جنوبی وزیرستان: مسلح ملزمان کی فائرنگ، جے یو آئی رہنما مولانا ثنا اللہ جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
ویب ڈیسک : صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان لوئر کی تحصیل برمل کے علاقے اعظم ورسک میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی، ف) کے رہنما مولانا ثنا اللہ جاں بحق ہوگئے۔
تحصیل برمل میں مولانا ثنا اللہ اعظم ورسک بازار کی جانب جا رہے تھے، راستے میں نا معلوم افراد نے ان پر فائرنگ کی، مسلح ملزمان فائرنگ کے بعد فرار ہوگئے۔
ملزمان کی جانب سے فائر کی گئی گولیاں لگنے سے مولانا ثنا اللہ دم توڑ گئے، واقعے کی اطلاع ملتے ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے موقع پر پہنچ گئے، اور لاش کو ہسپتال منتقل کر دیا۔
عمان کا شناختی کارڈ سے متعلق اہم فیصلہ
پولیس نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کرکے ملزمان کی تلاش شروع کردی، علاقے میں خوف و ہراس کی فضا ہے، جے یو آئی (ف) کے کارکن بھی اپنے رہنما کے قتل کی اطلاع ملنے پر ہسپتال پہنچے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ فائرنگ کرکے فرار ہونے والے ملزمان کی تلاش جاری ہے۔
یاد رہے کہ مئی 2025 میں ضلع جنوبی وزیرستان کے ایک مدرسے کے قریب جمعیت علمائے اسلام (ف )کے رہنما مولانا نوراللہ کی گاڑی کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا تھا، خوش قسمتی سے جے یو آئی (ف) کے رہنما حملے میں محفوظ رہے تھے۔
یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی بارسلونا میں قیمتی گاڑی چھین لی گئی
پولیس کے مطابق لوئر جنوبی وزیرستان کے اعظم ورسک بازار میں پولیس اسٹیشن کے قریب واقع شہزاد مدرسہ کے نزدیک مولانا نور اللہ کی گاڑی کے قریب بم دھماکا ہوا تھا، جس میں مولانا نوراللہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ذریعہ: City 42
پڑھیں:
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی خام خیالی
اسلام ٹائمز: گذشتہ چند عشروں کے دوران امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم نے پابندیوں، سفارتی دباو، نفسیاتی جنگ اور حتی فوجی جارحیت کے ذریعے حزب اللہ لبنان کو کمزور یا گوشہ نشین کرنے کی بارہا کوشش کی ہے لیکن اس کی یہ کوششیں نہ صرف کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ اکثر ان کا برعکس نتیجہ ظاہر ہوا اور لبنانی عوام میں حزب اللہ کی محبوبیت مزید بڑھی ہے۔ خاص طور پر 2006ء میں 33 روزہ جنگ جس میں حزب اللہ نے اسرائیلی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور عوام نے اس کی بھرپور قدردانی کی۔ امریکہ اور اسرائیل کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ لبنانی عوام میں حزب اللہ کی گہری جڑیں ہیں جس کے باعث وہ بھاری عوامی حمایت سے برخوردار ہے۔ حزب اللہ لبنان نے ملک بھر میں فلاح و بہبود، تعلیم، میڈیکل اور قرضہ جات کے نیٹ ورکس بنا رکھے ہیں جن کے ذریعے لبنانی عوام کی ہر طرح کی مدد کی جاتی ہے۔ تحریر: سید رضا حسینی
اگرچہ جمعرات کے روز منعقد ہونے والے جوزف عون کی سربراہی میں لبنان کی کابینہ کے اجلاس سے شیعہ وزراء نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے واک آوٹ کر دیا تھا لیکن 14 مارچ اتحاد سے وابستہ باقی وزراء (مغرب نواز دھڑا) نے ملکی مفادات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے وائٹ ہاوس کے ایلچی تھامس براک کے خیانت آمیز منصوبے سے اپنی وفاداری کا اظہار کر دیا۔ دوسری طرف لبنانی وزیراعظم نواف سلام نے امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کے دباو کے تحت حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ منظور کر لیا۔ لبنانی حکومت کی جانب سے مغربی طاقتوں کے سامنے جھک جانے نے اسلامی مزاحمت کے حامی لبنانی عوام میں غصے کی لہر دوڑا دی ہے اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے پر مبنی خیانت آمیز منصوبے کے خلاف لبنان کے مختلف شہروں میں وسیع عوامی احتجاج اور مظاہرے شروع ہو چکے ہیں۔
تھامس براک منصوبے کا جائزہ
لبنان کی کابینہ میں شامل 14 مارچ اتحاد سے وابستہ وزیروں نے امریکی نمائندے تھامس براک کے منصوبے کی منظوری دی ہے جو چار مراحل پر مشتمل ہے اور اس کا اصل مقصد اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنا ہے۔ یہ چار مراحل درج ذیل ہیں:
