Express News:
2025-10-04@16:57:54 GMT

شاید کہ اتر جائے تر ے دل میں مر ی بات

اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT

چند دن قبل یوٹیوب پر ایک کہانی سنی جو سچی تھی، اس کہانی کو سن کر میرے تو رونگھٹے کھڑے ہوگئے، والدین کس محبت، محنت اور شفقت سے اولاد کی پرورش کرتے ہیں، خود روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر لیتے ہیں لیکن بچوں کو بہترین غذا فراہم کرتے ہیں، اچھے سے اچھا کھلاتے ہیں، ان کی ہر فرمائش پوری کرتے ہیں، لیکن جب یہی اولاد منہ زور گھوڑے کی طرح ماں باپ کے سامنے تن کر کھڑی ہو جائے تو ماں باپ جس تکلیف سے گزرتے ہیں، اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس کرب سے گزرے ہوں۔

اللہ بچائے ایسی اولاد سے۔ یہ کہانی سن کر مجھے ایک مثل یاد آئی کہ اولاد کو کھلاؤ سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی نظر سے۔ آج کل کے والدین کھلاتے تو واقعی سونے کا نوالہ ہیں مگر بچوں کی تربیت کا خانہ سرے سے خالی ہے۔ جب دھماکہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ ایسی اولاد سے بے اولاد ہونا بہتر ہے۔ گھروں سے جوائنٹ فیملی سسٹم ختم ہو گیا ہے، البتہ پنجاب کے گاؤں، دیہاتوں میں اب بھی رائج ہے، مگر وہاں بہوؤں کی زندگی عذاب ہے، مویشیوں کی بھی دیکھ بھال کریں، کھانا بھی پکائیں، ساس نندوں اور شوہر کی باتیں بھی سنیں اور مار بھی کھائیں، اس قسم کے معاشرے میں عورت کو پیر کی جوتی سمجھا جاتا ہے، لیکن شہری عورت کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے، میاں دن بھر دفتر میں کام کریں شام کو یا تو بازار سے کھانا آجاتا ہے یا پھر ماسیاں جیسا تیسا پکا جاتی ہیں وہی زہر مار کرنا پڑتا ہے، ملازمت پیشہ خواتین کی زندگی میں ایک طرح کا سلیقہ ہوتا ہے۔ وہ بچوں پر بھی خاصی نظر رکھتی ہیں اور کسی حد تک وہ جوائنٹ فیملی سسٹم کو گوارا کرتی ہیں، کیونکہ ان کے گھر سے جانے کے بعد دادا، دادی ہی پوتا، پتی پہ نظر رکھتے ہیں۔

پہلے کہانی سن لیجیے، پھر آگے بات کریں گے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک امیرگھرانے میں والدین کے ہاں وقفے وقفے سے دو بیٹیاں ہوئیں اور شادی کے دس سال بعد خدا نے انھیں بیٹا بھی عطا کیا، بس ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، جیسے ہی پنگوڑے میں سے باہر قدم رکھا اس کے لیے دنیا کی ہر چیز مہیا، بڑا ہوا تو شہر کے بہترین اسکول میں اس کا داخلہ کرایا، میٹرک کرنے کے بعد جب کالج میں قدم رکھا تو وہ شروع شروع تو کالج پابندی سے گیا پھر ناغہ کرنے لگا، والدین اسے روز پانچ سو روپے خرچ کرنے کے لیے دیتے لیکن کبھی یہ نہ پوچھتے کہ اس نے وہ پانچ سو خرچ کہاں کیے، آئے دن کالج سے ناغہ ہوتا رہا، سولہ سترہ سال کا لڑکا ساری ساری رات جاگتا اور دن چڑھے سوتا رہتا۔

