زباں فہمی259 ؛ دارُالّسُرُور۔رام پور (حصہ چہارُم)
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
پچھلی قسط کے اختتام پر کپتان فانتوم کا ذکر اَدھورا چھوڑا تھا۔ آئیے اس منفرد شخصیت کے متعلق کچھ بات کرتے ہیں:
تاریخ ِ ادبیاتِ رام پور (از حکیم محمد حسین خاں) سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’تاریخِ رام پور کا یہ بھی ایک روشن پہلو ہے کہ اِس میں ریاستی زندگی کے ہر موڑ پر اور علم واَدب کے ہر محاذ پر مختلف ذات پات اور مُلک و مِلّت کے لوگ شِیروشکر رہے۔ یہاں قیام الدین محمد قائم چاندپوری کے ساتھ ذوقی رام حسرتؔ دہلوی، دواکر رَاہی ؔ امروہوی کے ساتھ عروجؔ زیدی بدایونی، جارج فانتوم فرانسیسی (فرانسی: س ا ص) کے ساتھ، چیپ مین لندنی نے علم واَدب کی خدمات انجام دیں اور ریاستی دور (یعنی نوابی دور: س اص) میں کبھی مذہب یا قوم کی بنیاد پر بھید بھائو نہیں برتا گیا۔ ملازموں میں بھی محکمہ مال اور خارجہ تعلقات کا محکمہ’دارالانشاء‘ غیرمسلموں کے پاس میں تھا ۔ جن بیرونی شعراء کو رام پور مں بُلاکر نوازا گیا ، اُن میں غیرمسلموں کی بھی خاصی تعداد ہے‘‘۔
جارج فانتوم [George Fanthome] 1822ء میں رام پور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد برنارڈ فانتوم (فرینچ میں بیغ نَو فاں توم) حیدرآباد، دکن کی فرینچ فوج میں ملازم تھے۔ وہ اُن منفرد فرنگیوں میں شامل تھے جنھوں نے خود کو مشرقی تہذیب میں رنگنے کے لیے عربی وفارسی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور خطہ ہند کی مشترکہ زبان اردو میں اظہارِخیال کو اپنا شعار بنایا۔ اُن کے عربی وفارسی اساتذہ میں حافظ شیرانی طالبؔ، مولوی محمد نورالاسلام اور مولوی محمد حفیظاللّہ شامل تھے، جبکہ شاعری میں وہ میرنجف علی شفقتؔ کے شاگرد تھے ;لکھنے والوں نے تو احتیاطاً مشورہ سخن لکھا، مگر میری رائے میں عموماً کسی کو مستند اور منجھا ہوا بتانے کے لیے ’اصلاح‘ کی بجائے ’مشورہ‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے(خود راقم کے اصلاح یافتگان میں بعض مشاہیر شامل ہیں جن کے نام کا اِخفاء ضروری ہے، سو یہ راز بھی کم ہی کھُلتا ہے کہ مشورہ سخن کے نام پر باقاعدہ اصلاح بھی ہوجاتی ہے)۔ اردو اور فارسی پر اہل زبان کی سی دسترس کے حامل کپتان فانتوم، ’صاحب‘ اور ’جرجیس‘ تخلص کرتے تھے ;جرجیس (علیہ السلام) ایک نبی کا نام ہے جنھیں اُن کی قو م نے آرے سے چِیر کر شہید کردیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق، وہ رومن فوج میں ملازم تھے۔ یہاں بہ یک وقت دو باتیں معلوم ہوئیں:
ا)۔ کپتان جارج فانتوم کا نام اسی پیغمبر کے نام پر رکھا گیا تھا اور وہ بھی فوجی تھے۔
ب)۔ کپتان موصوف بہت مذہبی تھے اور شاعری میں (تمام دُنیَوی معاملات برتنے کے باوجود)، ایک تخلص جرجیس بھی رکھا، جس سے اُن کی عقیدت کا پتا چلتا ہے۔
{حضرت جرجیس کے زمانہ ولادت وبعثت اور نبوت کے متعلق اختلاف ِ رائے پایا جاتا ہے، مگر بہرحال مشہور تفسیری روایات کی رُو سے وہ نبی تھے۔ انھیں مسیحی روایات میں Saint Georgeکہا جاتا ہے۔ یہ نام یونانی زبان میں Georgios ہے جو لاطینی یا رومن زبان کے "georgós"سے مشتق ہے اور اِس کا مطلب ہے، مٹّی میں کام کرنے والا یا کسان ("earth-worker" or "farmer")۔ اٹلی کی نئی زبان اطالوی [Italian] میں یہی نام Giorgio بن گیا، جبکہ ہِسپانوی [Spanish] اور پُرتگِیز میں اسے Jorge لکھا جاتا ہے۔ یہی نام جب فرینچ میں گیا تو Georgesہوگیا جسے مشرق میں ’جرجیس‘ بنالیا گیا، بہرحال عربی اور فارسی میں ’جورج‘ بھی موجود ہے، نیز اُردو میں جارج لکھ کر ’جورج‘ ہی بولا جاتا ہے۔ دنیا کی اکثر زبانوں میں بہ اختلافِ تلفظ یہ اسم معرفہ موجود ہے۔}
کپتان جارج فانتوم صاحبؔ و جرجیسؔ کا نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں:
میں بھی فرزندِسپاہی ہوں، نہیں ڈرنے کا
تیغ ِ ابرو نہ بہت اے بُتِ رعنا چمکا
٭٭٭٭
تبسم نہ کر اَپنی ہستی پہ گُل
جہاں میں جو آیا، بہت کم رہا
٭٭٭٭
تِل تک نہیں ہے غیرمحل، اُس کے چہرے پر
اُس مُصحفِ شریف میں نقطہ نہیں غلط
٭٭٭٭
آخرش پُرسش کرے گا کوئی تو روزِجزا
جائوں گا قاتل کی مَیں تصویر لے کر ہاتھ میں
٭٭٭٭
سرسوں کے پھول بھیجے ہیں اُس نے مزار پر
لائی ہے اب کے سال شگوفہ نیا بَسَنت
یہاں موضوع کی وسعت اور گہرائی کے پیش نظر کپتان فانتوم کا ذکر فقط اس جملے پر سمیٹتا ہوں کہ وہ ہر اعتبار سے بھرپور شاعر تھے جنھوں نے اہلِ زبان کی طرح صنائع بدائع، محاورے اور ضرب الامثال کے برمحل استعمال سے اپنا کلام مزیّن کیا اور آج کے دور میں کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی گورے کی طبع آزمائی ہوگی۔
ویسے ماضی میں روزنامہ ایکسپریس ہی میں خاکسار نے ایک مضمون بعنوان ’اُردو کے فرنگی شعراء‘ لکھا تھا جو آنلائن دستیاب ہے۔
تخلص ’صاحب‘ کے حامل ایک اور فرنگی شاعر جوہانس صاحب بھی تھے جو لکھنؤ کے مشہور شاعر وزیرعلی صباؔ کے شاگرد تھے، گویا امیرؔ مینائی کے اُستاد بھائی۔ اُن کا یہ شعر منقول ہے:
دیکھنا توڑ کے وحشت ، میں نکل جائوں گا
مجھ کو پہناتے ہو، زنجیر پہ زنجیر عبث!
