آن لائن گیمنگ کی لت نوجوانوں کے لیے خطرناک صورت اختیار کر رہی ہے۔ بھارت میں  اندور شہر کی ایک 16 سالہ لڑکی نے فینٹسی گیمنگ ایپ پر کھیلنے کے شوق میں قرض لے کر 80 ہزار روپے اڑا دیے جبکہ پونے کا ایک 13 سالہ لڑکا اپنی والدہ کا یو پی آئی پن یاد کرکے 2 لاکھ روپے کے ورچوئل ہتھیار خرید بیٹھا۔

ماہرین نفسیات کے مطابق گیمنگ کی یہ لت نہ صرف مالی نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کو بھی تباہ کر رہی ہے۔

فری گیم سے لاکھوں کے قرض تک

اندور کی لڑکی کا قصہ کیسے شروع ہوا؟ آغاز میں اس نے مفت ایپ ڈاؤن لوڈ کی، پہلے پہل وہ بہترین اسکورز کے ساتھ جیتتی رہی۔ پھر اس نے پیسے والے مقابلوں میں حصہ لیا اور انعامی رقم جیتنے کے لیے ان-ایپ خریداری شروع کی۔ تاہم جلد ہی وہ ہارنے لگی اور کیسینو کی طرح بار بار پیسہ لگا کر ہار کا نقصان پورا  کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ 6 ماہ میں اس نے 80 ہزار روپے کا قرض لیا۔

یہ بھی پڑھیے پاکستان میں آن لائن جوا: خطرات، قوانین اور روک تھام کیسے ممکن ہے؟

ماہرِ نفسیات اور پیرنٹل کوچ اروشی موسالے کے مطابق یہ لڑکی گیمنگ کے نشے میں اس قدر آگے بڑھ گئی کہ وہ کھانے پینے سے بھی کترانے لگی، پڑھائی چھوڑ دی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئی۔

’اس نے والدین، رشتہ داروں اور دوستوں سے مختلف بہانوں سے پیسہ لیا۔ حتیٰ کہ چھوٹے قرض دینے والی ایپس سے بھی قرض لیا تاکہ گیمز کھیلتی رہے۔ اس کے لیے جیتنا صرف کھیل نہیں بلکہ دوسروں سے تعریف وصول کرنا بھی تھا۔ اس کا موقف تھا کہ گیمز اس کے لیے خود اعتمادی حاصل کرنے کا ذریعہ تھیں۔‘

13 سالہ لڑکا اور ورچوئل ہتھیار

موسالے کے مطابق سب سے چونکانے والا کیس پونے کا تھا، جہاں ایک 13 سالہ لڑکے نے والدہ کا UPI پن یاد کر کے ان کے بینک اکاؤنٹ سے 2 لاکھ روپے نکالے تاکہ گیمز میں ورچوئل ہتھیار خرید سکے۔ اس نے کہا:

’یہ ہتھیار مجھے طاقتور بناتے ہیں، اور مجھے لگتا ہے جیسے یہ اصلی ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیے ڈکی بھائی بیٹنگ ایپس کی پروموشن ویڈیو کے لیے کتنے ہزار ڈالر لیتے تھے؟ حیران کن انکشاف

دماغ پر اثرات

بنگلور کے منی پال اسپتال کے ماہر نفسیات ڈاکٹر ہارشہ جی ٹی کے مطابق:

’پرتشدد یا جوا نما گیمز دماغ پر ایسے ہی اثر انداز ہوتی ہیں جیسے نشہ آور اشیاء۔ یہ دماغ کے ان حصوں کو متاثر کرتے ہیں جو جذبات، رویے، محرک اور یادداشت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ لمبے عرصے کی گیمنگ لت انسان کو ڈپریشن اور سماجی تنہائی کی طرف لے جاتی ہے۔‘

