زباں فہمی259 ؛ دارُالّسُرُور۔رام پور (حصہ چہارُم)
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
پچھلی قسط کے اختتام پر کپتان فانتوم کا ذکر اَدھورا چھوڑا تھا۔ آئیے اس منفرد شخصیت کے متعلق کچھ بات کرتے ہیں:
تاریخ ِ ادبیاتِ رام پور (از حکیم محمد حسین خاں) سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’تاریخِ رام پور کا یہ بھی ایک روشن پہلو ہے کہ اِس میں ریاستی زندگی کے ہر موڑ پر اور علم واَدب کے ہر محاذ پر مختلف ذات پات اور مُلک و مِلّت کے لوگ شِیروشکر رہے۔ یہاں قیام الدین محمد قائم چاندپوری کے ساتھ ذوقی رام حسرتؔ دہلوی، دواکر رَاہی ؔ امروہوی کے ساتھ عروجؔ زیدی بدایونی، جارج فانتوم فرانسیسی (فرانسی: س ا ص) کے ساتھ، چیپ مین لندنی نے علم واَدب کی خدمات انجام دیں اور ریاستی دور (یعنی نوابی دور: س اص) میں کبھی مذہب یا قوم کی بنیاد پر بھید بھائو نہیں برتا گیا۔ ملازموں میں بھی محکمہ مال اور خارجہ تعلقات کا محکمہ’دارالانشاء‘ غیرمسلموں کے پاس میں تھا ۔ جن بیرونی شعراء کو رام پور مں بُلاکر نوازا گیا ، اُن میں غیرمسلموں کی بھی خاصی تعداد ہے‘‘۔
جارج فانتوم [George Fanthome] 1822ء میں رام پور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد برنارڈ فانتوم (فرینچ میں بیغ نَو فاں توم) حیدرآباد، دکن کی فرینچ فوج میں ملازم تھے۔ وہ اُن منفرد فرنگیوں میں شامل تھے جنھوں نے خود کو مشرقی تہذیب میں رنگنے کے لیے عربی وفارسی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور خطہ ہند کی مشترکہ زبان اردو میں اظہارِخیال کو اپنا شعار بنایا۔ اُن کے عربی وفارسی اساتذہ میں حافظ شیرانی طالبؔ، مولوی محمد نورالاسلام اور مولوی محمد حفیظاللّہ شامل تھے، جبکہ شاعری میں وہ میرنجف علی شفقتؔ کے شاگرد تھے ;لکھنے والوں نے تو احتیاطاً مشورہ سخن لکھا، مگر میری رائے میں عموماً کسی کو مستند اور منجھا ہوا بتانے کے لیے ’اصلاح‘ کی بجائے ’مشورہ‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے(خود راقم کے اصلاح یافتگان میں بعض مشاہیر شامل ہیں جن کے نام کا اِخفاء ضروری ہے، سو یہ راز بھی کم ہی کھُلتا ہے کہ مشورہ سخن کے نام پر باقاعدہ اصلاح بھی ہوجاتی ہے)۔ اردو اور فارسی پر اہل زبان کی سی دسترس کے حامل کپتان فانتوم، ’صاحب‘ اور ’جرجیس‘ تخلص کرتے تھے ;جرجیس (علیہ السلام) ایک نبی کا نام ہے جنھیں اُن کی قو م نے آرے سے چِیر کر شہید کردیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق، وہ رومن فوج میں ملازم تھے۔ یہاں بہ یک وقت دو باتیں معلوم ہوئیں:
ا)۔ کپتان جارج فانتوم کا نام اسی پیغمبر کے نام پر رکھا گیا تھا اور وہ بھی فوجی تھے۔
ب)۔ کپتان موصوف بہت مذہبی تھے اور شاعری میں (تمام دُنیَوی معاملات برتنے کے باوجود)، ایک تخلص جرجیس بھی رکھا، جس سے اُن کی عقیدت کا پتا چلتا ہے۔
{حضرت جرجیس کے زمانہ ولادت وبعثت اور نبوت کے متعلق اختلاف ِ رائے پایا جاتا ہے، مگر بہرحال مشہور تفسیری روایات کی رُو سے وہ نبی تھے۔ انھیں مسیحی روایات میں Saint Georgeکہا جاتا ہے۔ یہ نام یونانی زبان میں Georgios ہے جو لاطینی یا رومن زبان کے "georgós"سے مشتق ہے اور اِس کا مطلب ہے، مٹّی میں کام کرنے والا یا کسان ("earth-worker" or "farmer")۔ اٹلی کی نئی زبان اطالوی [Italian] میں یہی نام Giorgio بن گیا، جبکہ ہِسپانوی [Spanish] اور پُرتگِیز میں اسے Jorge لکھا جاتا ہے۔ یہی نام جب فرینچ میں گیا تو Georgesہوگیا جسے مشرق میں ’جرجیس‘ بنالیا گیا، بہرحال عربی اور فارسی میں ’جورج‘ بھی موجود ہے، نیز اُردو میں جارج لکھ کر ’جورج‘ ہی بولا جاتا ہے۔ دنیا کی اکثر زبانوں میں بہ اختلافِ تلفظ یہ اسم معرفہ موجود ہے۔}
کپتان جارج فانتوم صاحبؔ و جرجیسؔ کا نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں:
میں بھی فرزندِسپاہی ہوں، نہیں ڈرنے کا
تیغ ِ ابرو نہ بہت اے بُتِ رعنا چمکا
٭٭٭٭
تبسم نہ کر اَپنی ہستی پہ گُل
جہاں میں جو آیا، بہت کم رہا
٭٭٭٭
تِل تک نہیں ہے غیرمحل، اُس کے چہرے پر
اُس مُصحفِ شریف میں نقطہ نہیں غلط
٭٭٭٭
آخرش پُرسش کرے گا کوئی تو روزِجزا
جائوں گا قاتل کی مَیں تصویر لے کر ہاتھ میں
٭٭٭٭
سرسوں کے پھول بھیجے ہیں اُس نے مزار پر
لائی ہے اب کے سال شگوفہ نیا بَسَنت
یہاں موضوع کی وسعت اور گہرائی کے پیش نظر کپتان فانتوم کا ذکر فقط اس جملے پر سمیٹتا ہوں کہ وہ ہر اعتبار سے بھرپور شاعر تھے جنھوں نے اہلِ زبان کی طرح صنائع بدائع، محاورے اور ضرب الامثال کے برمحل استعمال سے اپنا کلام مزیّن کیا اور آج کے دور میں کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی گورے کی طبع آزمائی ہوگی۔
ویسے ماضی میں روزنامہ ایکسپریس ہی میں خاکسار نے ایک مضمون بعنوان ’اُردو کے فرنگی شعراء‘ لکھا تھا جو آنلائن دستیاب ہے۔
تخلص ’صاحب‘ کے حامل ایک اور فرنگی شاعر جوہانس صاحب بھی تھے جو لکھنؤ کے مشہور شاعر وزیرعلی صباؔ کے شاگرد تھے، گویا امیرؔ مینائی کے اُستاد بھائی۔ اُن کا یہ شعر منقول ہے:
دیکھنا توڑ کے وحشت ، میں نکل جائوں گا
مجھ کو پہناتے ہو، زنجیر پہ زنجیر عبث!
