد سے زیادہ روزگار غیر رسمی ہے۔ شہری مرد زیادہ تر تعمیرات، ٹرانسپورٹ یا تجارت میں کم اجرت والی ملازمتیں کرتے ہیں، جبکہ دیہی مرد جمود کا شکار زراعت چھوڑ کر کم پیداواری غیر زرعی کاموں کی طرف جاتے ہیں۔

عورتیں اور نوجوان بڑی حد تک مزدور منڈی سے باہر ہیں اور خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت صرف 25.4 فیصد ہے۔ عالمی بینک نے کہا کہ زیادہ تر گھرانے نچلی سطح کی فلاح پر محدود ہیں، جس سے وہ دھچکوں کے لیے نہایت کمزور ہو جاتے ہیں۔ تاریخی طور پر پاکستان کا مالیاتی ڈھانچہ غربت اور عدم مساوات میں کمی کے لیے معاون نہیں رہا۔ پاکستان میں عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر بولورما آنگابازر نے کہا، ''یہ نہایت اہم ہے کہ پاکستان اپنی مشکل سے حاصل کردہ غربت میں کمی کے ثمرات کو محفوظ رکھے اور اصلاحات کو تیز کرے جو روزگار اور مواقع بڑھائے، بالخصوص خواتین اور نوجوانوں کے لیے۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • شام کی پالیسی اب متوازن سفارت کاری اور اقتصادی ترقی، احمد الشرح
  • پاکستان اب ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے نہیں رہے گا، بلال بن ثاقب
  • سپیکرقومی اسمبلی کی اخبار بینی کے عالمی دن پر آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی اور صحافی برادری کو مبارکباد،اخبارات پارلیمان اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں،سردار ایاز صادق
  • پاکستان کا معاشی ترقی کا ماڈل ناکام ہو رہا ، غربت میں کمی کرنے میں معاون نہیں
  • وژن پاکستان 2030 سیلاب متاثرہ نوجوانوں کے لیے امید کی کرن ہے، شاہد آفریدی
  • لاہور ہائیکورٹ کے مستعفی جج جسٹس شاہد جمیل تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شامل
  • پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کا حامی ہوں، ہاتھ نہ ملا کر نفرت وہاں سے شروع ہوئی، شاہد آفریدی
  • پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی 
  • پاکستانیوں کی سعودیہ میں خدمات مثالی تعلقات و ترقی کا باعث ہیں، شہباز شریف
  • اسلام آباد مارگلہ سٹیشن کی حدود کو میٹرو بس سٹیشن تک توسیع دیں گے، حنیف عباسی