دربارِ رام پور نے دِلّی اور لکھنؤ کے اُجڑے پُجڑے مشاہیرِسخن کو اپنے دامن ِ عاطفت میں جگہ دے کر اُن کا شعری سفر بھرپور طریقے سے جاری رکھنے اور خوش حال زندگی بسر کرنے کا خاص اہتمام کیا۔ یہ بات اظہرمِنَ الشمس ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید ہمارے بڑے بڑے شعراء شہرت وعظمت و دولت کی اس بلندی کو نہ پہنچ پاتے۔ امیرؔ مینائی کے استاد، اسِیر ؔ لکھنوی (سید مظفر علی) نے اپنی رام پور آمد کا پتا اس قطعے میں دیا:
کسی زمانے میں تھا لکھنؤ مِرا مسکن
کہ آج ہے وہ چمن زار، پائمالِ خزاں
(صحیح لفظ ’پامال‘ ہے، مگر ایک طویل مدت تک اس طرح کی غلطیاں عام رہیں اور آج بھی بعض لوگ غلط ہی باندھ رہے ہیں)
خُدا کے فضل سے نعم البدل ملا مجھ کو
وہ شہر کون؟ جو ہے رام پور خُلد نِشاں
امیرؔ مینائی نے بھی حق نمک اداکرتے ہوئے ریاست اور والی ٔ ریاست کی خوب خوب مدح سرائی فرمائی، محض ایک نمونہ:
کونین کے مزے ہیں بشر کو یہاں نصیب
دونوں جہاں سے سیر ہیں مہمانِ رام پور
دربارِرام پور کے وابستگان میں ایک شاعر آزادؔ انصاری سہارن پوری بھی تھے جن کا نام اِن دنوں چنداں معروف نہیں، انھوں نے بھی تعریف میں بُخل سے کام نہیں لیا اور کہہ گئے:
لائی ہے قدردانی ِ اصحابِِ قدرداں
آیا ہوں حسبِ دعوتِ سرکارِ رام پور
سمجھا ہے مجھ کو لائق ِ لطفِ عطائے خاص
شکریہِ عنا یتِ سرکار ِ رام پور
یہی دورتھا جب دِلّی اور لکھنؤ کے متأثرین آپس میں بھی طعن وتشنیع کے مرتکب ہورہے تھے اور ایسے میں مُنیر شِکوہ آبادی کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی جس کا مقطع تھا:
افسوس ہے منیر ؔ نہیں کوئی قدرداں
شرمندہ ہوں میں اپنے کمالوں کے سامنے
جب نواب رام پوریوسف علی خاں ناظمؔ نے یہ غزل سُنی تو ظاہر ہے کہ اُن کی غیرت نے جوش مارا، فوراً منیرؔ کو سفرخرچ ارسال کرتے ہوئے منظوم دعوت نامہ بھی دیا کہ:
ناظمؔ! منیرؔ آئے یہاں، ہم ہیں قدرداں
شرمندہ کیوں ہے اپنے کمالوں کے سامنے
منیرؔ نے اُس وقت تو معذرت چاہی، قاصد کو سفرخرچ سمیت واپس روانہ کرکے منظوم معذرت نامہ بھیجا، بعداَزآں وہ بھی رام پور پہنچے اور وہیں انتقال ہوا۔
ماقبل ذکرہوا غیرمسلم شعراء کی دربار سے وابستگی کا تو اِس ضمن میں معروف اردو شاعر تلوک چند محروم (یکم جولائی 1887ء تا 6 جنوری 1966)ؔ کا قطعہ ملاحظہ فرمائیں:
اگرچہ ہم نکل آئے ہیں گھر سے دُور بُہت
نہیں ذرا غمِ غربت کہ رام پور آئے
یہ وہ جگہ ہے کہ پاتا ہے دل سُرور جہاں
یہ وہ مقام ہے آنکھوں میں جس سے نُور آئے
اسی طرح صاحبِ علم سخنور پنڈِت برج موہن دتاتریہ کیفیؔ نے ارشاد کیا:
مرکز ِ اَدب کا رُو حِ سخن رام پور ہے
یہ شمع وہ ہے جس کا زمانے میں نور ہے
سب حکمراں کے عدل و کرم سے ہیں چین میں
میرے خیال میں تو یہ آرام پور ہے