دربارِ رام پور نے دِلّی اور لکھنؤ کے اُجڑے پُجڑے مشاہیرِسخن کو اپنے دامن ِ عاطفت میں جگہ دے کر اُن کا شعری سفر بھرپور طریقے سے جاری رکھنے اور خوش حال زندگی بسر کرنے کا خاص اہتمام کیا۔ یہ بات اظہرمِنَ الشمس ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید ہمارے بڑے بڑے شعراء شہرت وعظمت و دولت کی اس بلندی کو نہ پہنچ پاتے۔ امیرؔ مینائی کے استاد، اسِیر ؔ لکھنوی (سید مظفر علی) نے اپنی رام پور آمد کا پتا اس قطعے میں دیا:
کسی زمانے میں تھا لکھنؤ مِرا مسکن
کہ آج ہے وہ چمن زار، پائمالِ خزاں
(صحیح لفظ ’پامال‘ ہے، مگر ایک طویل مدت تک اس طرح کی غلطیاں عام رہیں اور آج بھی بعض لوگ غلط ہی باندھ رہے ہیں)
خُدا کے فضل سے نعم البدل ملا مجھ کو
وہ شہر کون؟ جو ہے رام پور خُلد نِشاں
امیرؔ مینائی نے بھی حق نمک اداکرتے ہوئے ریاست اور والی ٔ ریاست کی خوب خوب مدح سرائی فرمائی، محض ایک نمونہ:
کونین کے مزے ہیں بشر کو یہاں نصیب
دونوں جہاں سے سیر ہیں مہمانِ رام پور
دربارِرام پور کے وابستگان میں ایک شاعر آزادؔ انصاری سہارن پوری بھی تھے جن کا نام اِن دنوں چنداں معروف نہیں، انھوں نے بھی تعریف میں بُخل سے کام نہیں لیا اور کہہ گئے:
لائی ہے قدردانی ِ اصحابِِ قدرداں
آیا ہوں حسبِ دعوتِ سرکارِ رام پور
سمجھا ہے مجھ کو لائق ِ لطفِ عطائے خاص
شکریہِ عنا یتِ سرکار ِ رام پور
یہی دورتھا جب دِلّی اور لکھنؤ کے متأثرین آپس میں بھی طعن وتشنیع کے مرتکب ہورہے تھے اور ایسے میں مُنیر شِکوہ آبادی کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی جس کا مقطع تھا:
افسوس ہے منیر ؔ نہیں کوئی قدرداں
شرمندہ ہوں میں اپنے کمالوں کے سامنے
جب نواب رام پوریوسف علی خاں ناظمؔ نے یہ غزل سُنی تو ظاہر ہے کہ اُن کی غیرت نے جوش مارا، فوراً منیرؔ کو سفرخرچ ارسال کرتے ہوئے منظوم دعوت نامہ بھی دیا کہ:
ناظمؔ! منیرؔ آئے یہاں، ہم ہیں قدرداں
شرمندہ کیوں ہے اپنے کمالوں کے سامنے
منیرؔ نے اُس وقت تو معذرت چاہی، قاصد کو سفرخرچ سمیت واپس روانہ کرکے منظوم معذرت نامہ بھیجا، بعداَزآں وہ بھی رام پور پہنچے اور وہیں انتقال ہوا۔
ماقبل ذکرہوا غیرمسلم شعراء کی دربار سے وابستگی کا تو اِس ضمن میں معروف اردو شاعر تلوک چند محروم (یکم جولائی 1887ء تا 6 جنوری 1966)ؔ کا قطعہ ملاحظہ فرمائیں:
اگرچہ ہم نکل آئے ہیں گھر سے دُور بُہت
نہیں ذرا غمِ غربت کہ رام پور آئے
یہ وہ جگہ ہے کہ پاتا ہے دل سُرور جہاں
یہ وہ مقام ہے آنکھوں میں جس سے نُور آئے
اسی طرح صاحبِ علم سخنور پنڈِت برج موہن دتاتریہ کیفیؔ نے ارشاد کیا:
مرکز ِ اَدب کا رُو حِ سخن رام پور ہے
یہ شمع وہ ہے جس کا زمانے میں نور ہے
سب حکمراں کے عدل و کرم سے ہیں چین میں
میرے خیال میں تو یہ آرام پور ہے
