شاید کہ اتر جائے تر ے دل میں مر ی بات
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
چند دن قبل یوٹیوب پر ایک کہانی سنی جو سچی تھی، اس کہانی کو سن کر میرے تو رونگھٹے کھڑے ہوگئے، والدین کس محبت، محنت اور شفقت سے اولاد کی پرورش کرتے ہیں، خود روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر لیتے ہیں لیکن بچوں کو بہترین غذا فراہم کرتے ہیں، اچھے سے اچھا کھلاتے ہیں، ان کی ہر فرمائش پوری کرتے ہیں، لیکن جب یہی اولاد منہ زور گھوڑے کی طرح ماں باپ کے سامنے تن کر کھڑی ہو جائے تو ماں باپ جس تکلیف سے گزرتے ہیں، اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس کرب سے گزرے ہوں۔
اللہ بچائے ایسی اولاد سے۔ یہ کہانی سن کر مجھے ایک مثل یاد آئی کہ اولاد کو کھلاؤ سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی نظر سے۔ آج کل کے والدین کھلاتے تو واقعی سونے کا نوالہ ہیں مگر بچوں کی تربیت کا خانہ سرے سے خالی ہے۔ جب دھماکہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ ایسی اولاد سے بے اولاد ہونا بہتر ہے۔ گھروں سے جوائنٹ فیملی سسٹم ختم ہو گیا ہے، البتہ پنجاب کے گاؤں، دیہاتوں میں اب بھی رائج ہے، مگر وہاں بہوؤں کی زندگی عذاب ہے، مویشیوں کی بھی دیکھ بھال کریں، کھانا بھی پکائیں، ساس نندوں اور شوہر کی باتیں بھی سنیں اور مار بھی کھائیں، اس قسم کے معاشرے میں عورت کو پیر کی جوتی سمجھا جاتا ہے، لیکن شہری عورت کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے، میاں دن بھر دفتر میں کام کریں شام کو یا تو بازار سے کھانا آجاتا ہے یا پھر ماسیاں جیسا تیسا پکا جاتی ہیں وہی زہر مار کرنا پڑتا ہے، ملازمت پیشہ خواتین کی زندگی میں ایک طرح کا سلیقہ ہوتا ہے۔ وہ بچوں پر بھی خاصی نظر رکھتی ہیں اور کسی حد تک وہ جوائنٹ فیملی سسٹم کو گوارا کرتی ہیں، کیونکہ ان کے گھر سے جانے کے بعد دادا، دادی ہی پوتا، پتی پہ نظر رکھتے ہیں۔
پہلے کہانی سن لیجیے، پھر آگے بات کریں گے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک امیرگھرانے میں والدین کے ہاں وقفے وقفے سے دو بیٹیاں ہوئیں اور شادی کے دس سال بعد خدا نے انھیں بیٹا بھی عطا کیا، بس ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، جیسے ہی پنگوڑے میں سے باہر قدم رکھا اس کے لیے دنیا کی ہر چیز مہیا، بڑا ہوا تو شہر کے بہترین اسکول میں اس کا داخلہ کرایا، میٹرک کرنے کے بعد جب کالج میں قدم رکھا تو وہ شروع شروع تو کالج پابندی سے گیا پھر ناغہ کرنے لگا، والدین اسے روز پانچ سو روپے خرچ کرنے کے لیے دیتے لیکن کبھی یہ نہ پوچھتے کہ اس نے وہ پانچ سو خرچ کہاں کیے، آئے دن کالج سے ناغہ ہوتا رہا، سولہ سترہ سال کا لڑکا ساری ساری رات جاگتا اور دن چڑھے سوتا رہتا۔
پھر ماں باپ نے دیکھا کہ ایک دن ان کا بیٹا جو سیکنڈ ایئر کا اسٹوڈنٹ تھا، آئے دن دوستوں کی پارٹیوں میں جانے لگا، واپسی دیر رات ہوتی، پھر ایک دن وہ ہاتھ میں بڑی قیمتی گھڑی لگائے ہوئے تھا، باپ نے پوچھا کہ یہ گھڑی کس نے دی، یہ تو بہت قیمتی ہے؟ اس پر اس نے برا سا منہ بنا کر کہا کہ اس کے دوست نے دی ہے۔ باپ نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’’اتنا مہنگا تحفہ لینے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ تو اس نے برا سا منہ بنایا اور کھانے کی ٹیبل سے اٹھ گیا، اب وہ پانچ سو کے علاوہ بھی پیسے مانگنے لگا، اکلوتا بیٹا تھا اور دس سال کے بعد پیدا ہوا تھا، اس لیے ماں باپ اس کے منہ سے نکلی ہوئی بات فوراً پوری کرتے تھے۔ ایک دن باپ نے اس کے پاس نہایت مہنگا موبائل فون دیکھ کر پوچھا، کہ ’’کہاں سے آیا؟‘‘ تو اس نے لاپرواہی سے جواب دیا کہ ایک دوست نے دیا ہے۔ باپ کو غصہ آگیا، انھوں نے ناراض ہو کر کہا کہ ’’ اتنا مہنگا فون جب تحفے میں لو گے تو بدلے میں کیا دو گے؟‘‘ اس پر وہ ناراض ہو کر بولا، ’’ میرے دوست بہت امیر ہیں، انھیں جواب میں کوئی تحفہ نہیں چاہیے۔‘‘