پھر ماں باپ نے دیکھا کہ ایک دن ان کا بیٹا جو سیکنڈ ایئر کا اسٹوڈنٹ تھا، آئے دن دوستوں کی پارٹیوں میں جانے لگا، واپسی دیر رات ہوتی، پھر ایک دن وہ ہاتھ میں بڑی قیمتی گھڑی لگائے ہوئے تھا، باپ نے پوچھا کہ یہ گھڑی کس نے دی، یہ تو بہت قیمتی ہے؟ اس پر اس نے برا سا منہ بنا کر کہا کہ اس کے دوست نے دی ہے۔ باپ نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’’اتنا مہنگا تحفہ لینے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ تو اس نے برا سا منہ بنایا اور کھانے کی ٹیبل سے اٹھ گیا، اب وہ پانچ سو کے علاوہ بھی پیسے مانگنے لگا، اکلوتا بیٹا تھا اور دس سال کے بعد پیدا ہوا تھا، اس لیے ماں باپ اس کے منہ سے نکلی ہوئی بات فوراً پوری کرتے تھے۔ ایک دن باپ نے اس کے پاس نہایت مہنگا موبائل فون دیکھ کر پوچھا، کہ ’’کہاں سے آیا؟‘‘ تو اس نے لاپرواہی سے جواب دیا کہ ایک دوست نے دیا ہے۔ باپ کو غصہ آگیا، انھوں نے ناراض ہو کر کہا کہ ’’ اتنا مہنگا فون جب تحفے میں لو گے تو بدلے میں کیا دو گے؟‘‘ اس پر وہ ناراض ہو کر بولا، ’’ میرے دوست بہت امیر ہیں، انھیں جواب میں کوئی تحفہ نہیں چاہیے۔‘‘

 

اب ماں باپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ لڑکیوں پر تو انھوں نے کڑی نظر رکھی تھی، لیکن اکلوتے بیٹے کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر لی تھیں۔ وہ من مانیاں کرتا ساری رات موبائل پہ دوستوں سے باتیں کرتا رہتا اور سارا دن سوتا رہتا۔ جب جی چاہتا گھر سے چلا جاتا اور رات رات بھر واپس نہ آتا۔ ماں پوچھتی تو فوراً یہ جواب دیتا، آپ ’’میری پرائیویسی میں دخل اندازی نہ کیا کریں، میں بالغ ہوں اور خود مختار ہوں۔‘‘ اب ماں واقعی پریشان رہنے لگی، وہ کسی کو بھی جواب دہ نہیں تھا، جب یہ سلسلہ زیادہ بڑھا تو ایک دن جب ان کا بیٹا دو دن سے گھر سے غائب تھا، ماں نے سوچا کہ اس کے کمرے کی صفائی کروا دیں، وہ کمرے میں گئیں تو کمپیوٹر کو کھولا اور ای میل چیک کی، ان کے تو ہوش اڑ گئے، وہ سمجھ گئیں کہ بات بہت آگے جا چکی ہے، انھوں نے فوراً شوہر کو بلایا اور کمپیوٹر کی ای میلز دکھائیں۔

وہ بھی پریشان ہو گئے اور ان ای میلز سے ان کو پتا چلا کہ ان کا لاڈلہ بیٹا ہم جنس پرستی کا شکار ہے اور اس کا رابطہ امریکا میں مقیم ان لڑکوں سے ہے جو اس لت میں مبتلا ہیں۔ ماں اور باپ دونوں نے سر پیٹ لیا۔ رات کو وہ جب گھر آیا تو ماں باپ نے اس سے اس بارے میں سوال کیے تو وہ سیخ پا ہو گیا اور بھنا کر بولا کہ ’’آپ لوگوں نے میرے کمرے کی تلاشی کیوں لی، میری پرائیویسی ڈسٹرب ہوئی۔‘‘ باپ نے سوال کیا کہ ’’ کیا تم بھی اسی طرح کی زندگی جینا چاہتے ہو؟‘‘ تو اس نے کوئی جواب نہ دیا اور کمرہ بند کرکے بیٹھ گیا۔ اور پتا نہیں رات کے کس پہر وہ اپنا کچھ سامان لے کر چلا گیا اور ایک خط چھوڑ گیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے جا رہا ہے۔

