توہین مذہب کے جھوٹے الزام پر بھی وہی سزا رکھی جائے، جو ملزم کی ہے، علامہ سبطین سبزواری
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
مرکزی نائب صدر شیعہ علماءکونسل کا کہنا ہے کہ ناموس رسالت(ص) پر ہماری جانیں قربان، مگر توہین مذہب کے نام پر کاروبار کا راستہ روکنا ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہین مذہب کیس کی سماعت کے دوران جو حقائق منظر عام پر آئے، چشم کشا ہیں، تحقیقاتی کمشن کی تشکیل کا فیصلہ قابل تحسین، تائید کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان علامہ سید سبطین حیدر سبزواری نے مطالبہ کیا ہے کہ توہین مذہب کے جھوٹے الزام پر بھی وہی سزا رکھی جائے، جو مجرم کیلئے ہے، تاکہ اسلام اور پاکستان کی بدنامی کو روکا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ناموس رسالت پر ہماری جان مال عزت و آبر و قربان، توہین رسالت(ص) کے کسی ملزم کو سزا سے نہیں بچنا چاہیئے، مگر توہین مذہب کے نام پر ہونیوالے کاروبار کا راستہ روکنا ہوگا۔
انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ ماضی میں جب بھی توہین مذہب کے نام پر کوئی اندوہناک واقعہ رونما ہوا تو حکومت کی طرف سے قوم کو یقین دہانی کروائی گئی کہ اس قانون میں ترمیم کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ اس پر قانون سازی کرے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کہا جاتا رہا کہ جو کوئی توہین مذہب کا غلط استعمال اور جھوٹا الزام عائد کرے گا تو مدعی کو وہی سزا دی جائے گی، جو اس ملزم پر الزام ثابت ہونے کی صورت میں دی جاتی ہے، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا ۔ مذہب کا نام لے کر جذبات بھڑکائے جاتے ہیں تاکہ اپنے مقاصد حاصل کیے جا سکیں، وہ بھاری رقوم بٹورنے کی شکل میں ہوں، ذاتی دشمنی کی تسکین یا مخالف فرقے کے کسی فرد کو پھنسانے کی شکل میں ہوں مگر افسوس کہ آج تک پارلیمنٹ میں اس بابت قانون سازی کا مطالبہ پورا نہیں کیا کہ توہین مذہب کا الزام لگانے والوں کو بھی وہی سزا ملے جو توہین کے مرتکب افراد کیلئے مخصوص ہے۔
شیعہ علما کونسل کے رہنما نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج سردار اعجاز اسحاق خان کی عدالت میں توہین مذہب کیس کی سماعت کے دوران جو حقائق منظر عام پر آئے ہیں، چشم کشا ہیں کہ کس انداز سے توہین مذہب کے نام پر لوگوں کو بلیک میل کیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا عدالت کی طرف سے تحقیقاتی کمشن کی تشکیل کا فیصلہ قابل تحسین ہے، ہم اس فیصلے کی تائید کرتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ اچھا ہے۔ توہین مذہب کیس کمشن پر عملدرآمد کر کے بہت سے لوگوں کی عزت و آبرو اور زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ توہین مذہب قوانین کو ہتھیار بنا کر سادہ لوگوں کو بلیک میل کرنے کا دھندہ کرنیوالے کسی رعایت کے مستحق نہیں، انہوں نے نوجوانوں کی زندگیوں کو برباد کیا ہے۔ علامہ سبطین سبزواری نے کہا ہے کہ توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والے کسی ایک شخص کو بھی سزا ملی ہوتی تو آج جو واقعات توہین مذہب کے نام پر سامنے آئے ہیں، یہ کبھی نہ ہوتے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: توہین مذہب کے نام پر وہی سزا مذہب کا
پڑھیں:
بھارت میں خود ساختہ مذہبی رہنماؤں کے جرائم اور اندھی عقیدت کا سلسلہ جاری
