عالمی سطح پر پاکستان کے حق میں دو اہم فیصلے
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
عالمی مستقل ثالثی عدالت نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے، بھارت مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کے بلا روک ٹوک استعمال کے لیے چھوڑ دے، بھارت نے حال ہی میں سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس سے قبل ثالثی عدالت کی کارروائی کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔ یہ فیصلہ پاکستانی موقف کی فتح ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ جنوبی ایشیاء میں آبی وسائل کی تقسیم کا ایک نادر اور دیرپا بین الاقوامی معاہدہ رہا ہے جس نے عشروں سے دونوں ممالک کے درمیان پانی کے حوالے سے تنازعات کو کسی حد تک روک کر رکھا ہے۔ تاہم، وقتاً فوقتاً اس معاہدے کی روح اور اس کے اطلاق کے حوالے سے مختلف نوعیت کے اختلافات جنم لیتے رہے ہیں۔
حال ہی میں عالمی مستقل ثالثی عدالت کی جانب سے پاکستان کے حق میں سنایا گیا فیصلہ، ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے جو نہ صرف پاکستان کے قانونی موقف کی توثیق کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی قانون اور معاہدات کی پاسداری کے اصولوں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
اس فیصلے کی جڑیں انیس اگست دو ہزار سولہ میں اس وقت پیوست ہیں جب پاکستان نے بھارت کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کیا تھا۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ بھارت مغربی دریاؤں پر ایسے منصوبے تعمیر کررہا ہے جو سندھ طاس معاہدے کی روح کے منافی ہیں اور پاکستان کے آبی حقوق پر کاری ضرب ہیں۔
پاکستان کی طرف سے عدالت سے یہ استدعا کی گئی کہ بھارت کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ معاہدے کی مکمل پاسداری کرے اور مغربی دریاؤں جن میں دریائے سندھ، جہلم اور چناب شامل ہیں، کے پانی کو پاکستان کے بلا روک ٹوک استعمال کے لیے چھوڑ دے۔ آٹھ اگست دو ہزار پچیس کو عالمی مستقل ثالثی عدالت کی طرف سے سنایا گیا فیصلہ، پاکستان کے اس مؤقف کی تصدیق کرتا ہے کہ بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی کوشش کی اور پاکستان کے قانونی حقوق کو پامال کرنے کے اقدامات کیے۔
عدالت نے واضح الفاظ میں کہا کہ بھارت ان دریاؤں کے پانی کو نہیں روک سکتا اور اسے معاہدے کے مطابق پاکستان کو یہ پانی مہیا کرنا ہوگا۔ یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان کی قانونی، اخلاقی اور سفارتی کامیابی ہے بلکہ یہ اس امر کا بھی اظہار ہے کہ عالمی برادری بھارت کی جانب سے معاہدوں کی خلاف ورزی پر خاموش نہیں رہے گی۔
اس فیصلے کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب اسے بھارت کی حالیہ حرکات و سکنات کے تناظر میں دیکھا جائے۔ حال ہی میں بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کر کے نہ صرف بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کی کوشش کی بلکہ اس نے عالمی ثالثی عدالت کی کارروائی کا بائیکاٹ بھی کیا۔
اس بائیکاٹ کا مقصد شاید یہ تھا کہ وہ عدالت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرے یا کارروائی کو غیر مؤثر بنا سکے، لیکن عدالت نے اس رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے میرٹ پر فیصلہ سنایا، جو بھارت کے لیے ایک بین الاقوامی تنبیہ بھی ہے کہ قانون سے بالاتر کوئی ریاست نہیں ہوتی۔