اس نے امریکا کا ویزا اپلائی کر دیا ہے، چند دنوں میں امریکا چلا جاؤں گا۔ میرے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ ماں باپ سر پکڑ کر بیٹھ گئے باپ نے حسب روایت ماں کی سرزنش کی کہ انھوں نے اتنا لاڈ پیار کیا کہ اسکول اور کالج کے زمانے میں اس کے اساتذہ سے رابطہ نہ رکھا، بعد میں جب ماں باپ دونوں اس کے کالج پہنچے تو اساتذہ نے بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ جب آپ کو خبر لینی چاہیے تھی تو آپ نے کبھی آ کر پوچھا نہیں کہ اس کی پروگریس کیسی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا تو کالج آتا ہی نہیں تھا، تین چار لڑکوں کا گروپ تھا جو بدمعاشیاں بھی کرتے تھے اور الٹی سیدھی باتیں بھی کرتے تھے۔ وہ اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے اور بار بار وہ سوچتی تھیں کہ جس طرح بیٹیوں پہ نظر رکھتی تھیں آخر اس طرح بیٹے کی نگرانی کیوں نہ کر سکیں۔

لڑکے عموماً اس لیے بگڑ جاتے ہیں کہ مائیں ان کی نگرانی کرنا ضروری نہیں سمجھتیں، بعض گھرانوں میں لڑکے اور لڑکیوں میں فرق روا رکھا جاتا ہے، لیکن لڑکے چونکہ باہر کے ماحول میں پلے بڑھے ہوتے ہیں اس لیے ان پر کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن شروع ہی سے اگر ماں باپ کڑی نگرانی رکھیں تو معاملات بگڑتے نہیں ہیں، آپ کو وقت دینا پڑتا ہے، بیٹوں کے دوستوں سے آپ کو واقف ہونا چاہیے، وہ کن لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے، کالج اور اسکول میں جا کر اس کی تدریسی سرگرمیوں کی رپورٹ لیجیے۔ اگر آپ کی بیٹیاں ہیں تو ان پر زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بیٹا یا بیٹی اگر دیر رات تک جاگ رہے ہوں تو انھیں ایسا کرنے سے منع کیجیے۔ جب سے موبائل فون آئے ہیں وہ اخلاقی زوال کا سبب بن رہے ہیں۔ بچے کب گھر آتے ہیں اور کب جاتے ہیں اس کا ادراک ماں اور باپ دونوں کو ہونا چاہیے۔

والد عموماً آفس میں ہوتے ہیں، ان پر معاشی ذمے داریاں ہوتی ہیں، اس لیے یہ فرائض ماں کو ہی ادا کرنے چاہئیں۔ لیکن مائیں اپنے فرائض بخوبی ادا نہیں کر رہی ہیں، میں نے زیادہ تر گھریلو خواتین کو موبائل پہ باتیں کرتے سنا ہے، گھنٹوں سہیلیوں سے میکے والوں سے باتیں کرتی رہتی ہیں، سارا کام ماسی کر جاتی ہے، وہ زیادہ تر وقت ٹی وی ڈراموں میں مگن ہو کر دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہوتی ہیں، بچے اسکول اور کالج سے آئے تو کھانا کھا کر کوچنگ کے لیے چلے گئے، راوی ان گھریلو خواتین کے لیے چین ہی چین لکھتا ہے۔ اولاد پر توجہ دیے بغیر ان کی نشوونما بالکل ایسی ہی ہے جیسے خودرو پودوں کو بڑھتا دیکھنا۔ لیکن بچے خودرو پودے نہیں ہوتے، انھیں تراش خراش کی ضرورت ہے، ورنہ آپ بھی اپنی اولاد کو کھو دیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انھوں نے ماں باپ کے لیے ایک دن اس لیے باپ نے