خواجہ عبدالرئوف عشرتؔ لکھنوی نے سچ کہا تھا کہ ’’اردو زبان کی علمی خدمتوں کے لحاظ سے والی ریاست دارالسرور، رام پور کا عہد بہت وقیع تھا۔ دربارِاکبری کے نَورَتن بہت مشہور ہیں، مگر دربارِرام پور کے دُرِّانتخاب، ریاست کی تحقیقی نظر سے داد دینے کے قابل تھے۔ کوئی مشہور شاعر، کوئی دانا پنڈِت یا مستند عالم ایسا نہ تھا جو ریاست کا وظیفہ خوار نہ ہو اور دربار رام پور سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ شاعروں کا ایسا انتخاب تو کسی بادشاہ نے بھی نہ کیا ہوگا۔ اسی بناء پر لوگ آج تک دربارِ رام پور کو یاد کرتے ہیں‘‘۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ رام پور کی شہرت ومقبولیت کا بنیادی سبب، دربارِ رام پور کا منفرد سلوک تھا۔ نواب صاحب ہر طرح کے نازک مزاج، تُند خُو یا گرم مزاج کے حامل شاعروں کی نازبرداری کرتے، انھیں باقاعدہ ملازم رکھتے، اُن کی معاشی سرپرستی فرماتے اور کہیں ایسا کچھ نہ ہونے دیتے کہ اُن کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچے۔ یہ مثال یقیناً لائق صدتحسین وتقلید ہے، ورنہ شاہوں، راجوں اور نوابوں کے یہاں ہر اِقدام کا ڈھنڈورا پِیٹا جانا معمول کی بات تھی۔ یہی سبب ہے کہ دیارِغیر بشمول عرب، ایران و افغانستان سے بھی اہل علم وادب کشاں کشاں رام پور چلے آتے تھے۔
ایک مرتبہ پھر تاریخ سے خوشہ چینی کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ ریاست ِ رام پور کی تشکیل درحقیقت ایک تخریب کے نتیجے میں ممکن ہوئی یعنی یہ کہ 7 اکتوبر 1774ء کو فرنگیوں نے کٹھیر (روہیل کھنڈ) پر قابض روہیلوں کو جنگ میں شکست دے کر، رام پور تک محدود نہ کیا ہوتا تو ایک جُدا مگر خوش حال ومستحکم ریاست، رام پور معرضِ وجود میں نہ آتی، گویا رام پوری یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ’’مِری تعمیر میں مُضمِر ہے اِک صورت خرابی کی‘‘۔ 1774ء میں، اس سانحے کے بعد، نواب فیض اللّہ خاں نے اپنے بھتیجے اور داماد، صاحب زادہ مصطفی خاں کے مشورے پر قدیم بستی ’رَم پورہ‘ یا رام پور (قصبہ شاہ آباد کے دیہہ) کے علاقے میں نیا شہر بسایا (جہاں نواب موصوف پہلے سے سکونت پذیر تھے)، تو اُس کا نام ’مصطفی آباد‘ ہی رکھا تھا جو بعداَزآں قدیم سے تبدیل ہوکر، رام پور ہوگیا۔ ماقبل یہ ذکر کرچکا ہوں کہ اس قدیم نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔
یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ نواب فیض اللّہ خاں، صاحبِ شمشیر تھے، شاعر، ادیب یا عالم نہ تھے، مگر علم دوست شخص تھے، لہٰذا انھوں نے اپنے نجی کُتب خانے کے قدیم مخطوطات اور کُتب پر مبنی رضا لائبریری، رام پور کا سنگ ِ بنیاد رکھا جو آگے چل کر ایک معتبر اِدارہ بن گیا۔ باقاعدہ ادبی سرگرمیوں کا آغاز، بہرحال اُن سے منسوب نہیں، اس ضمن میں ہمیں نواب کے چھوٹے بھائی صاحب زادہ محمد یارخاں امیرؔ کا ذکر کرنا واجب ہے (جو شعرگوئی، مُوسِیقی، شکار اور سیروسیاحت کے شیدائی تھے)، جن کے طفیل اوّل اوّل ٹانڈہ، نزد آنولہ (نواحِ رام پور) میں قائم ؔ چاند پوری و تلامذہ کی آمد اور شعری سرگرمیوں سے ادبی فضاء قائم ہوئی، پھر یہ سلسلہ بتدریج ریاست کے قیام کے بعد، وہاں منتقل ہوگیا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ صاحب زادہ موصوف نے اپنے وقت کے اُستادِسخن میرزا رفیع سوداؔ کو اپنی شعری اصلاح وسرپرستی کے لیے دعوت دی تھی، مگر اُن کے انکار کے بعد قائم ؔ کو مدعو کیا۔ شاگرد صاحب زادہ امیرؔ نے اُن کا وظیفہ سَوروپے (100) روپے ماہوار مقرر کیا تھا۔ اُن دنوں اس سلسلے سے فیض اُٹھانے والوں میں فِدوی ؔلاہوری، محمد نعیم پروانہؔ، علی شاہ شاعرؔ، حکیم کبیر علی کبیر ؔسنبھلی، میاں عشرتؔ اور مُصحفیؔ جیسے اسماء شامل تھے۔ ان کے علاوہ ایک طویل فہرست دستیاب ہے جس میں بعض شعراء فقط فارسی گو تھے یعنی اُن کی وجہ شہرت اُن کا فارسی کلام تھا، جبکہ متعدد شعراء اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ ان میں بعض ہندو بھی شامل تھے۔
قائمؔ چاند پوری اس پائے کے شاعر تھے کہ تمام متداول تذکروں میں اُن کا نام اور احوال منقول ہے، معتبر ومحقق تذکرہ نگار اِس امر سے اتفاق کرتے ہیں کہ وہ میرؔ اور دردؔ کے پائے کے شاعر تھے، جبکہ شیخ چاند ایم ۔اے کی تحقیق کے مطابق، قائم ؔ کے پانچ سو (500) اشعار، دیوانِ سوداؔ کے مرتب کی سہل انگاری کے سبب، میرزا سوداؔ سے منسوب ہوگئے ;ظاہر ہے کہ وہ کلام قائمؔ نے اپنے اس آخری استاد (بعد اَز شاہ ہدایتؔ و خواجہ میر دردؔ) میرزا محمد رفیع سوداؔ کو بغرضِ اصلاح دیا تھا۔ ناواقفین کے لیے عرض ہے کہ یہ کتاب ہمارے ایم اے اردو کے نصاب میں شامل ہے۔ قائم ؔ کا مشہور بلکہ ضرب المثل شعر ہے:
قسمت تو دیکھ، ٹُوٹی ہے جاکر کہاں کمند
کچھ دُور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
اسے بھی یار لوگوں نے اپنے حساب سے تبدیل کرکے مشہور کردیا۔
قائم ؔ کا یہ شعر بھی مشہور تھا:
قائمؔ اور تجھ سے طلب بوسے کی، کیوں کر کہیے
یوں وہ ناداں ہے پر اِتنا تو بدآموز نہیں
صاحب زادہ محمد یار خاں امیرؔ جیسے نغز گوشاعر کا دیوان مرتب ہوا نہ محفوظ، مگر منتشر کلام جابجا ملتا ہے۔ اُن کا یہ مشہور ِزمانہ شعر دوسرے شعراء سے منسوب کردیا جاتا ہے اور اس میں تبدیلی بھی کردی جاتی ہے:
شکست وفتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
(جاری)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جارج فانتوم رام پور کا شامل تھے جاتا ہے نے اپنے کے لیے کا نام
پڑھیں:
بابا جی سرکار کا بیٹا
حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں ہوا تھا‘ اس زمانے میں کالی کھانسی لا علاج ہوتی تھی‘ میرے اوپر اس کا حملہ ہوا اور میں قبر تک پہنچ گیا‘ لالہ موسیٰ میں ان دنوں ایک حکیم صاحب ہوتے تھے‘ وہ عرف عام میں حکیم سدھا والے کہلاتے تھے‘ میرے والد ان کے مرید تھے‘ ان کا کہنا تھا اگر یہ نہ ہوتے تو میں کبھی شہر آتا اور نہ آپ لوگ اسکول میں پڑھ رہے ہوتے‘ میرے والد کا خیال تھا حکیم صاحب ولی کامل ہیں اور ان کی زبان اور دوا دونوں میں شفاء ہے‘ وہ اکثر حکیم صاحب کے پاس چلے جاتے تھے چناں چہ وہ مجھے حکیم صاحب کے پاس لے گئے۔
حکیم صاحب نے صرف میرا چہرہ دیکھا اور ایک عجیب سا نسخہ تجویز کیا‘ ان کا فرمانا تھا محمد خان (میرے والد کا نام) تم تازہ گندم لو‘ اسے ابالو‘ اس کا پانی اسے پلا دو اور ابلی ہوئی گندم اسے کھلا دو‘ یہ 15 دن میں ٹھیک ہو جائے گا‘ والد کو حکیم صاحب پر بہت یقین تھا لیکن والدہ ان ٹوٹکوں کے خلاف تھیں‘ انھوں نے یہ گندمی ٹوٹکا ماننے سے انکار کر دیاچناں چہ والد نے مجھے لیا اور گاؤں لے جا کر دادی کے حوالے کر دیا‘ دادی کو پورا خاندان بے بے جی کہتا تھا‘ بے بے جی نے حکیم صاحب کے نسخے کے مطابق مجھے روزانہ دو ٹائم گندم ابال کر کھلانی اورپلانی شروع کر دی‘ اللہ کی کرنی یہ ہوئی میں واقعی ٹھیک ہو گیا‘ میں آج بھی جب کالی کھانسی اور گندم کا آپس میں جوڑ تلاش کرتا ہوں تو مجھے کوئی سرا نہیں ملتا‘ وہ خالصتاً حکیم صاحب کاکرشمہ تھا۔