خواجہ عبدالرئوف عشرتؔ لکھنوی نے سچ کہا تھا کہ ’’اردو زبان کی علمی خدمتوں کے لحاظ سے والی ریاست دارالسرور، رام پور کا عہد بہت وقیع تھا۔ دربارِاکبری کے نَورَتن بہت مشہور ہیں، مگر دربارِرام پور کے دُرِّانتخاب، ریاست کی تحقیقی نظر سے داد دینے کے قابل تھے۔ کوئی مشہور شاعر، کوئی دانا پنڈِت یا مستند عالم ایسا نہ تھا جو ریاست کا وظیفہ خوار نہ ہو اور دربار رام پور سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ شاعروں کا ایسا انتخاب تو کسی بادشاہ نے بھی نہ کیا ہوگا۔ اسی بناء پر لوگ آج تک دربارِ رام پور کو یاد کرتے ہیں‘‘۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ رام پور کی شہرت ومقبولیت کا بنیادی سبب، دربارِ رام پور کا منفرد سلوک تھا۔ نواب صاحب ہر طرح کے نازک مزاج، تُند خُو یا گرم مزاج کے حامل شاعروں کی نازبرداری کرتے، انھیں باقاعدہ ملازم رکھتے، اُن کی معاشی سرپرستی فرماتے اور کہیں ایسا کچھ نہ ہونے دیتے کہ اُن کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچے۔ یہ مثال یقیناً لائق صدتحسین وتقلید ہے، ورنہ شاہوں، راجوں اور نوابوں کے یہاں ہر اِقدام کا ڈھنڈورا پِیٹا جانا معمول کی بات تھی۔ یہی سبب ہے کہ دیارِغیر بشمول عرب، ایران و افغانستان سے بھی اہل علم وادب کشاں کشاں رام پور چلے آتے تھے۔
ایک مرتبہ پھر تاریخ سے خوشہ چینی کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ ریاست ِ رام پور کی تشکیل درحقیقت ایک تخریب کے نتیجے میں ممکن ہوئی یعنی یہ کہ 7 اکتوبر 1774ء کو فرنگیوں نے کٹھیر (روہیل کھنڈ) پر قابض روہیلوں کو جنگ میں شکست دے کر، رام پور تک محدود نہ کیا ہوتا تو ایک جُدا مگر خوش حال ومستحکم ریاست، رام پور معرضِ وجود میں نہ آتی، گویا رام پوری یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ’’مِری تعمیر میں مُضمِر ہے اِک صورت خرابی کی‘‘۔ 1774ء میں، اس سانحے کے بعد، نواب فیض اللّہ خاں نے اپنے بھتیجے اور داماد، صاحب زادہ مصطفی خاں کے مشورے پر قدیم بستی ’رَم پورہ‘ یا رام پور (قصبہ شاہ آباد کے دیہہ) کے علاقے میں نیا شہر بسایا (جہاں نواب موصوف پہلے سے سکونت پذیر تھے)، تو اُس کا نام ’مصطفی آباد‘ ہی رکھا تھا جو بعداَزآں قدیم سے تبدیل ہوکر، رام پور ہوگیا۔ ماقبل یہ ذکر کرچکا ہوں کہ اس قدیم نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔
یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ نواب فیض اللّہ خاں، صاحبِ شمشیر تھے، شاعر، ادیب یا عالم نہ تھے، مگر علم دوست شخص تھے، لہٰذا انھوں نے اپنے نجی کُتب خانے کے قدیم مخطوطات اور کُتب پر مبنی رضا لائبریری، رام پور کا سنگ ِ بنیاد رکھا جو آگے چل کر ایک معتبر اِدارہ بن گیا۔ باقاعدہ ادبی سرگرمیوں کا آغاز، بہرحال اُن سے منسوب نہیں، اس ضمن میں ہمیں نواب کے چھوٹے بھائی صاحب زادہ محمد یارخاں امیرؔ کا ذکر کرنا واجب ہے (جو شعرگوئی، مُوسِیقی، شکار اور سیروسیاحت کے شیدائی تھے)، جن کے طفیل اوّل اوّل ٹانڈہ، نزد آنولہ (نواحِ رام پور) میں قائم ؔ چاند پوری و تلامذہ کی آمد اور شعری سرگرمیوں سے ادبی فضاء قائم ہوئی، پھر یہ سلسلہ بتدریج ریاست کے قیام کے بعد، وہاں منتقل ہوگیا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ صاحب زادہ موصوف نے اپنے وقت کے اُستادِسخن میرزا رفیع سوداؔ کو اپنی شعری اصلاح وسرپرستی کے لیے دعوت دی تھی، مگر اُن کے انکار کے بعد قائم ؔ کو مدعو کیا۔ شاگرد صاحب زادہ امیرؔ نے اُن کا وظیفہ سَوروپے (100) روپے ماہوار مقرر کیا تھا۔ اُن دنوں اس سلسلے سے فیض اُٹھانے والوں میں فِدوی ؔلاہوری، محمد نعیم پروانہؔ، علی شاہ شاعرؔ، حکیم کبیر علی کبیر ؔسنبھلی، میاں عشرتؔ اور مُصحفیؔ جیسے اسماء شامل تھے۔ ان کے علاوہ ایک طویل فہرست دستیاب ہے جس میں بعض شعراء فقط فارسی گو تھے یعنی اُن کی وجہ شہرت اُن کا فارسی کلام تھا، جبکہ متعدد شعراء اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ ان میں بعض ہندو بھی شامل تھے۔