پڑھیں:

جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے

بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ آپ انہیں برسوں بلکہ عشرے گزر جانے کے باوجود بھی نہیں بھول پاتے۔ وہ ذہن میں نقش ہوجاتے اور آپ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ آج کے کالم میں ’وی نیوز‘ کے قارئین کے لیے ایسا ہی ایک واقعہ اور اس سے جڑی باتیں شیئرکرنا چاہ رہا ہوں۔

یہ میرے کالج کے زمانے کا واقعہ ہے، یعنی خاصا پرانا، لگ بھگ 35 سال پہلے۔ کالج سے واپسی کے راستے میں ایک 60،65 سالہ بزرگ سا آدمی چنے چاول جسے سرائیکی میں چھولے چاول کہتے ہیں، کی ریڑھی لگاتا تھا۔ یہ بظاہرعام سی بات تھی۔

اس بابے میں مگرکوئی بات الگ تھی جو اسے دوسروں سے منفرد کرتی۔ ایک  بار جس نے اس کی ریڑھی سے پلیٹ بنوائی تو پھر ہمیشہ کے لیے وہ اس کا گاہک ہی بن گیا۔ ان کے چنے اور چاول لذیذ تو تھے ہی، مگر برتن بھی صاف ستھرے ہوتے۔

فی پلیٹ نرخ وہی تھا جو دوسرے چنے چاول والے دیتے، مگر مقدار زیادہ ہوتی۔ دوسروں کے برعکس وہ چنے خاصی مقدار میں ڈالتے، چاول کے ساتھ ہری مرچ، ٹماٹر، پیاز کا سلاد، پودینے کی تیکھی چٹنی، پھر خود ہی گاہک کے مزاج کا اندازہ کر کے درمیان  میں تھوڑے سے مزید چنے، چٹنی وغیرہ بغیر کہے ہی ڈال دیتے۔ ابھی یہ سطریں لکھتے ہوئے بھی ان چنے چاول کا ذائقہ گویا منہ میں اترآیا۔

ایک دن اتفاق سے وہ اکیلے ہی کھڑے تھے۔ میں نے پلیٹ بنوائی اور پھر یوں ہی گپ شپ شروع کر دی۔ وہ روہتکی سے ملتی جلتی زبان بولتے تھے، جسے ہمارے ہاں باگڑی کہا جاتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا سودا اس قدر اچھا، سوادش اور منفرد ہے۔ پلیٹ بھی دوسروں سے ڈبل کے قریب بنا دیتے ہیں، مگر پیسے آپ کے نسبتاً کم ہیں۔ کیا اس سے نقصان نہیں ہو رہا۔ اگر آپ اپنا ریٹ کچھ بڑھادیں تو کمائی بڑھ جائے گی۔ انہوں نے اپنی چمکدار آنکھوں سے میری جانب بغور دیکھا، مسکرائے اور پھر کہنے لگے ’اللہ نے ہمیشہ میرا ہر مسئلہ بڑی خوش اسلوبی سے حل کیا ہے، مجھے کیا پڑی ہے کہ مستقبل کے اندیشوں میں مبتلا ہو کر بچتیں کرتا پھروں‘۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ کے لیے مجوزہ امن معاہدہ: اہم نکات، مضمرات، اثرات

یہ بات ایک عام، ان پڑھ سے ریڑھی والے سے سن کر اچنبھا سا ہوا۔  میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ آپ کا اللہ تعالیٰ پر اس قدر اعتماد کیسے بن گیا؟ وہ صاحب اپنے مخصوص باگڑی لہجے میں بولے، ’دیکھو میری 5 بیٹیاں ہیں، سب کی سب شادی شدہ اور اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں، مگر چند سال پہلے تک ایسی صورت نہیں تھی۔ بچیاں جوان ہوچکی تھیں، میں ان کے مستقبل کے حوالے سے ہمیشہ پریشان رہتا کہ آخر ان کی شادیوں کا انتظام کیسے ہوگا۔ پریشانی اورالجھنوں نے مجھے چڑچڑا بنا دیا۔ ہر وقت ماتھے پر شکنیں پڑی رہتیں، گھر جاتا تو پریشانی اور بیزاریت مزید بڑھ جاتی۔ زندگی عجب کٹھن اور تکلیف دہ انداز سے گزر رہی تھی۔

