لاہور جنرل ہسپتال سے اغوا ہونے والا نوزائیدہ 48 گھنٹوں بعد بازیاب، دو خواتین گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور جنرل ہسپتال سے نقاب پوش خواتین کے ہاتھوں اغوا ہونے والا نوزائیدہ بچہ پولیس نے 48 گھنٹوں کے اندر بازیاب کروا لیا۔ کارروائی کے دوران سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں اور 500 سے زائد نجی سی سی ٹی وی فوٹیجز نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
کاہنہ کی رہائشی خاتون نے تقریباً 10 برس بعد بیٹے کو جنم دیا تھا، لیکن پیدائش کے فوراً بعد لیبر روم سے بچے کے اغوا کی اطلاع ملنے پر وہ شدید صدمے سے دوچار ہوگئیں۔
ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کمران نے فوری طور پر ایس پی ماڈل ٹاؤن، ایس ایچ او کوٹ لکھپت اور دیگر تفتیشی افسران کو متحرک کیا۔ پولیس کے مطابق ملزمہ خواتین نے ہسپتال کے نظامِ حفاظتی میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھایا اور بار بار راستے بدلتے ہوئے مختلف رکشوں کا استعمال کر کے تقریباً 10 کلومیٹر دور کاماہاں کے ایک گھر تک پہنچیں۔
سینئر پولیس افسر کے مطابق خواتین نے واردات کے وقت نہ صرف ہسپتال کے عملے اور سیکیورٹی کو دھوکہ دیا بلکہ پولیس کو بھی چکمہ دینے کی کوشش کی، تاہم سیف سٹی اور نجی کیمروں کی مدد سے ان کا سراغ لگا لیا گیا۔
ماڈل ٹاؤن ڈویژن کے تفتیشی ایس پی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ گرفتار خواتین میں سے ایک شادی شدہ مگر بے اولاد ہے، جو گھریلو مسائل اور ازدواجی رشتے کو بچانے کے لیے اس سنگین جرم کی مرتکب ہوئی۔
پولیس نے دونوں خواتین کو گرفتار کر کے بچے کو والدین کے حوالے کر دیا ہے، جبکہ ہسپتال کے نظام اور ڈیوٹی پر موجود عملے کی تفتیش بھی جاری ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر پابندی عائد، 10 سال قید کی سزا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آستانہ: قازقستان میں نیا قانون نافذ ہوگیا ہے جس کے تحت ملک میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے اعلان کیا ہے کہ اب اگر کوئی بھی شخص کسی خاتون یا لڑکی کو زبردستی شادی پر مجبور کرے گا تو اسے 10 سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے، اس قانون کا مقصد جبری شادیوں کی حوصلہ شکنی کرنا اور کمزور طبقات خصوصاً خواتین اور نوجوانوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ دلہنوں کے اغوا پر بھی سختی سے پابندی لگا دی گئی ہے، اس سے قبل اگر کوئی اغوا کار متاثرہ خاتون کو اپنی مرضی سے چھوڑ دیتا تو قانونی کارروائی سے بچنے کے امکانات موجود ہوتے تھے، نئے قانون کے بعد یہ سہولت مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق قازقستان میں جبری شادیوں کے قابلِ اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں تھے کیونکہ ملک کے کرمنل کوڈ میں اس حوالے سے کوئی علیحدہ شق شامل نہیں تھی، رواں برس کے اوائل میں ایک رکنِ پارلیمان نے انکشاف کیا تھا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران پولیس کو جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا کے 214 کیسز رپورٹ ہوئے۔
یاد رہے کہ قازقستان میں خواتین کے حقوق کے مسائل 2023 میں اس وقت عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے تھے جب ایک سابق وزیر نے اپنی اہلیہ کو قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ملک میں خواتین کے تحفظ سے متعلق قوانین بنانے کا دباؤ بڑھ گیا تھا، اور نیا قانون اسی سلسلے کی کڑی ہے۔