قائمؔ چاند پوری اس پائے کے شاعر تھے کہ تمام متداول تذکروں میں اُن کا نام اور احوال منقول ہے، معتبر ومحقق تذکرہ نگار اِس امر سے اتفاق کرتے ہیں کہ وہ میرؔ اور دردؔ کے پائے کے شاعر تھے، جبکہ شیخ چاند ایم ۔اے کی تحقیق کے مطابق، قائم ؔ کے پانچ سو (500) اشعار، دیوانِ سوداؔ کے مرتب کی سہل انگاری کے سبب، میرزا سوداؔ سے منسوب ہوگئے ;ظاہر ہے کہ وہ کلام قائمؔ نے اپنے اس آخری استاد (بعد اَز شاہ ہدایتؔ و خواجہ میر دردؔ) میرزا محمد رفیع سوداؔ کو بغرضِ اصلاح دیا تھا۔ ناواقفین کے لیے عرض ہے کہ یہ کتاب ہمارے ایم اے اردو کے نصاب میں شامل ہے۔ قائم ؔ کا مشہور بلکہ ضرب المثل شعر ہے:
قسمت تو دیکھ، ٹُوٹی ہے جاکر کہاں کمند
کچھ دُور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
اسے بھی یار لوگوں نے اپنے حساب سے تبدیل کرکے مشہور کردیا۔
قائم ؔ کا یہ شعر بھی مشہور تھا:
قائمؔ اور تجھ سے طلب بوسے کی، کیوں کر کہیے
یوں وہ ناداں ہے پر اِتنا تو بدآموز نہیں
صاحب زادہ محمد یار خاں امیرؔ جیسے نغز گوشاعر کا دیوان مرتب ہوا نہ محفوظ، مگر منتشر کلام جابجا ملتا ہے۔ اُن کا یہ مشہور ِزمانہ شعر دوسرے شعراء سے منسوب کردیا جاتا ہے اور اس میں تبدیلی بھی کردی جاتی ہے:
شکست وفتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
(جاری)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جارج فانتوم رام پور کا شامل تھے جاتا ہے نے اپنے کے لیے کا نام
پڑھیں:
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب تفہیم القرآن، بانی جماعت اسلامی!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مولانا مودودیؒ ایک نا بغہ روزگار شخصیت تھے جن کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔مولانا سید مودودی ؒ نے اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا اورقرآن و سنت کی روشنی میں جدید مسائل کے حل پیش کیے۔ ان کی تصانیف نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا با لخصوص مصر، ترکی، تیونس، الجزائر، اور دیگر ممالک میں اسلامی تحریکوں کو متاثر کیا۔ ‘’’الجہاد فی الاسلام‘‘، ’’اسلامی ریاست‘‘،’’سیرت رسول ﷺ‘‘، ’’سود‘‘، ’’پردہ ‘‘، اور’’رسائل و مسائل‘‘ جیسی مشہور و معروف تصانیف ان کے قلم کا شاہکار ہیں۔’’الجہاد فی الاسلام‘‘ ان کی پہلی بڑی تصنیف تھی، جسے 24 سال کی عمر میں لکھا۔ علامہ محمد اقبال نے اس کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’’اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانون صلح و جنگ پر ایک بہترین تصنیف ہے‘‘۔سید مودودیؒ سے راقم کو کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ ان سے میرا پہلا تعارف بھی ان کی کتب کے ذریعے ہوا۔