ایک روزایک مجذوب سا بابا میری ریڑھی کے قریب سے گزرا۔ اس نے ایک نظر میری ریڑھی پر ڈالی۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ بھوکا ہے، دوسرے فقیروں کے برعکس اس بابے نے بھیک کے لیے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا۔ میرے دل میں جانے کیا آئی کہ آواز دے کر اسے بلایا اور ایک اچھی سی پلیٹ بنا کر پیش کی۔ بابے نے خاموشی سے پلیٹ کھائی، پانی کا گلاس پیا اور جاتے جاتے  میری جانب آیا، اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا اور نرمی سے سرائیکی میں بولا ’بیٹا تو اپنے اوپر کیوں بوجھ لے پھررہا ہے، جس کا کام ہے، اسے کرنے دے۔ اس قدر  وزن کندھوں پر  اٹھائے رکھے گا تو کمر ٹوٹ جائے گی۔ یہ بوجھ اوپر والے، اپنے مالک کے حوالے کر دے، جو تجھ سے ہو سکتا ہے کر لے، اس کے بعد سب کچھ اس ذات پر چھوڑ دے۔ سکون سے  بیٹھ اورمزے سے سیٹیاں بجا۔ وہ خود ہی تیرے مسئلوں کا حل نکال دے گا‘۔

اس بابے کی بات سن کر میں ہل گیا۔ معلوم نہیں وہ کوئی روشن ضمیر درویش تھا، یا ویسے ہی اسے میری پریشان شکل دیکھ کر اندازہ ہوا اور اس نے اپنی عقل کے مطابق وہ مشورہ دیا۔ خیر اس رات گھر جا کر میں نے سونے سے پہلے یہی کام کیا۔ وضو کر کے نماز پڑھی، نفل پڑھے اور پھر سجدے میں پڑ کر خوب رویا، زاروقطار رویا۔ اپنی پوری کہانی رب کو سنائی۔ گلے شکوے بھی کیے، اپنی التجائیں رکھیں اور آخر میں درخواست کی، ’اللہ میاں میری بس ہوگئی ہے، میں نے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کر لی۔ آمدنی بڑھانے، وسائل پیدا کرنے اور اپنی پریشانی کا حل نکالنے کی ہر ممکن تدبیر کر چکا ہوں۔ مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ جوان بیٹیوں کا پہاڑ سا بوجھ میں کب تک اٹھائے رکھوں؟ میں اب اپنے تمام ہتھیار پھینک کر یہ مسئلہ مولا آپ ہی کے حوالے کرتا ہوں۔ کوشش اور محنت میں پوری کروں گا، مگر آپ خود ہی مجھے کوئی راستہ دکھائیں۔ میرے لئے آسانی پیدا کریںاور اپنے غیب سے مسائل حل کریں‘۔