ماہرین کے مطابق وجوہات

نوجوان کم وقت میں شہرت اور پہچان چاہتے ہیں۔ ورچوئل انعامات انہیں طاقت اور اثر و رسوخ کا احساس دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی طرح گیمنگ بھی ’فخر اور برتری‘ کا ذریعہ بن گئی ہے۔ جعلی شناخت، عمر چھپانا اور والدین کو دھوکہ دینا عام ہو چکا ہے۔

علاج اور تھراپی

ماہرین کے مطابق گیمنگ کی لت نشے جیسی ہے، اس کے علاج کے لیے:

کگنیٹیو بیہیویئرل تھراپی (CBT)

موسیقی یا کھیلوں کی سرگرمیوں سے توجہ ہٹانا،

والدین کا بچوں کے ساتھ وقت گزارنا،

حقیقی دنیا میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے مثبت سرگرمیوں کو فروغ دینا ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جوئے کی تشہیر کا معاملہ، ڈکی بھائی کے بعد رجب بٹ سمیت کئی بڑے یوٹیوبرز کے خلاف کارروائی شروع

والدین کے لیے مشورے

بچوں کو اپنے بینک یا ڈیجیٹل اکاؤنٹس تک رسائی نہ دیں۔

لت ختم کرنے کے لیے صرف پڑھائی پر زور دینے کے بجائے صحت مند مشغلے دیں۔

گیمز کے نقصانات اور دھوکے دہی کے طریقے سمجھائیں۔

پیسے کی حقیقی اہمیت اور قدر بچوں کو سکھائیں تاکہ وہ اسے کھیل تماشے کی چیز نہ سمجھیں۔

حکومت کا اقدام

اسی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت میں حکومت نے ایک نیا آن لائن گیمنگ بل منظور کیا ہے، جس کا مقصد کم عمر افراد کو مالی اور نفسیاتی نقصانات سے بچانا اور گمراہ کن اشتہارات پر پابندی لگانا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آن لائن گیمنگ بھارت جوا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا ن لائن گیمنگ بھارت جوا کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

غزہ کی بیاسی سالہ جنگجو مریضہ

اسرائیل کا سرکاری موقف ہے کہ غزہ سے حراست میں لیے گئے سب لوگ حماس یا اسلامک جہاد کے ’’دہشت گرد‘‘ ہیں۔اس دعوی کے برعکس اسرائیلی ملٹری انٹیلی جینس کے کلاسیفائیڈ ڈیٹا سے اندازہ ہوتا ہے کہ پچیس فیصد قیدیوں کے بارے میں تو شبہہ ہو سکتا ہے کہ وہ بلاواسطہ یا براہِ راست اسرائیل مخالف تنظیموں کی مدد کرتے رہے یا کبھی نہ کبھی رابطے میں رہے مگر پچھتر فیصد عام شہری ہیں۔ان کا کسی مسلح تنظیم سے کوئی لینا دینا نہیں۔ان میں طبی شعبے سے منسلک افراد ، اساتذہ ، سرکاری ملازم ، قلم کار ، میڈیا ورکرز ، بیمار ، معذور ، معمر اور بچوں سمیت ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔

جنوبی اسرائیل کے بدنامِ زمانہ سدی تمیم قید خانے میں اتنے معمر اور بدحال قیدی بھی ہیں کہ ان کے لیے جیل میں الگ شیڈ بنانا پڑ گیا۔ان میں وہ مریض بھی ہیں جنھیں غزہ کے اسپتالوں میں بستروں سے کھینچ کے گاڑیوں میں بھر کے یہاں پہنچایا گیا۔بہت سے وہیل چیرز سمیت اٹھا لیے گئے۔

برطانوی اخبار گارجین ، اسرائیلی آن لائن جریدے نائن سیون ٹو اور لوکل کال کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنیس کا جو ڈیٹا ہاتھ لگا اس میں سینتالیس ہزار افراد کو بطور دہشت گرد کلاسیفائی کیا گیا۔یہ فہرست مسلسل اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہے۔ان میں سے صرف ساڑھے چودہ سو افراد کو باقاعدہ ’’ گرفتار ‘‘ ظاہر کیا گیا۔ تین سو نام ایسے ہیں جن کے بارے میں ملٹری انٹیلی جینس کو یقین ہے کہ وہ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو جنوبی اسرائیل پر ہونے والے حملے میں ملوث ہیں۔مگر دو برس گذرنے کے باوجود انھیں کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔

باقی گرفتاروں کو غیر قانونی جنگجوؤں کی کیٹگری میں دکھایا گیا ہے۔اس کیٹگری کا فائدہ یہ ہے کہ عام شہریوں کو بنا فردِ جرم عائد کیے غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔

قیدیوں کی قانونی معاونت کرنے والی انسانی حقوق کی ایک فلسطینی تنظیم المیزان سینٹر کا کہنا ہے کہ اسرائیل اب بھی بے گناہ قیدیوں کی تعداد کم کر کے پیش کر رہا ہے۔المیزان کا اندازہ ہے کہ ہر چھ یا سات میں سے صرف ایک گرفتار شخص کا اسرائیل مخالف تنظیموں سے تعلق یا ہمدردی ہو سکتی ہے۔یعنی ستر فیصد قیدی کسی لینے دینے میں نہیں۔

اسرائیل کا دعوی ہے کہ دو ہزار قیدیوں کو تفصیلی چھان پھٹک کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔فوجی ذرایع کے مطابق رواں برس مئی تک دو ہزار سات سو پچاس قیدیوں کو باضابطہ طور پر غیرقانونی جنگجو قرار دیا گیا۔جب کہ ایک ہزار پچاس کو حماس کے ساتھ جنوری میں ہونے والے عارضی جنگ بندی کے سمجھوتے کے تحت رہائی نصیب ہوئی۔

رہائی پانے والوں میں الزائمر میں مبتلا بیاسی سالہ فہمیہ الخالدی بھی شامل ہیں جنھیں دسمبر دو ہزار تئیس میں معمر لوگوں کی طبی دیکھ بھال کے ایک مرکز سے گرفتار کر کے چھ ہفتے تک بطور غیرقانونی جنگجو حراست میں رکھا گیا۔فہمیہ کی یادداشت بالکل ختم ہے۔اسرائیل کے اناتوت نظربندی مرکز میں جب فہمیہ نے خاردار باڑھ سے الجھ کے خود کو زخمی کر لیا تب نظربندی مرکز کے طبی عملے کو ان کی بیماری کی شدت کا علم ہوا۔فہمیہ کو نہ اپنی عمر یاد ہے اور نہ یہ احساس کہ وہ گرفتار ہیں۔مگر اسرائیلی ملٹری انٹیلی جینس بضد ہے کہ فہمیہ کو مصدقہ اطلاعات ملنے پر حراست میں لیا گیا۔معذور یا بیمار بھی دہشت گردوں کے آلہِ کار ہو سکتے ہیں۔

ایک انٹیلی جنس اہلکار نے القسام بریگیڈ کے کمانڈر محمد دائف کی مثال دی جن پر اسرائیل نے سات قاتلانہ حملے کیے اور دو ہزار چودہ میں وہ اسی طرح کے ایک حملے میں زخمی ہونے کے سبب وہیل چیر استعمال کرتے رہے ( باور کیا جاتا ہے کہ محمد دائف گذشتہ برس ایک حملے میں شہید ہو گئے )۔

سدی تمیم کی جیل کے طبی عملے میں سے ایک نے بتایا کہ ایک حاملہ خاتون کو بھی یہاں لایا گیا جس کا خوف کے سبب مس کیرج ہو گیا۔ ایک اور قیدی عورت کو اپنا شیر خوار بچہ ساتھ رکھنے کی بھی اجازت نہیں ملی۔