اب ماں باپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ لڑکیوں پر تو انھوں نے کڑی نظر رکھی تھی، لیکن اکلوتے بیٹے کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر لی تھیں۔ وہ من مانیاں کرتا ساری رات موبائل پہ دوستوں سے باتیں کرتا رہتا اور سارا دن سوتا رہتا۔ جب جی چاہتا گھر سے چلا جاتا اور رات رات بھر واپس نہ آتا۔ ماں پوچھتی تو فوراً یہ جواب دیتا، آپ ’’میری پرائیویسی میں دخل اندازی نہ کیا کریں، میں بالغ ہوں اور خود مختار ہوں۔‘‘ اب ماں واقعی پریشان رہنے لگی، وہ کسی کو بھی جواب دہ نہیں تھا، جب یہ سلسلہ زیادہ بڑھا تو ایک دن جب ان کا بیٹا دو دن سے گھر سے غائب تھا، ماں نے سوچا کہ اس کے کمرے کی صفائی کروا دیں، وہ کمرے میں گئیں تو کمپیوٹر کو کھولا اور ای میل چیک کی، ان کے تو ہوش اڑ گئے، وہ سمجھ گئیں کہ بات بہت آگے جا چکی ہے، انھوں نے فوراً شوہر کو بلایا اور کمپیوٹر کی ای میلز دکھائیں۔
وہ بھی پریشان ہو گئے اور ان ای میلز سے ان کو پتا چلا کہ ان کا لاڈلہ بیٹا ہم جنس پرستی کا شکار ہے اور اس کا رابطہ امریکا میں مقیم ان لڑکوں سے ہے جو اس لت میں مبتلا ہیں۔ ماں اور باپ دونوں نے سر پیٹ لیا۔ رات کو وہ جب گھر آیا تو ماں باپ نے اس سے اس بارے میں سوال کیے تو وہ سیخ پا ہو گیا اور بھنا کر بولا کہ ’’آپ لوگوں نے میرے کمرے کی تلاشی کیوں لی، میری پرائیویسی ڈسٹرب ہوئی۔‘‘ باپ نے سوال کیا کہ ’’ کیا تم بھی اسی طرح کی زندگی جینا چاہتے ہو؟‘‘ تو اس نے کوئی جواب نہ دیا اور کمرہ بند کرکے بیٹھ گیا۔ اور پتا نہیں رات کے کس پہر وہ اپنا کچھ سامان لے کر چلا گیا اور ایک خط چھوڑ گیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے جا رہا ہے۔
اس نے امریکا کا ویزا اپلائی کر دیا ہے، چند دنوں میں امریکا چلا جاؤں گا۔ میرے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ ماں باپ سر پکڑ کر بیٹھ گئے باپ نے حسب روایت ماں کی سرزنش کی کہ انھوں نے اتنا لاڈ پیار کیا کہ اسکول اور کالج کے زمانے میں اس کے اساتذہ سے رابطہ نہ رکھا، بعد میں جب ماں باپ دونوں اس کے کالج پہنچے تو اساتذہ نے بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ جب آپ کو خبر لینی چاہیے تھی تو آپ نے کبھی آ کر پوچھا نہیں کہ اس کی پروگریس کیسی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا تو کالج آتا ہی نہیں تھا، تین چار لڑکوں کا گروپ تھا جو بدمعاشیاں بھی کرتے تھے اور الٹی سیدھی باتیں بھی کرتے تھے۔ وہ اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے اور بار بار وہ سوچتی تھیں کہ جس طرح بیٹیوں پہ نظر رکھتی تھیں آخر اس طرح بیٹے کی نگرانی کیوں نہ کر سکیں۔