یہ بتاتے ہوئے وہ چنے چاول کی ریڑھی والے بزرگ عجیب سے انداز میں مسکرائے، ان کی آنکھوں میں شبنم اتر آئی تھی۔ چند لمحوں کے وقفے کے بعد کہنے لگے، ’مجھے یوں لگا جیسے میری دعا زمینوں اور آسمانوں کے مالک تک پہنچ گئی ہے۔ عجیب سا سکون محسوس ہوا۔ اس واقعے کو مشکل سے ایک ہفتہ گزرا ہوگا کہ ہماری برادری ہی سے 2 رشتے آگئے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہمیں کوئی جہیز چاہیے نہ ہی ہم بارات لے کر آئیں گے۔ 2،4 بندے آئے اور ڈولی لے گئے۔ ہم سب ہکا بکا تھے کہ اچانک ہی یہ سب کیسے ہوگیا؟ اگلے چند مہینوں میں باقی  تینوں بچیوں کے بھی رشتے آئے اور چٹ منگنی پٹ بیاہ کی طرح سب اپنے گھروں کو سدھار گئیں۔ ہم دونوں میاں بیوی اللہ کی قدرت، اس کی مہربانی اور کرم نوازی پر ششدر تھے۔ ایک کمزور، بے عمل غریب ریڑھی والے نے اپنا مسئلہ اللہ کے سپرد کیا تو اس میں ہمارا کیا کمال تھا، کمال تو اس عظیم ذات کا تھا،جس نے ہمارا بھرم رکھا اور وہ تمام بوجھ ہمارے کندھوں سے ہٹا لیا۔ اس دن کے بعد مستقبل کا ہر اندیشہ دل ودماغ سے نکل گیا ہے۔ محنت کے ساتھ رزق حلال کمانے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ آگے کا کبھی نہیں سوچا۔ جو پریشانی،مشکل آتی ہے، وہ اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ وہ بڑی عظمتوں والا ہے، اس کا کام ہے، وہی جانے، جو حل نکال دیتا ہے، اس پر خوش ہوجاتے ہیں۔ کبھی کوئی کام فوراً ہوجاتا ہے، کبھی کچھ دیر بھی لگ جاتی ہے، مگر بعد میں ہمیں خود ہی اندازہ ہوجاتا ہے اس میں دیر ہونا ہمارے لئے ہی بہتر تھا‘۔

اس بات کو کتنے سال گزر گئے، من کہ عامر خاکوانی گرییجوییشن اور پھرایل ایل بی کرنے کے بعد صحافت کی دنیا میں داخل ہوا، 29،30 سال ادھر بھی گزر چکے ہیں۔ وہ ریڑھی والا بابا یقیناً اب دنیا سے رخصت ہوچکا ہوگا، مگر اس کا بتایا سبق ہمیشہ کے لیے زندہ رہے گا۔

مزید پڑھیے: کیا آج کا وائٹ ہاؤس درست فیصلہ کر پائے گا؟

لاہور آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک صاحب عرفان بزرگ سرفراز اے شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی، ان کی روحانیت پر لیکچرز میں شریک ہوتا رہا۔ بعد میں بہت سی نشستوں کا موقع بھی ملا۔ شاہ صاحب لیکچرز پر مشتمل 8 کتابیں (کہے فقیر سیریز) شائع ہوچکی ہیں۔ جدید دور میں تصوف کے حوالے سے ایسی شاندار کتابیں کہیں اور نہیں دیکھیں۔ اتنے آسان، عام فہم انداز میں تصوف کے باریک نکات کو کھول کر بیان کیا گیا کہ حیرت ہوتی ہے۔

شاہ صاحب کی خوبیاں تو بے شمار ہیں۔ ان پر طویل تحریر لکھ سکتا ہوں۔ دو باتیں مجھے خاص طور سے پسند ہیں۔ ایک تو وہ اپنی شخصیت کے گرد لوگوں کو جمع کرنے کے بجائے اللہ سے تعلق بنانے پر زور دیتے ہیں۔ ہر ایک کو یہی نصیحت کرتے ہیں کہ رب سے بات کریں، اسی سے مکالمہ کریں، محبت کریں اور قرب کا تعلق بنائیں۔

