Express News:
2025-11-03@06:43:25 GMT

اسرائیل سے کیسے نمٹا جائے!

اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT

مشرق وسطیٰ میں کاش کہ برطانیہ نے یہودیوں کو سر چھپانے کی جگہ فراہم نہ کی ہوتی تو آج جو المناک دہشت ناک اور خون آلودہ حالات فلسطین میں روز ہی رونما ہو رہے ہیں وہ نہ ہوتے مگر شاید یہ برطانیہ کی مجبوری تھی کہ اسے بے وطن اور پریشان حال یہودیوں کی مشکلات کو دور کرنے اور انھیں آباد ہونے کے لیے اپنی مفتوحہ سرزمین فلسطین کا ایک قطعہ فراہم کرنا پڑا۔

دنیا جانتی ہے کہ برطانیہ کو اس کے بدلے میں یہودیوں نے ان کے سب سے بڑے دشمن ہٹلر کو ہرانے کے لیے جاسوسی کا گھناؤنا جال پھیلایا تھا پھر اس کی پاداش میں یہودیوں کو اپنی نسل کشی جیسی آفت سے گزرنا پڑا تھا۔ شاید ہٹلر سے زیادہ یہودیوں کی نفسیات سے کوئی واقف نہیں تھا اس نے ان کی غداری کے صلے میں انھیں چن چن کر ہلاک کیا تھا۔ اس نے انھیں ہلاک کرنے کے لیے گولیوں کا استعمال نہیں کیا بلکہ بڑے بڑے گڑھے کھدوا کر ان میں یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو ڈال دیا جاتا اور اوپر سے مٹی برابر کر دی جاتی۔ یہودیوں کے اس قتل عام کو ہولوکاسٹ کا نام دیا جاتا ہے۔

آخر ہٹلر نے چند بڑے رہنماؤں کے بجائے جرمنی میں آباد تمام یہودیوں کو درگور کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ وجہ یہ تھی کہ یہودی جرمنی کے شہری ہوتے ہوئے جرمنی سے غداری کے مرتکب ہوئے تھے۔ وہ جرمنی کے دشمنوں کو جو برطانیہ، فرانس، امریکا و دیگر ممالک تھے انھیں عین دوسری جنگ عظیم کے وقت جرمنی کی خفیہ خبریں پہنچا رہے تھے۔ اس طرح وہ جرمنی کو مشکلات کا شکار کر رہے تھے۔ مگر اب کیا یہودی ہولوکاسٹ کا بدلہ فلسطینیوں سے لے رہے ہیں تو فلسطینیوں نے تو یہودیوں پر کوئی ظلم نہیں ڈھایا اور نہ ہی وہ یہودیوں کے خلاف کسی سازش میں شامل رہے ہیں پھر ان کی آج کل نسل کشی کرکے وہ انھیں کس جرم کی سزا دے رہے ہیں۔

اسرائیل نے فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی ہے۔ اب تک اسی ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ سے اوپر زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں کا کوئی نہ کوئی فرد نیتن یاہو کی درندگی کا شکار نہ بنا ہو۔ مسلسل بمباری سے بے شمار گھر تباہ ہو چکے ہیں۔

ایک طرف بھیانک بمباری سے غزہ کی آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو دوسری جانب غذائی قلت پیدا کرکے فلسطینیوں کو دانستہ طور پر موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ پڑوسی ممالک اور انسانی خدمت کے اداروں کی طرف سے بھیجی جانے والی غذا کی ترسیل میں جان بوجھ کر رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ بمباری کے وقفوں کے دوران جو ناکافی غذا بھی فلسطینیوں تک پہنچ رہی ہے اس کی تقسیم کے مقام پر پہنچنے والے فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری کی جا رہی ہے چنانچہ غذا کے بجائے انھیں موت مل رہی ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ وہاں موجود صحافیوں اور اقوام متحدہ کے امدادی اہلکاروں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ بھی فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کی درخواست کر رہی ہے مگر اس کی بھی کوئی نہیں سن رہا۔ امریکا جو حقوق انسانی کا چیمپئن خود کو کہتا ہے اس نے بھی چپ سادھ رکھی ہے یورپی ممالک اگرچہ اس قتل عام پر ناراض ہیں مگر یہ شاید دکھاوا ہی ہے۔ فلسطینی مسئلے کا واحد دیرپا حل فلسطینی ریاست کا قیام ہے مگر اس حل تک پہنچنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے کیونکہ اسرائیل اس کے خلاف ہے اور وہ شاید ہی آزاد فلسطینی ریاست کو قائم ہونے دے۔ امریکی صدر ٹرمپ کا یہ حال ہے کہ وہ کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ فلسطینی غزہ کا علاقہ خالی کر دیں بس یہی تو نیتن یاہو بھی چاہتا ہے تاکہ وہ اسرائیل کی سرحدوں کو آگے وسعت دے سکے۔

