14 فروری 1933 میں عطا اللہ خان اور عائشہ بیگم کے ہاں ایک بچی نے جنم لیا، جس کا نام انھوں نے ممتاز جہاں بیگم دہلوی رکھا۔ ممتاز جہاں دہلی میں پیدا ہوئی تھیں۔
اس کے والد پشاور میں ایک مٹی کے برتن بنانے والے کے پاس کام کرتے تھے اور اس سلسلے میں وہ مٹی کے برتن لے کر راولپنڈی اور پنجاب کے شہروں میں جایا کرتے تھے لیکن خاندان کا گزارا نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے وہ پورے خاندان سمیت دہلی آگئے، یہاں انھوں نے کئی سال تک رکشہ چلایا۔ ممتاز کا اپنے گیارہ بہن بھائیوں میں پانچواں نمبر تھا۔ ایک دن وہ اپنے گھر کے باہر کھیل رہی تھی کہ وہاں سے ایک فقیر گزرا۔ اس نے ممتاز کو دیکھا اور کہنے لگا کہ ’’ یہ بچی بڑی ہو کر بہت نام، شہرت اور پیسہ کمائے گی، لیکن یہ زیادہ دن جی نہ سکے گی۔‘‘ گھر والوں نے فقیر کی اس بات کا زیادہ نوٹس نہ لیا۔
ممتاز ان دنوں آل انڈیا ریڈیو کے پروگرام ’’ نشان‘‘ میں حصہ لیتی تھی اور بے بی ممتاز کہلاتی تھی۔ ایک دن اس پروگرام میں مدن موہن کے والد رائے بہادر تشریف لائے جو بمبئی ٹاکیز کے منیجر تھے۔ ان دنوں وہ ایک فلم ’’بسنت‘‘بنا رہے تھے اور انھیں ایک بچی کی تلاش تھی۔ انھوں نے جب ممتاز کو دیکھا تو اس کے والد عطا اللہ خان سے بات کی، وہ خوش ہو گیا، چنانچہ رائے بہادر صاحب نے ممتاز کو بمبئی ٹاکیز کی مالک دیویکا رانی سے ملوا دیا۔ اس نے جیسے ہی ممتاز کو دیکھا فوراً ہی ایک سو پچاس روپے ماہانہ پر بمبئی ٹاکیز میں ملازمت پر رکھ لیا اور اسے فلم ’’بسنت‘‘ کا ایک رول مل گیا۔
یہ فلم 1942 میں ریلیز ہوئی۔ بے بی ممتاز اس وقت نو سال کی تھی۔ بعد ازاں کیدار شرما نے فلم ’’ نیل کمل‘‘ میں بے بی ممتاز کوکاسٹ کیا۔ یہ سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کر رہی تھیں،کیدار شرما کی پتنی کملا چٹرجی۔ لیکن وہ اچانک بیمار ہوئیں اور وفات پا گئیں، تب کیدار شرما نے ممتاز کو یہ رول دے دیا کیونکہ اسے فلم کے سارے ڈائیلاگ یاد تھے مگر اس وقت اس کی عمر صرف تیرہ برس تھی۔
عطا اللہ خان کو اپنا شان دار مستقبل اپنی بیٹی میں نظر آیا اور وہ اپنے خاندان کو لے کر بمبئی آ گیا، یہاں موتی لال کی سفارش پر ممتاز کو رنجیت مووی ٹون میں تین سو روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا گیا، اس وقت کے لحاظ سے تین سو روپے آج کے تین لاکھ سے بھی زیادہ ہوں گے۔ فلم نیل کمل میں بیگم پارہ بھی تھی لیکن ممتاز کے مقابل ہیرو تھے، راج کپور اور بیگم پارہ کے ساتھ تھے موتی لال۔ اسی لیے انھوں نے ممتاز کو رنجیت مووی ٹون میں ملازمت دلوائی۔
عطا اللہ خان کی ساری امیدیں اپنی بیٹی ممتازسے وابستہ تھیں۔ اسی لیے وہ پورے خاندان کے ساتھ بمبئی آگیا اور ایک سستے سے علاقے میں رہنے لگا۔ یہاں اس نے رکشہ بھی چلایا اور شام کو وہ اپنی بیٹی کو لے کر مختلف فلم اسٹوڈیوز کے چکر بھی لگاتا۔ یہاں اسے کامیابی ملی اور ممتاز کو کئی فلمیں دی گئیں جیسے پھلواری، خوبصورت، راجپوتانی، چتوڑ، دل کی رانی، دنیا، وغیرہ۔ لیکن یہ فلمیں کوئی کمال نہ دکھا سکیں۔