اس فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک جانب تو یہ فیصلہ جنوبی ایشیائی خطے میں پانی کے مسئلے پر موجود غیر یقینی صورتحال کو کسی حد تک واضح سمت دے گا، اور دوسری جانب بین الاقوامی برادری کو بھی یہ پیغام دے گا کہ پانی جیسے قیمتی اور حساس وسائل کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی معاہدات کا احترام لازم ہے۔ بھارت کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنی داخلی سیاست یا علاقائی بالادستی کے جنون میں بین الاقوامی اصولوں کو پامال نہ کرے کیونکہ ایسا طرزِ عمل نہ صرف خطے کے امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے بلکہ خود بھارت کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ایک اور اہم پہلو جس پر غور کیا جانا چاہیے وہ ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کے بڑھتے ہوئے عالمی بحران کا ہے۔
دنیا بھر میں آبی ذخائر پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور بارشوں کے نظام میں بے ترتیبی پیدا ہو چکی ہے۔ ایسے میں دریاؤں کا بہاؤ روکنا، ان پر بند باندھنا یا ان کے قدرتی نظام میں مداخلت عالمی ماحولیاتی نظام پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ سندھ طاس معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک فریم ورک ہے بلکہ یہ ایک ماحولیاتی توازن قائم رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔
بھارت کے منصوبے نہ صرف پاکستان کے لیے خطرناک ہیں بلکہ پورے خطے کے ماحول اور زراعت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔پاکستان کو بھی اس کامیابی کے بعد اپنی سفارتی کوششوں کو مزید مؤثر بنانا ہوگا تاکہ یہ عدالتی فیصلہ نہ صرف کاغذی حد تک محدود رہے بلکہ اس پر مکمل عملدرآمد بھی یقینی بنایا جا سکے۔
دوسری جانب امریکا کی جانب سے بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) اور مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر کے دہشت گرد قرار دینا، ایک پیش رفت ہے ۔ یہ فیصلہ پاکستان سمیت ان خطوں میں استحکام، امن اور قانون کی حکمرانی کے قیام کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔
بی ایل اے ایک مسلح دہشت گرد گروپ ہے، جو بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے ۔ دوسری جانب، مجید بریگیڈ نے اپنے آپریشنز میں جہاں حکومتی تنصیبات کو نشانہ بنایا، وہاں سیکیورٹی فورسز، عام شہریوں اور سرکاری اہلکاروں کے خلاف کارروائیاں بھی کیں، جس سے انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور ملک کے اندرونی امن کو دھچکا لگا۔
دہشت گردی ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ جب ایک ریاست خود اپنی داخلی سیکیورٹی کے لیے کارروائی کرتی ہے، تو اسے کبھی کبھی بین الاقوامی سطح پر الجھنوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے، جب ایک بین الاقوامی طاقت جیسے امریکا اس معاملے میں واضح موقف اختیار کرتی ہے، تو اس سے پاکستان کو نہ صرف قانونی اور اخلاقی حمایت ملتی ہے بلکہ اسٹرٹیجک اعتبار سے بھی ایک مضبوط موقف پر قائم رہنے کی قوت ملتی ہے۔
یہ فیصلہ اُن حکومتوں اور انھیں گروہوں کی پالیسیوں کو ایک عالمی سطح پر جھٹکا دیتا ہے جو دہشت گردی کو ایک سیاسی اوزار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بعض حلقے ان گروہوں کو آزادی پسند تحریکیں قرار دیتے آئے ہیں، لیکن امریکی موقف نے ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے کہ یہ گروہ دہشت گرد تنظیموں کی ہی شاخ ہیں، اور ان کے اہداف میں عوام کی حفاظت شامل نہیں، بلکہ انتشار، نفرت اور تشدد کو فروغ دینا شامل ہے۔
یہ حقیقت عوام کے شعور کو بیدار کرنے میں مددگار ہے، اور انھیں سمجھنے میں معاون ہے کہ معاشرتی ترقی، امن اور خوشحالی دہشت گردی کے خاتمے سے ممکن ہے، دہشت گردی کے پھیلاؤ سے نہیں۔یہاں ایک اور پہلو قابلِ ذکر ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف عسکری محاذ پر محدود نہیں رہنی چاہیے۔ اس میں سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ، نوجوانوں میں نظریاتی تربیت، تعلیم اور معاشرتی شعور میں اضافہ، معاشی مواقع کی فراہمی، اور سیاسی شمولیت کے راستوں کو بھی مستحکم کرنا ضروری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مقابلہ اگر تمام جہتوں سے کیا جائے۔