مولانا مودودیؒ کے نزدیک اسلام محض چند عبادات کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک کامل تہذیب اور نظام زندگی ہے۔ انہوں نے مغربی تہذیب کے ’’دین و سیاست کی جدائی‘‘ کے نظریے کی مخالفت کی اور کہا کہ اسلام میں دین اور سیاست ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں علامہ اقبال شعر لکھاکہ: ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پیدائش: 25 ستمبر 1903ء، وفات: 22 ستمبر 1979ء کو ہوئی۔وہ بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر، مفسر قرآن، مصنف، صحافی، اور سیاسی رہنما تھے۔ آپ کا شمار دنیا کے مؤثر ترین مسلم علماء میں ہوتا ہے۔ آپ کی فکر اور تحریک نے نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ مولانا مودودیؒ کی 46ویں برسی 22 ستمبر کو منائی جا رہی ہے، جو ان کی گراں قدر خدمات کو یاد کرنے کا ایک موقع ہے۔
مولانا مودودی ؒ نے جماعت اسلامی کی شکل میں ایسی تحریک اٹھائی جو خالصتا ً حکومت الٰہیہ کے قیام کی تحریک تھی۔اسلام کے نام پر مسلم معاشروں میں بہت سی جماعتیں پہلے سے کام کررہی تھیں مگر وہ سب اسلام کو ایک مذہب اور عبادت و ریاضت سے آگے بڑھ کر دیکھنے کو بھی تیار نہیں تھیں،جبکہ سید مودودیؒ نے اسلام کو ایک دین اور نظام زندگی کے طور پر پیش کیا۔بلا شبہ یہ ان کا بڑا کارنامہ اور امت مسلمہ پر عظیم احسان ہے۔
1933ء میں مولانا مودودیؒ نے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کا اجراء کیا، جو ان کے افکار و خیالات کے اظہار کا اہم ذریعہ بنا۔ اس رسالے کے ذریعے انہوں نے براہ راست مسلمانوں سے خطاب کیا اور اسلام کے بنیادی اصولوں کو واضح کیا۔مولانا مودودیؒ کی سب سے عظیم دینی خدمت ’’تفہیم القرآن‘‘ ہے، جو چھ جلدوں پر مشتمل قرآن مجید کی تفسیر اور ترجمہ ہے۔ اس کی تدوین میں انہوں نے 30 سال (1942ء تا 1972ء) صرف کیے۔ یہ تفسیر روایتی تفسیر سے ہٹ کر لکھی گئی، جس میں معاشیات، سماجیات، تاریخ، اور سیاسیات جیسے موضوعات پر قرآن کے نقطہ نظر کو واضح کیا گیا۔جدید مسائل کے حوالے سے قرآن کریم کی رہنمائی۔قرآن کے فلسفہ اور مقاصد کی گہری شرح۔سیرت نبوی ﷺ اور تاریخی واقعات کی روشنی میں آیات کی تشریح۔ اس تفسیر کا ترجمہ انگریزی، عربی، ہندی، بنگالی، ملیالم، ماراٹھی، پشتو، اور دیگر کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور انسانیت کی ہدایت کے لیے وقف کی۔ انہوں نے نہ صرف علمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں، بلکہ جماعت اسلامی کی شکل میں ایک تحریک بھی چلائی، جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ ان کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ اور دیگر تصانیف آج بھی اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اسلامی تعلیمات کو واضح کرنے کا ذریعہ ہیں۔