یہ حکیم صاحب سے میرا پہلا تعارف تھا‘ میں اس کے بعد گاہے بگاہے ان کے مطب پر جاتا رہا‘ حکیم صاحب حافظ قرآن تھے‘ وہ سارا دن تلاوت فرماتے تھے اور مریض دیکھتے تھے‘ مریضوں پر بھی وہ صرف ایک نظر ڈالتے تھے اور سادا سا نسخہ تجویز کر دیتے تھے‘ ان کے پاس میلا لگا رہتا تھا‘ ان میں مریض بھی ہوتے تھے اور ان کے مرید بھی‘ وہ اکثر اوقات مجذوبیت میں کسی نہ کسی کے بارے میں کچھ فرما دیتے تھے اور پھر ویسا ہی ہو جاتا تھا‘ میں شروع میں والد صاحب کے ساتھ ان کے پاس جاتا تھا اور پھر اکیلا بھی چلا جاتا تھا‘حکیم صاحب کھاریاں کے قریب چھوٹے سے گاؤں سدھ کے رہنے والے تھے‘ 12 سال کی عمر میں انھوں نے قرآن مجید حفظ کیا‘ اس کے بعد شریعت اور حکمت کی تعلیم حاصل کی اور لالہ موسیٰ میں آباد ہو گئے‘ طبیعت میں روحانیت پیدائشی تھی لہٰذا وظائف کی طرف چلے گئے‘مشہور تھا ان کے پاس جنات آتے تھے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔
بے شمار لوگ گواہی دیتے تھے ہم نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کو آتے اور پھر بیٹھے بیٹھے غائب ہوتے دیکھا‘ مدتوں بعد ان کے صاحب زادوں سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے جنات کے بارے میں پوچھا‘ انھوں نے گواہی دی‘ بابا جی حضور کے پاس واقعی جنات آتے تھے‘ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا‘ بہرحال قصہ مختصر میں بارہ سال کی عمر میں ایک تپتی دوپہر میں حکیم صاحب کے پاس چلا گیا‘ میرے ہاتھ میں مشرق اخبار کا بچوں کا صفحہ تھا‘ حکیم صاحب اس دن اکیلے بیٹھے تھے‘ سخت گرمی تھی اور ہاتھ کا پنکھا پکڑ کراسے آہستہ آہستہ ہلا رہے تھے‘ مجھے دیکھ کر مسکرائے‘ اندر کی طرف منہ کر کے آواز دی‘ چھوٹا چوہدری آیا ہے‘ اس کے لیے شربت بھجوا دیں‘ اندر سے جی اچھا کی آواز آئی اور وہ میری طرف متوجہ ہو گئے‘ مجھ سے پوچھا پتر تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ میں نے ادب سے بچوں کا صفحہ ان کے سامنے رکھ دیا۔
حافظ صاحب نے اخبار دیکھا‘ اس پر عمرو عیار کی باتصویر کہانی چھپی تھی‘ حافظ صاحب نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا‘ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر پھونکااور فرمایا ’’پتر زندگی میں کچھ بھی ہو جائے اخبار نہیں چھوڑنا‘‘ تھوڑا سا رکے اور پھر فرمایا ’’لکھنا شروع کرو اور وہ بھی نہیں چھوڑنا‘‘ پھر رکے اور پھر فرمایا ’’بڑے ہو کر بولنا بھی شروع کر دینا اور وہ بھی نہیں چھوڑنا‘‘ تھوڑی دیر پھر رکے اور فرمایا ’’تمہارے مقدر میں کہانیاں ہیں‘ وہ بھی نہیں چھوڑنی‘‘ وہ رکے‘ کچھ سوچا اور پھر کچھ فرمانے لگے تھے کہ شربت آ گیا اور سلسلہ تکلم ٹوٹ گیا‘ آپ یقین کریں وہ وقت‘ حافظ کے فرمان اور ان کے ہاتھ کا گداز مجھے آج تک یاد ہے۔