چالیس سالہ ابیرہ غبان کو دسمبر دو ہزار تئیس میں ایک فوجی چیک پوسٹ پر روکا گیا۔ ان کے ہمراہ دس سالہ بچی اور نو اور سات برس کے دو بیٹے تھے۔تینوں بچوں کو وہیں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ ابیرہ کو حماس کے ایک مطلوب شخص کی بیوی ہونے کے شبہے میں گرفتار کیا گیا۔ چھان بین سے معلوم ہوا کہ ابیرہ کا شوہر دراصل اسرائیل کو مطلوب شخص کا محض ہم نام ہے اور ابیرہ کی گرفتاری اسی کنفیوژن کا نتیجہ تھی۔عبیرہ تریپن روز بعد رہا ہو کر گھر پہنچی تو اسے معلوم ہوا کہ تینوں بچے اس دوران سڑک پر بھیک مانگ کر گذارہ کرتے رہے۔

غیر قانونی جنگجوؤں کے قانون کے تحت قیدیوں کو پینتالیس دن تک عدالت میں پیش کیے بغیر اور پچھتر دن تک وکیل تک رسائی کے بنا حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔مگر سات اکتوبر کے بعد اس قانون میں مزید تبدیلی کے نتیجے میں عدالت تک رسائی پچھتر روز اور قانونی امداد تک رسائی ایک سو اسی دن تک روکی جا سکتی ہے۔سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے جتنے لوگ گرفتار ہوئے ان میں سے کسی پر مقدمہ نہیں چلایا گیا۔انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی ان قیدیوں کے کوائف کے بارے میں تھوڑی بہت تفصیلات تب مل پائیں جب عدالت سے رجوع کیا گیا۔

جن قیدیوں کو تفتیش کے بعد آزاد کر دیا جاتا ہے وہ بھی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔جب غزہ کے الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سالمیا کو بہیمانہ تشدد کے بعد رہا کیا گیا تو اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئین و قانون کے سربراہ سمچا روتھمین نے احتجاج کیا کہ ان قیدیوں کو حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کے لیے سودے بازی کے بغیر کیوں چھوڑا جا رہا ہے ؟

 انسانی حقوق کی تنظیم المیزان کے مطابق فلسطینیوں کی لاشیں ضبط کر لینا تو ایک معمول ہے۔ ان لاشوں کو تب تک ورثا کے حوالے نہیں کیا جاتا جب تک کہ وہ نیک چلن کے تحریری عہدنامے پر دستخط نہ کر دیں۔

غزہ کے ہزاروں لوگ لاپتہ یا جبری گمشدہ ہیں۔مثلاً تین دسمبر دو ہزار چوبیس کو نسرین زیف اللہ کا سولہ سالہ بچہ محتشم گھر کا سودا لینے گیا مگر پلٹ کر نہیں آیا۔نسرین نے اسپتالوں کے مردہ خانے تک چھان مارے لیکن کچھ پتہ نہیں چلا۔گذشتہ ماہ رہا ہونے والے ایک قیدی نے نسرین کو بتایا کہ اس کا بیٹا میرے ساتھ قید تھا اور بیمار تھا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • آن لائن گیم میں 13 لاکھ روپے ہارنے پر 14 سالہ بچے کی خودکشی
  • آن لائن گیم کی لت 14 سالہ بچے کی زندگی نگل گئی
  • پی آئی اے منافع بخش ادارہ بن گیا
  • خیبر پختونخوا کے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ میں کروڑوں کی بے قاعدگیوں کا انکشاف
  • عمران خان کا ایف آئی اے ٹیم کو اپنے ایکس اکاؤنٹ کے ہینڈلر کا نام بتانے سے انکار
  • کراچی، 11 سالہ بچی کے قتل کیس میں پیشرفت، تحقیقات میں اہم انکشافات
  • اسرائیل نے غزہ میں قحط نہ ہونے کا پروپیگنڈا کرنے کیلئے لاکھوں یورو خرچ کیے، رپورٹ میں انکشاف
  • غزہ میں قحط اور نسل کشی چھپانے کیلئے اسرائیل کی جانب سے لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کا انکشاف
  • غزہ کی بیاسی سالہ جنگجو مریضہ
  • پاکستان کے قرضوں میں نمایاں اضافہ، ہر پاکستانی کتنا مقروض؟