فلسطینی بھی امریکی اور اسرائیلی سازش سے باخبر معلوم ہوتے ہیں جب ہی انھوں نے غزہ کو خالی کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ مر تو سکتے ہیں مگر اپنی جگہ نہیں چھوڑ سکتے۔ یہودیوں کے ظلم و ستم کوئی نئے نہیں ہیں وہ تو ماضی میں اپنے پیغمبروں کو بھی شہید کرتے رہے ہیں۔ وہ دولت کی لالچ میں کسی بھی برے کام کو کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ انسان کش قوم ہے۔

یہ اپنے مفاد کے حصول کے لیے کسی بھی انسان کش کام کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ انسانوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکت کا سبب بننے والا ایٹم بم بھی انھی کی ایجاد ہے۔ انھوں نے ہی امریکا اور برطانیہ کو ایٹمی قوت بنایا ہے اور امریکا نے ان کے ہی بنائے ہوئے ایٹم بموں سے ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملے کرکے ان شہروں کے لاکھوں شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

امریکا اور برطانیہ آج بھی یہودیوں کے سب سے بڑے طرف دار ہیں اور ان کی دنیا میں واحد ریاست اسرائیل کے نگہبان ہیں۔ یہ تو حقیقت ہے کہ ایٹم بم کو ایجاد کرنے والا آئین اسٹائن تھا جو یہودی تھا اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کے پہلے ایٹم بم کا بلیو پرنٹ 1940 میں برمنگھم برطانیہ میں دو یہودیوں نے تیار کیا تھا۔ انھوں نے ہی برطانیہ کو خبر دی تھی کہ ایک ایٹم بم ایک پورے شہر کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں جب جرمنی اور جاپان اتحادی افواج پر بھاری پڑ رہے تھے تو ایسے میں امریکا ان دونوں ممالک کو ایک بڑا سبق سکھانا چاہتا تھا کیوں کہ جس رفتار سے اس وقت جنگ چل رہی تھی اس سے امریکا نہ سہی مگر برطانیہ ضرور تباہی کے دہانے پر تھا۔ ایسے میں برطانیہ نے یہودی سائنس دانوں کا ایٹم بم کا بلیو پرنٹ امریکا کو مہیا کر دیا۔ امریکا میں اسی بلیو پرنٹ کے تحت وہاں موجود یہودی سائنس دانوں نے ایٹم بم تیار کیے اور پھر امریکا نے انھیں جاپان کے خلاف استعمال کر ڈالا۔ امریکا نے ایک نہیں دو ایٹم بم جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے۔ ان سے وہاں کے لاکھوں شہری موت کی نیند سو گئے اور درجنوں ہی شہر تباہ و برباد ہو کر کھنڈر بن گئے۔

امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرانے کی غلطی کی تھی مگر اس میں برطانیہ کا بھی عمل دخل شامل تھا۔ اسی طرح عربوں کی سرزمین پر یہودیوں کو بسانے میں امریکا ضرور پیش پیش تھا مگر یہودیوں کو آباد کرنے کے لیے برطانیہ نے اپنی مفتوحہ فلسطین کی سرزمین مہیا کی تھی جو اس نے سلطنت عثمانیہ کو پہلی جنگ عظیم میں شکست دے کر حاصل کی تھی۔ آج امریکا اور برطانیہ کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل کی ہمت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ جمانے کا پلان بنا چکا ہے۔

فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم و ستم کو روکنے کے لیے امریکا اور برطانیہ سے کوئی امید لگانا عبث ہے اب تمام مسلم ممالک کو اسرائیل کو سبق سکھانے کے لیے اپنی مصلحتوں سے باہر نکل کر عملی اقدام اٹھانا ہوں گے۔ جس طرح گزشتہ دنوں ایران اسرائیل کو جارحیت کا مزہ چکھا چکا ہے جس سے اسرائیل کی کمزوری سامنے آ چکی ہے، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اگر مسلم ممالک اسرائیل کو مجبور کرنے کے لیے اس پر حملہ نہیں کرسکتے تو کم سے کم تمام سفارتی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات ہی منقطع کر لیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکا اور برطانیہ کرنے کے لیے یہودیوں کے یہودیوں کو امریکا نے ہے کہ وہ چکے ہیں رہے ہیں ایٹم بم رہی ہے

پڑھیں:

ٹونی بلیر بیت المقدس کا محافظ؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-5

 

عارف بہار

علامہ اقبال نے ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کا مصرع مخصوص واقعات کے مشاہدے اور تسلسل میں کہا تھا مگر پاکستان میں حکمران طبقات جس طرح اس مصرعے کو فلسطینیوں کے آنے والے ماہ وسال کے ساتھ جوڑ رہے ہیں سراسر مغالطہ آرائی اور فرضی بیانیہ سازی ہے۔ یہ پاکستانیوں کو بہلانے کا ایک سامان اور گمان ہے۔ فلسطین کی آزاد اور متوازی ریاست کے تصور کا پروانہ امریکا نے اسی وقت پھاڑ کر پھینک دیا تھا جب موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا تھا۔ اس وقت تک ایک آس اور امید موجود تھی کہ مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بیت المقدس یعنی مغربی یروشلم ہوگا۔ اسی لیے یروشلم کو تنازع فلسطین کے بین الاقوامی پروسیس کے تحت اسرائیل کا دارالحکومت بنائے جانے سے روکا گیا تھا۔ امریکا نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرکے اس تصور کو اپنے تئیں ختم کر دیا تھا۔ اب ٹرمپ تازہ دم ہو کر واپس لوٹے ہیں تو وہ اپنے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی طرف تیز رفتار پیش کرتے نظر آرہے ہیں۔

نوے کی دہائی کے اوائل میں اوسلو معاہدہ بہت دھوم دھام کے ساتھ ہوا تھا۔ اسے فلسطین کے مسئلے کا حل یا طویل المیعاد حل کی جانب اہم پیش رفت کہا جارہا تھا۔ اوسلو معاہدے کو مشرق وسطیٰ کے تمام دکھوں کا علاج اور زخموں کا مرہم بنا کر پیش کیا جا رہاتھا مگر یاسر عرفات بہت بوجھل قدموں سے اوسلو کی طرف قدم بڑھارہے تھے۔ انہیں یہ اندازہ تھا کہ انہیں دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کے ایک ممتاز قائد کے مقام سے اُتار کر ایک بلدیہ نما اتھارٹی کی سربراہی کے انچارج کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ جس کا اصل کام حماس کو روکنا ہوگا۔ اسرائیل کی فوج اور پولیس کا درد سر یاسر عرفات کی فلسطینی اتھارٹی کے سر منتقل کیا گیا تھا۔ یاسر عرفات نے اس رول سے ہر ممکن طور پر خود کو بچائے رکھا اور یہی وجہ ہے کہ ایک بار ان کا ہیڈ کوارٹر راملہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں کھنڈرات کا ڈھیر بن گیا۔ یاسر عرفات فلسطینی اتھارٹی کے حکمران سے زیادہ راملہ کے کمپائونڈ کے قیدی بن چکے تھے۔ یوں اوسلو معاہدہ بھی ناکامی کا اشتہار بن گیا۔