عسکری، معاشی، نظریاتی، تعلیمی اور سیاسی تو اس سے نہ صرف وہ گروہ جو تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں ختم ہو سکتے ہیں، بلکہ اس کا اثر دیگر ریاست دشمن رجحانات پر بھی پڑے گا۔ دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے ہمیں اپنے گھروں اور معاشروں کو پہلے محفوظ بنانا ہوگا۔ پاکستان کا مضبوط ہونا، معاشرتی انصاف کی بنیاد پر، ہی عالمی امن کی ضمانت ہے۔
امریکا کا فیصلہ ایک با معنی پیغام بھی دیتا ہے کہ دہشت گردی ایک ایسی وبا ہے جو صرف علاقائی یا مخصوص ریاستی مسئلے کا نام نہیں، بلکہ یہ بین الاقوامی سطح پر ایک مشترکہ جرم ہے۔ اس کا مقابلہ صرف اپنے عسکری یا سیاسی نقطہ نظر سے نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اس جنگ میں علاقے کے امن، قانون کی حکمرانی، معاشرتی شمولیت اور بین الاقوامی اتحاد کو بطور اساسی اوزار اختیار کرنا ہوگا۔
بلاشبہ یہ فیصلہ پاکستان کی قربانیوں، عسکری و سیاسی جدوجہد اور مسلسل کوششوں کا اعتراف ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اس اعتراف کو عملی اقدامات میں ڈھالے۔ بلوچستان میں تعمیری ترقیاتی پروگرام، نوجوانوں کی شمولیت، سیاسی شفافیت، انسانی حقوق کی پاسداری اور بین الاقوامی تعاون کو بنیاد بنا کر اس تشدد آمیز تاریخ کو تبدیل کیا جائے۔ ایک ایسا پاکستان جس کا ہر حصہ امن، ترقی، انصاف اور شمولیت کا پیامبر ہو، ہی دنیا کو زیادہ محفوظ اور خوشحال بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ثالثی عدالت کی بین الاقوامی دہشت گردی کے پاکستان کے معاہدے کی اس معاہدے کہ بھارت یہ فیصلہ بھارت کے بلکہ اس ہے بلکہ کے خلاف کے لیے کو بھی
پڑھیں:
ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق
ریاض احمدچودھری
تقسیم ہند کے وقت ریاست جونا گڑھ کے حکمران نواب سر مہابت خانجی نے مملکت خدادا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ انکا یہ فیصلہ تقسیم برصغیر کے فارمولے کے عین مطابق تھا جس میں562ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر لیں۔ نواب سر مہابت خانجی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ جونا گڑھ کی اسٹیٹ کونسل کے سامنے جو مسلمانوں، ہندوئوں، پارسیوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھی پیش کیا جس نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ منظور کیا۔یوں 15ستمبر1947 کو الحاق کا اعلان کر دیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے قائداعظم محمد علی جنا ح نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے جبکہ ریاست جونا گڑھ کی طرف سے نواب مہابت خانجی نے دستخط کئے۔ پاکستان کی اس وقت کی قانون ساز اسمبلی نے اس الحاق کو متفقہ طور پر منظور کیا۔ بھارت جس نے قیام پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا تھا، اس فیصلے پر تلملا اٹھا۔ کانگریسی رہنمائوں نے نواب صاحب کو مختلف ترغیبات دے کر اس فیصلے کو تبدیل کرانے کی بے انتہا کوششیں کیں حتیٰ کہ دھمکی آمیز لہجہ بھی اختیار کیا مگر نواب جونا گڑھ ثابت قدم رہے۔ نواب کا مؤقف تھا کہ اگرچہ ریاست جوناگڑھ کا خشکی کا کوئی راستہ پاکستان سے نہیں ملتا مگر سمندر کے ذریعے یہ تعلق ممکن ہے کیونکہ اس ریاست کا کراچی سے سمندری فاصلہ 480 کلومیٹر ہے۔ اس ریاست کے ماتحت دوریاستیں تھیں (1)منگروال (2)بابری آباد۔ ان دوریاستوں نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا جس پر نواب جونا گڑھ نے ان دونوں ریاستوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردی۔ ان دونوں ریاستوں کے حکمرانوں نے حکومت ہندوستان سے مدد کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی ہندوستانی فوجوں نے 9 نومبر، 1947ء کو ریاست جوناگڑھ پر حملہ کر دیا۔ اس دوران ایک جلاوطن گروپ نے ایک عارضی حکومت قائم کی جس کا سربراہ سمل داس گاندھی (Samaldas Gandhi) کو مقرر کیا گیا جو مہاتما گاندھی کا بھتیجاتھا۔ حکومت ہندوستان نے اسے مجاہد آزادی کا خطاب دیا موجودہ دور میں لاتعداد اسکول، کالج اور ہسپتال اس کے نام سے منسوب کیے گئے ہیں۔