لڑکے عموماً اس لیے بگڑ جاتے ہیں کہ مائیں ان کی نگرانی کرنا ضروری نہیں سمجھتیں، بعض گھرانوں میں لڑکے اور لڑکیوں میں فرق روا رکھا جاتا ہے، لیکن لڑکے چونکہ باہر کے ماحول میں پلے بڑھے ہوتے ہیں اس لیے ان پر کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن شروع ہی سے اگر ماں باپ کڑی نگرانی رکھیں تو معاملات بگڑتے نہیں ہیں، آپ کو وقت دینا پڑتا ہے، بیٹوں کے دوستوں سے آپ کو واقف ہونا چاہیے، وہ کن لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے، کالج اور اسکول میں جا کر اس کی تدریسی سرگرمیوں کی رپورٹ لیجیے۔ اگر آپ کی بیٹیاں ہیں تو ان پر زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بیٹا یا بیٹی اگر دیر رات تک جاگ رہے ہوں تو انھیں ایسا کرنے سے منع کیجیے۔ جب سے موبائل فون آئے ہیں وہ اخلاقی زوال کا سبب بن رہے ہیں۔ بچے کب گھر آتے ہیں اور کب جاتے ہیں اس کا ادراک ماں اور باپ دونوں کو ہونا چاہیے۔
والد عموماً آفس میں ہوتے ہیں، ان پر معاشی ذمے داریاں ہوتی ہیں، اس لیے یہ فرائض ماں کو ہی ادا کرنے چاہئیں۔ لیکن مائیں اپنے فرائض بخوبی ادا نہیں کر رہی ہیں، میں نے زیادہ تر گھریلو خواتین کو موبائل پہ باتیں کرتے سنا ہے، گھنٹوں سہیلیوں سے میکے والوں سے باتیں کرتی رہتی ہیں، سارا کام ماسی کر جاتی ہے، وہ زیادہ تر وقت ٹی وی ڈراموں میں مگن ہو کر دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہوتی ہیں، بچے اسکول اور کالج سے آئے تو کھانا کھا کر کوچنگ کے لیے چلے گئے، راوی ان گھریلو خواتین کے لیے چین ہی چین لکھتا ہے۔ اولاد پر توجہ دیے بغیر ان کی نشوونما بالکل ایسی ہی ہے جیسے خودرو پودوں کو بڑھتا دیکھنا۔ لیکن بچے خودرو پودے نہیں ہوتے، انھیں تراش خراش کی ضرورت ہے، ورنہ آپ بھی اپنی اولاد کو کھو دیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انھوں نے ماں باپ کے لیے ایک دن اس لیے باپ نے
پڑھیں:
دہشتگردوں کو پناہ نہیں دیں گے، ملک کا ہر حال میں دفاع کریں گے،باجوڑ کی لرآمدک قوم کا دوٹوک اعلان
خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کی تحصیل سالارزئی میں لرآمدک قوم نے گرینڈ جرگے کے دوران واضح اعلان کیا ہے کہ علاقے میں کسی بھی دہشت گرد کو پناہ نہیں دی جائے گی، اور جو ایسا کرے گا اسے علاقہ بدر کر دیا جائے گا۔
یہ اہم جرگہ بارو کے علاقے میں بزرگ رہنما **ملک فضل ربی** کی رہائشگاہ پر منعقد ہوا، جس میں لرآمدک قوم کے عمائدین، مشران اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
جرگے سے خطاب کرتے ہوئے ملک گل کریم خان، ملک فضل ربی، ملک شیر بہادر اور دیگر رہنماؤں نے کہا کہ سالارزئی کی سرزمین پر ہم کسی قسم کی دہشتگردی برداشت نہیں کریں گے۔ یہ ہمارا گھر ہے، ہم اسے کسی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔”
رہنماؤں نے کہا کہ نہ صرف دہشتگردوں کو پناہ دینے والوں کو علاقہ بدر کیا جائے گا بلکہ اگر کسی دہشتگرد نے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی تو اس کے خلاف لشکر کشی کی جائے گی۔
شرکاء نے علاقے کے امن، سلامتی اور دفاع کے لیے ایک صفحے پر ہونے کا اظہار کرتے ہوئے علاقے کی حفاظت کی قسم بھی اٹھائی ۔ جرگے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ملک کے دفاع میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب باجوڑ میں فتنۂ خوارج سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مقامی قبائل کی جانب سے ریاستی مؤقف کی حمایت اور دہشتگردی کے خلاف کھڑے ہونے کا یہ مؤقف امن کے قیام میں ایک اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔یہ بیان باجوڑ کے قبائل کی ریاست سے وابستگی اور شدت پسندی کے خلاف واضح مؤقف کو اجاگر کرتا ہے۔