کمال امروہوی ایک فلم بنا رہے تھے ’’ محل‘‘ جس کے فلم ساز تھے، اشوک کمار۔ کمال امروہوی کو اس فلم کے لیے کوئی نئی لڑکی درکار تھی جو خوبصورت بھی ہو۔ وہ فلم میں کسی نئی لڑکی کو لینا چاہتے تھے۔ کچھ ایسا ہوا کہ ایک دن کمال امروہوی کی ملاقات ممتاز سے ہوگئی اور انھیں یہ لڑکی پہلی نظر میں بھا گئی۔ معصوم بھولی بھالی اور نہایت حسین بھی ۔ انھوں نے اشوک کمار سے اس کا تذکرہ کیا، انھوں نے بھی پہلی ہی نظر میں اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ فلم محل 1949 میں ریلیز ہوئی۔ اسی فلم سے ممتاز کا نام بدل کر مدھو بالا رکھ دیا گیا۔
یہ نام اسے دیویکا رانی نے دیا تھا۔ یہ فلم سپر ہٹ رہی۔ اس فلم میں ممتاز جسے اب مدھوبالا کا نام دے دیا گیا تھا بہت خوبصورت نظر آئی۔ راتوں رات مدھو بالا مشہور ہو گئی۔ یہ فلم بزنس کے اعتبار سے بھی سپرہٹ رہی۔ اس فلم میں اس کا حسن اس حد تک نکھر گیا کہ اسے وینس ’’ آف انڈیا ‘‘ کہا جانے لگا۔ اس وقت اس کی عمر صرف سولہ سال تھی۔
فلم نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ راتوں رات ممتاز مدھوبالا بن گئی۔ اس فلم کے دوران کمال امروہوی اور مدھو بالا کے درمیان پیار کا رشتہ قائم ہو گیا تھا۔ کمال امروہوی اس سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن مدھوبالا راضی نہ ہوتی کیونکہ کمال صاحب پہلے سے شادی شدہ تھے اور مدھوبالا کسی دوسری عورت کا گھر برباد کرنا نہیں چاہتی تھی۔ اسی فلم سے ایک نئی گلوکارہ لتا منگیشکر کا بھی جنم ہوا۔ فلم ’’محل‘‘ میں لتا کی آواز میں وہ مشہورگیت سامنے آیا جو آج بھی لوگوں کو یاد ہے اور لوگ اسے سنتے بھی ہیں، یہ ایک ہٹ سونگ ہے، یہ لتا کا پہلا ہٹ سونگ ہے:
آئے گا، آئے گا، آئے گا آنے والا
دیپک بغیر کیسے پروانے جل رہے ہیں
کوئی نہیں چلاتا اور تیر چل رہے ہیں
تڑپے گا کوئی کب تک بے آس بے سہارے
لیکن یہ کہہ رہے ہیں دل کے میرے اشارے
بھٹکی ہوئی جوانی منزل کو ڈھونڈتی ہے
مانجھی بغیر نیّا ساحل کو ڈھونڈتی ہے
نہ جانے دل کی کشتی کب تک لگے کنارے
لیکن یہ کہہ رہے ہیں دل کے مرے اشارے
آئے گا، آئے گا، آئے گا آنے والا
اس فلم کی ریلیز کے بعد مدھوبالا کو حسن کی دیوی کا خطاب مل چکا تھا، اسے دھڑا دھڑ فلمیں ملنے لگی تھیں، لیکن اسے یہ اختیار نہ تھا کہ وہ خود اپنی فلموں کا انتخاب کرتی بلکہ اس کے والد نے خود ہی اس کے منیجر کی ذمے داری بھی اٹھا لی تھی۔ وہ ہر فلم ساز کو ہاں کہہ دیتا تاکہ زیادہ سے زیادہ فلمیں بیٹی کو ملیں اور زیادہ سے زیادہ پیسہ آئے۔ مدھوبالا عطا اللہ خان کے لیے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی تھی۔
بے بی ممتاز پھر ممتاز سے مدھو بالا بننے کا سفر بہت آسان نہ تھا، کنبہ بڑا تھا اور کمانے والا ایک، عطا اللہ نے اپنی ساری امیدیں اپنی بیٹی سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ بمبئی میں جہاں ان کی رہائش تھی وہ ایک ڈاکیارڈ تھا۔ ایک دن مدھوبالا اپنے ماں باپ اور پانچ بہن بھائیوں کے ہمراہ ایک فلم دیکھنے گئے ہوئے تھے، اسی دوران ڈاکیارڈ میں ایک پانی کا جہاز بہت سارا سامان لے کر جس میں گولہ بارود بھی تھا، بمبئی آ رہا تھا، جب وہ جہاز گودی کے قریب پہنچا تو اس میں آگ لگ گئی، یہ دھماکہ اتنا خطرناک تھا کہ آس پاس کے مکانوں میں بھی آگ بھڑک اٹھی۔ اسی بیچ مدھو بالا کے پانچ بہن بھائی بھی لقمہ اجل بن گئے۔