مولانا مودودیؒ نے صرف علمی و فکری میدان میں ہی خدمات انجام نہیں دیں، بلکہ انہوں نے معاشرتی اصلاح اور انسانیت کی بہبود کے لیے بھی کام کیا۔ انہوں نے ’’خدمت خلق‘‘کو اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ قرار دیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ ان کی قیادت میں جماعت اسلامی نے سماجی خدمات کے متعدد منصوبے شروع کیے، جن میں غریبوں کی مدد، تعلیمی اداروں کا قیام، اور مفت طبی امداد شامل تھے۔مولانا مودودیؒ کی 46ویں برسی پر ہمیں ان کے افکار و نظریات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ان کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ’’توحید‘‘کا حقیقی شعور دیا اور اسلام کو ایک کامل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا۔ آج کے دور میں جب اسلام کو غلط تشریحات کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے، مولانا مودودیؒ کی فکر ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
مولانا مودودیؒ نے 26 اگست 1941ء کو جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی، جو ایک اسلامی تحریک اور سیاسی جماعت تھی۔ اس کا مقصد اسلام کے نفاذ اور اسلامی نظام حیات کی بحالی تھا۔ ابتداء میں مولانا مودودیؒ ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے، لیکن بعد میں پاکستان کے اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے کوشاں رہے۔
مولانا مودودیؒ کی فکر اور تحریروں نے عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں کو متاثر کیا۔ اخوان المسلمون مصر،فلسطین میں حماس اور شمالی امریکہ میں اسلامک سرکل جیسی تنظیموں نے ان کے افکار سے استفادہ کیا۔ ترکی، تیونس، الجزائر، اور مصر میں اسلامی جماعتوں کی کامیابی میں مولانا مودودیؒ کے لٹریچر نے کلیدی کردار ادا کیا۔1979ء میں مولانا مودودیؒ کو سعودی عرب کے شاہ فیصل انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا، جو ان کی اسلامی خدمات کا اعتراف تھا۔ انہوں نے مدینہ اسلامی یونیورسٹی کے قیام اور انتظام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
1953ء میں تحریک ختم نبوت کے دوران مولانا مودودیؒ کو گرفتار کیا گیا اور ایک فوجی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی۔ تاہم، بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے یہ سزا تبدیل کر دی گئی۔ مولانا نے سزا کے خلاف اپیل کرنے سے انکار کر دیا اور کہا: ’’زندگی و موت کے فیصلے زمینوں پر نہیں آسمانوں پر ہوتے ہیں ‘‘۔اگر اللہ کے ہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو مجھے کوئی بچا نہیں سکتا اور اگر وہاں ابھی میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو یہ سارے الٹے بھی لٹک جائیں تب بھی میرا بال بیکا نہیں کرسکتے۔
مولانا مودودیؒ نے ہمیشہ اسلامی اصولوں کی تشریح میں ’’توحید‘‘اور ’’حاکمیت الہی‘‘ کو مرکزی حیثیت دی، اور ان کی کوشش تھی کہ اسلام کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا جائے۔
مولانا مودودیؒ 22 ستمبر 1979ء کو لاہور میں وفات پا گئے۔ ان کی نماز جنازہ قذافی سٹیڈیم لاہور میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ انہیں 75 سال کی عمر پائی، لیکن ان کا علمی و فکری ورثہ آج بھی زندہ ہے۔مولانا مودودیؒ نے اپنی زندگی میں 120 سے زیادہ کتابیں لکھیں، جو دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ ان کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی، اور یہ جدید دور کی سب سے مقبول تفسیروں میں سے ایک ہے۔