میں کہانی کو مختصر کرتا ہوں‘ حافظ صاحب کے تین بیٹے تھے‘نصیر‘ ظہیر اور کبیر‘ میں نے بچپن میں نصیر اور ظہیر کو دیکھا تھا‘ یہ دونوں مجھ سے بڑے تھے اور اپنے والد کا پیر کی طرح احترام کرتے تھے‘بہرحال زندگی کا سفر جاری رہا‘ میں نے میٹرک کے بعد لالہ موسیٰ چھوڑ دیاجس کے بعد لوگوں سے رابطے بھی کم ہوتے چلے گئے لیکن حافظ صاحب ہمیشہ یاد رہے‘ اس کی تین وجوہات تھیں‘ میں نے زندگی میں بے شمار عبادت گزار‘ متقی اور پرہیز گار لوگ دیکھے ہیں لیکن حافظ صاحب کو ہمیشہ ان سے آگے پایا‘ دوسرا ان کے علاج سے میری جان بچی تھی اور تیسرا مجھے محسوس ہوتا تھا ان کی دعا نے میری زندگی کے راستے کشادہ کر دیے ہیں لیکن اس تمام تر عقیدت کے باوجود ان سے رابطے کم ہو گئے۔
مجھے اس زمانے میں پتا چلا حافظ صاحب کے دوسرے بیٹے ظہیر احمد نے ائیرفورس جوائن کر لی اور یہ اب جہاز اڑاتے ہیں‘ پھر پتا چلا حافظ صاحب علیل ہیں اور ان کا چلنا پھرنا مفقود ہو چکا ہے لیکن وہ اس عالم میں بھی ہر وقت تلاوت کرتے رہتے ہیں‘ میرے والد ان کی عیادت کے لیے جاتے رہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا حافظ صاحب چارپائی تک محدود ہیں لیکن ان کے کمرے اور جسم سے انتہائی شان دار خوشبو آتی ہے‘ یہ مجذوبیت میں کچھ نہ کچھ فرماتے بھی رہتے ہیں لیکن ان کے الفاظ سمجھنا مشکل ہے‘ پھر پتا چلا حافظ صاحب انتقال فرما گئے ہیں اور ان کے مریدوں نے ان کے گاؤں سدھ میں ان کا مزار بنا دیا ہے اور وہاں لوگ دعا کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں بہرحال قصہ مزید مختصر زندگی کا سفر جاری رہا‘ اس دوران پتا چلتا رہا حافظ صاحب کا بیٹا ظہیر احمد ائیرفورس میں مسلسل ترقی کر رہا ہے۔
پھرپتاچلا یہ ائیروائس مارشل بن گیا ہے اور یہ اپنے گاؤں سدھ کے غریب اور لاچار لوگوں کی بے تحاشا مدد کرتا ہے‘ اس نے وہاں سڑکیں بھی بنوائیں‘ اسکول بھی اور درجنوں لوگوں کا مفت علاج بھی کرایا‘ ان کے بڑے صاحب زادے نصیر احمد سیاست میں آئے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں جب کہ تیسرے بیٹے نے بیرون ملک سے پی ایچ ڈی کی اور یہ بھی اپنی فیلڈ میں بہت مشہور ہے اور پھر اچانک عمران خان کے دور میں خبرآئی حافظ صاحب کے صاحب زادے ظہیر احمد بابر سدھو ائیر چیف بن گئے ہیں اور یہاں سے نئی کہانی شروع ہوگئی۔
دنیا پاکستان کی پانچ اوردس مئی کی فتوحات پرحیران ہے‘ سوائے میرے‘کیوں؟ کیوں میں جانتا ہوں یہ فتح حافظ صاحب مرحوم کی دعاؤں کا نتیجہ ہے‘ حافظ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور باطنی دونوں علوم سے نواز رکھا تھا چناں چہ انھوں نے اس وقت ظہیر احمد بابر کو حکم دیا تھا جب یہ ائیرفورس میں میجر لیول کے آفیسر تھے ’’پتر آپ نے نصیر کے کہنے پر ائیرفورس نہیں چھوڑنی‘ تم اس میں وہاں تک جاؤ گے جہاں تک کوئی نہیں جا سکا‘‘ ظہیر صاحب اپنے بھائی نصیر کے زیر اثر ہیں‘ یہ ان کا بہت احترام کرتے ہیں اور نصیر صاحب نے ماضی میں انھیں کئی مرتبہ نوکری چھوڑنے کا مشورہ دیا لیکن حافظ صاحب کے حکم نے ہمیشہ ظہیر صاحب کو ر وک دیا اور آج یہ واقعی اس مقام پر ہیں جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