اس وقت عطا اللہ خان کے پاس بچوں کے کفن دفن کے لیے کچھ نہ تھا، محلے والوں کی مدد سے اس نے اپنے بچوں کو دفن کیا۔ مدھو بالا بچپن ہی سے بہت حساس تھی اور اسے اپنے خاندان کی غربت کا بہت احساس تھا۔ اسی لیے وہ وقت سے پہلے ہی بڑی ہو گئی تھی۔ وہ اپنے باپ کے زیر اثر تھی، کس سے ملنا ہے، کون سی فلم سائن کرنی ہے یہ سب عطا اللہ خان طے کیا کرتا تھا۔ اس زمانے میں مدھو بالا کا نام فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔
وہ اس قدر حسین تھی کہ جو دیکھتا تھا، دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔ کہتے ہیں اس وقت کے کیمرے اس کی خوبصورتی کو صرف دو فی صد ہی دکھا سکتے تھے، ہر اداکار اس کے ساتھ کام کرنا چاہتا تھا۔ ان دنوں جو فلمیں مدھو بالا نے کیں، ان میں سنگھار، بادل، سنگدل، ترانہ، دلاری، ریل کا ڈبہ، بہت دن ہوئے سرفہرست ہیں۔ اس کی خوبصورتی لوگوں کو مبہوت کر دیتی تھی۔ خدا نے اسے دل کھول کر حسن عطا کیا تھا۔
راج کپور جس نے فلم ’’نیل کال‘‘ میں اس کے ساتھ کام کیا تھا کہنا تھا کہ مدھو بالا کو خدا نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ شمی کپور کا کہنا ہے کہ مدھو بالا اتنی حسین ہے کہ جب وہ پانی پیتی ہے تو حلق سے اترتا نظر آتا ہے۔ بے بی ممتاز جب مدھوبالا بنی تو بائیس سال کے فلمی کیریئر میں 70 سے زیادہ فلموں میں کام کیا جس میں مغل اعظم جیسی لاثانی فلم بھی شامل ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عطا اللہ خان نے ممتاز کو بے بی ممتاز مدھو بالا اپنی بیٹی انھوں نے لیکن یہ کے والد کے ساتھ رہے ہیں اس فلم آئے گا تھا کہ کا نام ایک دن یہ فلم
پڑھیں:
ڈیرہ بگٹی، بارودی سرنگ کے دھماکے، ماں بیٹی سمیت 3 افراد جاں بحق
ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں دو الگ الگ بارودی سرنگ کے دھماکوں میں تین افراد جاں بحق جبکہ 4 شدید زخمی ہوئے ہیں۔
سوئی میں ہونے والے بارودی سرنگ کے دھماکوں کی آواز سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
پہلا دھماکا لنجو کے نزدیک سغاری گاؤں میں ہوا جہاں ایک خاتون حیات چاکرانی اپنی 8 سالہ بیٹی اور ایک مقامی شخص غلام نبی گھر سے باہر نکلتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔
عینی شاہدین کے مطابق دھماکا اتنا شدید تھا کہ لاشیں شناخت کے قابل نہ رہیں جبکہ دوسرا دھماکا یارو پٹ کے سرحدی علاقے میں پیش آیا، جہاں دو مرد، ایک خاتون اور ان کا 10 سالہ بیٹا زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کو فوری طور پر لیویز اہلکاروں نے ڈیرہ بگٹی کے سول ہسپتال منتقل کیا جہاں ڈاکٹروں نے دو زخمیوں کی حالت تشویشناک قرار دی ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق دھماکوں کی جگہ پر کوئی عسکری سرگرمی نہیں تھی اور یہ بارودی سرنگیں ممکنہ طور پر کسانوں یا عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے بچھائی گئی تھیں۔
لیویز اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کے دستوں نے دھماکوں کے مقامات کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
حکام کاکہناہے کہ دھماکوں کی نوعیت جانچنے کے لیے ماہرین کی ٹیم طلب کر لی گئی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے واقعے کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے، جبکہ اب تک کسی گروہ نے دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