بھارتی حکومت نے جب یہ دیکھا کہ اس کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تو اس نے ریاست جونا گڑھ کی آئینی اور قانونی حکومت کا تختہ الٹنے اور ریاست پر غیر قانونی تسلط جمانے کے لئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا۔ بعد ازاں9 نومبر 1947 کو بھارت نے جونا گڑھ پر فوجی طاقت کے بل پر تسلط قائم کیا۔ بھارتی فوجیوں نے جونا گڑھ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا اور مسلمانوں کی املاک کو بھاری نقصان پہنچایا۔حکومت پاکستان نے بھارتی جارحیت پر سخت احتجاج کیا اور اپنا کیس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس منعقدہ 11فروری 1948 میں پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ بھارت جونا گڑھ سے اپنی فوجیں واپس بلائے تاہم بھارت ٹس سے مس نہ ہوا۔ بعد ازاں حکومت پاکستان نے فروری 1971 میں جونا گڑھ کے مسئلے کو مسئلہ کشمیر سے منسلک کرکے اقوام متحدہ میں پیش کیا مگر بھارت کی ہٹ دھرمی اور بے اصولی کے باعث اس کا کوئی بھی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔بھارت نے جونا گڑھ پر غاصبانہ قبضے کے وقت یہ دلیل دی تھی کہ یہ علاقہ جغرافیائی طور پر بھارت سے متصل ہے تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، جو جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کے ساتھ متصل ہے اور جہاں کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہش مند ہیں ، پر بھی بھارت گزشتہ 78برس سے قابض ہے اور کشمیری بھارتی تسلط سے آزادی کے مطالبے کی پاداش میں روز بھارتی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
1748ء میں ریاست جونا گڑھ (Junagadh State) کا قیام عمل میں آیا۔ 1807ء میں یہ برطانوی محمیہ ریاست بن گئی۔ 1818ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا لیکن سوراشرا کا علاقہ برطانوی راج کے انتظامیہ کے براہ راست تحت کبھی نہیں آیا۔ اس کی بجائے برطانیہ نے اسے ایک سو سے زیادہ نوابی ریاستوں میں تقسیم کر دیا، جو 1947ء تک قائم رہیں۔ موجودہ پرانا شہر جو انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران ترقی پایا سابقہ نوابی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ریاست کے نواب کو 13 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جواہر لال نہرو (14 فروری 1950ء ) کو خط لکھا جس میں بھارتی وزیراعظم کے سامنے جونا گڑھ پر پاکستان کا سرکاری موقف واضح کیا کہ جونا گڑھ کے مسئلہ کو مردہ نہ سمجھا جائے بلکہ سلامتی کونسل میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کے بعد جونا گڑھ کے مسئلے پر بات کی جائے گی۔”یہ بتانا ضروری ہے کہ جوناگڑھ سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے جس سے مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد نمٹا جائے گا اور اسے ایک مردہ مسئلہ نہیں بنایا جا سکتا”ـ
بد قسمتی سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کو پچھلی سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایک درجن کے قریب قراردادیں بھی منظور ہو چکی ہیں لیکن کشمیری آج بھی انصاف کے حصول کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔اگر پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کے اقوام متحدہ کو بھیجے گئے بھارتی الزامات کے جواب میں درج کروائی گئی شکایات کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان نے صرف مقبوضہ جموں و کشمیر پر بات نہیں کی تھی بلکہ اس کے علاوہ جونا گڑھ سمیت پاکستان کے بھارت کے ساتھ متعدد مسائل کا ذکر کیا گیا تھا جو کہ حل طلب تھے۔