پہلا مرحلہ (15 روزہ): اس مرحلے میں لبنانی حکومت ایسے احکامات صادر کرے گی جن کے تحت حزب اللہ لبنان کو پوری طرح غیر مسلح ہونے کے لیے 31 دسمبر 2025ء تک مہلت دی جائے گی۔ اسی طرح اس مرحلے میں اسرائیل بھی ہر قسم کی بری، فضائی اور سمندری فوجی جارحیت انجام نہ دینے کا پابند ہو گا۔
دوسرا مرحلہ (60 روزہ): اس مرحلے میں لبنان حکومت اپنے احکامات پر عملدرآمد کا آغاز کرے گی۔ اس مرحلے میں مدنظر علاقوں میں لبنان آرمی کی تعیناتی اور اسلحہ اپنی تحویل میں لینے کا تفصیلی ایجنڈا وضع کیا جائے گا۔
مزید برآں، اسرائیل بھی جنوبی لبنان سے پیچھے ہٹنا شروع کر دے گا اور اسرائیل میں لبنانی قیدی بھی ریڈ کراس کے تعاون سے آزاد کیے جائیں گے۔
تیسرا مرحلہ (90 روزہ): اس مرحلے میں اسرائیل جنوبی لبنان میں موجود اپنے پانچ میں سے دو فوجی مراکز خالی کر دے گا اور تباہ شدہ لبنانی علاقوں کی تعمیر نو کا بجٹ فراہم کیا جائے گا۔
چوتھا مرحلہ(120 روزہ): اس مرحلے میں حزب اللہ لبنان اپنے بھاری ہتھیار جیسے میزائل اور ڈرون بھی فوج کی تحویل میں دینے کی پابند ہو گی۔ اسی طرح اس مرحلے میں امریکہ سعودی عرب، فرانس، قطر اور دیگر "دوست" ممالک کے تعاون سے لبنان کی مالی امداد اور تعمیر نو کے لیے ایک اقتصادی کانفرنس کا انعقاد کرے گا۔ یہ کانفرنس لبنان کو ایک ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ روڈ میپ کو عملی شکل دینے کی منصوبہ بندی بھی کرے گی۔ امریکہ "ترقی"، "تعمیر نو" اور "دوستی" جیسے فریبکارانہ الفاظ کے ذریعے لبنان میں قومی اور مذہبی اختلافات کو فروغ دینے کے درپے ہے۔
اقتدار کے ہمراہ مزاحمت
لبنان کے اندر اور باہر حزب اللہ لبنان کے دشمن بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ امریکی اور اسرائیلی مداخلت کے خلاف بھرپور انداز میں جدوجہد کرے گی۔ حزب اللہ نے بھی بدھ کے دن اعلان کیا کہ وہ حکومت کی جانب سے خود کو غیر مسلح کرنے کے فیصلے کو "کالعدم" سمجھتی ہے اور اسے "عظیم گناہ" قرار دیتی ہے۔ حزب اللہ لبنان پہلے سے ہی غیر مسلح ہونے کو مسترد کر چکی تھی۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے منگل کے دن اپنی تقریر میں کہا تھا: "ہم بیرونی سرپرستی، امریکی جارحیت اور اندرونی بدمعاشی کا مقابلہ کریں گے۔ یہ لبنان کی خودمختاری کی حفاظت کا ایک خطرناک مرحلہ ہے لیکن ہم فوج، عوام اور مزاحمت اور ان میں پائے جانے والے اتحاد کی برکت سے طاقتور ہیں۔" جمعرات کی رات لبنان کے مختلف شہروں میں حزب اللہ کے حق میں عظیم مظاہرے منعقد ہوئے۔
شکست خوردہ فارمولے کی دوبارہ کوشش
گذشتہ چند عشروں کے دوران امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم نے پابندیوں، سفارتی دباو، نفسیاتی جنگ اور حتی فوجی جارحیت کے ذریعے حزب اللہ لبنان کو کمزور یا گوشہ نشین کرنے کی بارہا کوشش کی ہے لیکن اس کی یہ کوششیں نہ صرف کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ اکثر ان کا برعکس نتیجہ ظاہر ہوا اور لبنانی عوام میں حزب اللہ کی محبوبیت مزید بڑھی ہے۔ خاص طور پر 2006ء میں 33 روزہ جنگ جس میں حزب اللہ نے اسرائیلی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور عوام نے اس کی بھرپور قدردانی کی۔ امریکہ اور اسرائیل کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ لبنانی عوام میں حزب اللہ کی گہری جڑیں ہیں جس کے باعث وہ بھاری عوامی حمایت سے برخوردار ہے۔ حزب اللہ لبنان نے ملک بھر میں فلاح و بہبود، تعلیم، میڈیکل اور قرضہ جات کے نیٹ ورکس بنا رکھے ہیں جن کے ذریعے لبنانی عوام کی ہر طرح کی مدد کی جاتی ہے۔
لبنان حکومت صیہونیوں کی آلہ کار
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے لبنان حکومت کی جانب سے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے منصوبے کی منظوری دیے جانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دشمنوں کی جانب سے لبنان میں اسلامی مزاحمت کی دفاعی طاقت کو کمزور کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے جبکہ حزب اللہ لبنان کی جانب سے اس کی مخالفت اور امل تحریک اور نبیہ بری کی جانب سے حزب اللہ کی حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبنان کے اہل تشیع طاقت کے عروج پر ہیں اور دشمن اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس مسئلے میں حزب اللہ لبنان کے ہر فیصلے کا احترام کرتا ہے اور اس کی حمایت کرے گا۔ اس موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کسی قسم کی مداخلت کے بغیر اسلامی مزاحمت کی اصولی حمایت کرتا ہے۔ حزب اللہ لبنان نے بھی اپنے بیانیے میں حکومت کے اس فیصلے کو اسٹریٹجک غلطی قرار دیا ہے۔