دوسرا انہیں میں نے کبھی آج تک پریشان، مضطرب نہیں دیکھا۔ ہمیشہ اطمینان، سکون اور طمانیت کی غیر معمولی صورت میں نظر آئے۔ ایک بات وہ اکثر کہا کرتے ہیں، بندے کو اپنے مسائل اور ان کے من پسند حل کے لیے پریشان ہونے کے بجائے اپنی پوری کوشش کے بعد ہر معاملہ رب کے سپرد کردینا اور اس پر مکمل اعتماد کرنا چاہیے۔ رب تعالیٰ اس کا بہترین حل نکال دیں گے… ایسا حل جو اس کے شائد وہم وگمان میں بھی نہ ہو۔

    میرا اپنا ذاتی تجربہ بھی ہے، بہت سے دوستوں اور جاننے والوں کو بھی یہ بات بتائی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب آپ اپنے مسائل، تکالیف اور پریشانیوں کا بوجھ خود اٹھانے کے بجائے یہ گٹھڑی اتار پھینکتے ہیں، اللہ پر سب چھوڑ دیتے ہیں، خود اپنی سی بہترین کوشش کرتے ہیں اور پھر رب کریم جو نتیجہ نکالے، اس پر راضی ہوجاتے ہیں، تو اس سے بہتر صورت کوئی اور نہیں۔ آپ نہ صرف ریلیکس ہوجاتے ہیں بلکہ سچی بات یہ ہے کہ بہت سے پیچیدہ، الجھے ہوئے مسائل سلجھتے جاتے ہیں۔ اس تیزی کے ساتھ کہ آدمی ششدر رہ جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان سعودی عرب معاہدہ کیا کچھ بدل سکتا ہے؟

یہ نکتہ یاد رکھیں کہ اپنی طرف سے کوشش میں کوئی کسر نہ رکھی جائے، لیکن نتائج کی ذمہ داری اپنی عقل پر لینے کے بجائے یہ بوجھ اتار پھینکا جائے۔ اپنے رب، اپنے مالک، کائنات کے خالق پر اعتماد کرتے ہوئے نتیجہ ان پر چھوڑ دیا جائے تو وہ  اپنے بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ سمجھنے کی بات صرف ایک ہے کہ بعض اوقات کسی کام میں کسی خاص وجہ سے دیر ہوجاتی ہے اورپھرکچھ مشکلات، آزمائشیں بندے کی بہتری، اسے کندن بنانے کے لیے بھی وارد ہوتی ہیں۔ اس لیے اگر اپنے رب کا ہاتھ تھاما جائے تو  اس پر مکمل اعتماد بھی کرنا چاہیے، پھرنتیجہ جو بھی آئے، اسے خوشدلی سے قبول کیا جائے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

اپنا بوچھ اللہ حوالے اللہ توکل اللہ سے سودا اللہ کے حوالے اللہ والے سپرد خدا

متعلقہ مضامین

  • بھارت شاید اپنے تباہ شدہ لڑاکا طیاروں کو بھول گیا ہے، ترجمان پاک فوج
  • یہ کووڈ نہیں، پریشان نہ ہوں بس علامات کا فرق جانیں
  • آزاد کشمیر میں مظاہرین کے مطالبات بجا لیکن تشدد کا راستہ نہیں اپنانا چاہیے: کوآرڈینیٹر وزیراعظم
  • کراچی میں پارکنگ تنازع؛ حکومت کریں لیکن کام تو کسی قانون کے تحت کریں، سندھ ہائیکورٹ
  • جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے
  • بلوچستان کی سیاسی تاریخ: نصف صدی کے دوران کتنی مخلوط حکومتیں مدت پوری کر سکیں؟
  • سکھر،ڈویلپمنٹ الائنس ،اسمال ٹریڈرز کی جانب سے سیپکو کیخلاف احتجاج
  • اشارے بازیاں، لاٹھی اور بھینس
  • سونم کپور کے یہاں دوسری خوشخبری متوقع، کیا فلموں میں واپسی کھٹائی میں پڑگئی؟
  • حکومت سے ماضی میں جیسے علیحدہ ہوئے وہ ہمیں یاد ہے بھولے نہیں‘کائرہ