ائیرمارشل ظہیر احمد بابر اولیاء کرام کا بہت احترام کرتے ہیں‘ یہ جب شورکوٹ میں تھے تو یہ فلائی کرتے ہوئے پہلے گڑھ مہاراجہ میں حضرت سلطان باہوؒ کے والدین کے مزار کوفضائی سلیوٹ کرتے تھے پھر حضرت سلطان باہوؒ کے مزار کو سلیوٹ کرتے تھے اور پھر آگے بڑھتے تھے‘ ان کا معمول تھا یہ فضا میں جہاں سے گزرتے تھے نیچے موجود اولیاء کرام کے مزارات کو سلام پیش کرتے ہوئے آگے بڑھتے تھے‘ والد کو بابا جی حضور کہتے ہیں اور جب بھی ان کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں‘ رسول اللہ ﷺ سے عشق ہے‘ ملک سے جب بھی باہر جاتے ہیں تو پہلے روضہ رسولؐ پر حاضری دیتے ہیں‘ روضہ مبارک کو سلیوٹ کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں حضور پاکستان کے ائیرچیف کا سلیوٹ قبول فرمائیں‘ ذہنی طور پر بے انتہا الرٹ اور چست ہیں‘اپنی ذات میں پوری لائبریری یا پوری یونیورسٹی ہیں‘ انٹیلی جنس سے لے کر اکانومی تک کسی موضوع پر بات کر لیں۔
یہ شخص آپ کو حیران کر دے گا‘ کمیونی کیشن بہت اچھی ہے‘ آپ چھ گھنٹے ان کے سامنے بیٹھے رہیں آپ کی توجہ ایک لمحے کے لیے دائیں بائیں نہیں ہو گی‘ہر واقعہ پوری تفصیل سے سنائیں گے اور چھوٹے سے چھوٹا جزو بھی مس نہیں ہو گا‘ کنونشنل وار سے سائبر وار تک اور کس جہاز میں کون سا پرزہ خراب ہے اور کس پائلٹ نے کون سا جہاز اڑانا ہے اور کس کو کس جگہ رکھنا ہے‘ پاکستان کے نقشے میں کون سا مقام کہاں ہے‘ کس جگہ ہوا کا دباؤ کتنا ہے۔
بھارت‘ ایران‘ افغانستان اور چین چاروں ہمسایوں کی کم زوریاں اور طاقتیں کیا ہیں؟ دس سال میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں گی اور انڈیا کی فوج اور سیاست میں کیا تبدیل ہو رہا ہے ان کو ایک ایک چیز ازبر ہے‘ پاکستان اور بھارت کی اس جنگ کے دوران یہ شخص وار روم سے باہر نہیں نکلا‘ اسٹاف کو سلا دیتے تھے لیکن خود جاگتے رہتے تھے‘ ان کے صرف تین کام ہوتے تھے‘ سجدے‘ اللہ سے فتح کی منت اور ائیرفورس کی فارمیشن‘ ان دس دنوں میں ان کی آنکھیں سوجھ گئیں لیکن انھوں نے آرام نہیں کیا یہاں تک کہ پانچ اور چھ مئی کی درمیانی رات پوری فوج (آرمی‘ نیوی اور ائیرفورس) تالیاں بجا رہی تھی اور 10مئی کی دوپہر تک تمام وار رومز سے اللہ اکبر‘ پاکستان زندہ باد اور ائیرچیف پایندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے لہٰذا اس ایک شخص نے وہ کر دکھایا جس کی دنیا کو امید تک نہیں تھی۔
دنیا آج پاکستانی فتح کو ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر کا کارنامہ سمجھتی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں یہ صرف اور صرف حافظ صاحب مرحوم کی دعاؤں اور التجاؤں کا نتیجہ ہے‘ یہ ان کی برکات ہیں‘ ائیرچیف بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں‘ یہ مانتے ہیں جب محاذ تپ گیا تھا تو میں نے بھائی سے کہا تھا’’آپ باباجی سرکار کے مزار پر جائیں‘ میرا سلام کہیں اور ان سے عرض کریں‘ آپ کے بیٹے اور آپ کے ملک کو آپ کی مدد چاہیے’’میرے بابا جی سرکار میرے پیچھے کھڑے ہو گئے اور یوں ہم سرفراز ہو گئے‘‘۔