بھارت میں ایک چونکا دینے والے واقعے میں رواں برس میں بھی ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جب ریاست گجرات کے شہر سورت کے نیو سول اسپتال میں چند ملازمین نے کم عمر لڑکی سے زیادتی کے الزام میں سزا یافتہ خود ساختہ مذہبی رہنما آسا رام باپو کی تصاویر کے سامنے پوجا کی۔
یہ مناظر ویڈیو کی صورت میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئے، جس کے بعد انتظامیہ نے ایک سیکورٹی گارڈ اور گریڈ ون افسر کو معطل کردیا۔
یہ واقعہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ عدالت سے مجرم قرار دیے جانے کے باوجود آسا رام جیسے افراد کے لیے اندھی عقیدت ختم نہیں ہوئی۔ آسا رام کو 2013 میں 16 سالہ اسکول کی طالبہ سے ریپ کے الزام میں جیل بھیجا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: دہلی، سوامی بابا پر جنسی ہراسانی کا الزام، جعلی سفارتی نمبر پلیٹ والی کار بھی برآمد
بعدازاں آسا رام اور ان کے بیٹے نرائن سائی پر مزید مقدمات قائم ہوئے، ان کے خلاف برسوں طویل قانونی جنگ کے بعد سزا سنائی گئی، تاہم اس عرصے میں کئی گواہوں کو نشانہ بنایا گیا یا وہ پراسرار طور پر لاپتا ہوگئے۔
اسی طرح ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ گرمیت رام رحیم سنگھ، جو اپنی 2 مرید خواتین سے زیادتی کے الزام میں 20 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، بار بار پیرو ل پر رہائی حاصل کرتے رہے ہیں۔
دہلی میں پولیس ایک اور خود ساختہ ’گرو‘ چیتنیا نند سرسوتی کی تلاش میں ہے، جس پر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی طالبات کو ہراساں کرنے کا الزام ہے، متاثرہ خواتین کی شکایات اور ایئرفورس کی ایک چٹھی کے بعد یہ معاملہ سامنے آیا جس کے بعد مذکورہ گرو روپوش ہوگیا۔
مزید پڑھیں: ’بھارت میں ہر 17 منٹ میں جنسی زیادتی کا واقعہ، کیا ہم ہر 17 منٹ میں شرمندہ ہوں؟‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعات اس بڑے سوال کو جنم دیتے ہیں کہ جب سرکاری اداروں کے افراد بھی ایسے مجرموں کی اندھی عقیدت میں مبتلا ہوں تو قانون کی بالادستی اور انصاف پر عوام کا اعتماد کیسے قائم رہ سکتا ہے؟
ریاست گجرات کے سورت اسپتال کے ریزیڈنٹ میڈیکل آفیسر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صرف پھل تقسیم کرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اسپتال میں تصویر اور پوجا کی اجازت نہیں لی گئی۔ تاہم واقعے پر کوئی باقاعدہ انکوائری شروع نہیں کی گئی۔
مزید پڑھیں:سابق بھارتی وزیراعظم کا پوتا گھریلو ملازمہ سے زیادتی کے مقدمے میں مجرم قرار
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اسپتال کے عملے نے کسی دہشت گرد یا عام قاتل کو خراج عقیدت پیش کیا ہوتا تو ردِعمل یکسر مختلف ہوتا، سوال یہ ہے کہ مذہب کے نام پر جرائم کرنے والوں کے لیے اتنی نرم گوشہ کیوں دکھایا جاتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انسانی حقوق کے کارکنان نے زور دیا ہے کہ ایسے واقعات صرف انفرادی فیصلے نہیں بلکہ ادارہ جاتی اخلاقیات کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں۔ خاموشی یا معمولی کارروائی ایسے واقعات کو مزید معمول بنا سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آسا رام باپو اندھی عقیدت انسانی حقوق بھارت ریاست گجرات ریزیڈنٹ میڈیکل آفیسر سورت سوشل میڈیا