دہائیوں بعد غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور اس ملبے پر ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں سے اسرائیل کے لیے ہمیشہ سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہی چلتے رہیں اور بھلے سے فلسطینی لْو کے تھپیڑوں کی زد میں جھلستے رہیں۔ اب غزہ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک نئے کردار کی تلاش ہے یہ کردار وہ کام کرے گا جسے یاسر عرفات نے ادا کرنے سے خاموش انکار کرکے اس کی قیمت بھی چکائی تھی۔ اب دنیا کو ’’حماس فری غزہ‘‘ کا خاکہ دکھایا جا رہا ہے جس میں رنگ بھرنا ان ملکوں کی ذمے داری ٹھیری ہے جن کا مقصد ومدعا اسرائیل کو جڑ سے اکھاڑنا تھا۔ کئی ملکوں پر مشتمل اسٹیبلائزیشن فورس کے قیام کی تیاریاں ہیں جس کی قیادت برطانیہ کے سابق مشہور زمانہ وزیر اعظم ٹونی بلیر کررہے ہیں۔ ٹونی بلیر وہی ذات ِ شریف ہیں جنہوں نے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی امریکی افسانہ طرازی کی ڈرامائی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یوں انہوں نے عراق میں ابوغریب جیسی داستانیں رقم کرنے میں عالمی سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ لندن کی سڑکوں پر لاکھوں افراد کے جلوس میں برطانیہ کے سفید فام صاحبان ِ ضمیر بلیر کے صدر بش کے ساتھ تعلق کو کس نام سے یاد کرتے تھے یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ انہی ٹونی بلیر کی قیادت میں انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس کے بہت سے کاموں میں ایک اہم کام حماس کو غیر مسلح کرنا بتایا جا رہا ہے۔ گویاکہ اسرائیل کا تحفظ اب اسرائیل کی تنہا ذمے داری نہیں رہی بلکہ اب مسلمان اور غیر مسلم سبھی ملک اس کام میں شریک ہو گئے ہیں۔ وہ محافظین بھی صرف وہی ہوں گے جو اسرائیل کے این او سی کے بعد مقرر ہوں گے۔ اسرائیل جن ملکوں پر اعتماد کا اظہار کرے گا وہی اسٹیبلائزیشن فورس کا حصہ ہوں گے اب دیکھتے ہیں کہ یہ رتبہ ٔ بلند مسلم دنیا میں کس کے حصے میں آتا ہے؟

اس فورس کی تشکیل کی بنیاد بننے والے معاہدے پر اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطین فرانسسکا البانیز کا کہنا ہے کہ غزہ امن منصوبہ ان کی زندگی کی بدترین توہین ہے یہ منصوبہ قانونی حیثیت رکھتا ہے نہ اخلاقی جواز۔ فرانسسکا البانیز نے برطانوی اخبار آئی پیز کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ انہیں اس موجودہ سیاسی عمل پر کوئی اعتماد نہیں۔ بین الاقوامی قانون کی پامالی پر کوئی معاہدہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے ان لوگوں پر بھی اعتماد نہیں جو اس عمل کی قیادت کر رہے ہیں۔ اسرائیل ہمیشہ سے غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنا چاہتا تھا موجودہ معاہدے کو جنگ بندی کہنا گمراہ کن ہے کیونکہ غزہ میں جو ہور ہا ہے وہ دو ریاستوں یا دوفوجوں کے درمیان جنگ نہیں بلکہ ایک قابض طاقت کی طرف سے مظلوم اور محصور عوام پر مسلسل جارحیت ہے۔ یہ سب نوآبادیاتی نظام کا تسلسل ہے جو جبر نسل پرستی اور استحصال پر قائم ہے۔ ایک عالمی نمائندے کے اس تبصرے کے بعد اسٹیبلائزیشن فورس کو محافظ بیت المقدس، سعادت، شرف جیسی اصطلاحات کا جامہ پہنانا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا اور خود کو اور خلق کو فریب تو دیا جاسکتا ہے مگر خدا تو ہر حرکت ارادے اور نیت سے باخبر ہے۔

عارف بہار

متعلقہ مضامین

  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • انتہا پسند یہودیوں کے ظلم سے جانور بھی غیرمحفوظ
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • پاکستان کا ترقی کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا لازمی ہے؟ پروفیسر شاہدہ وزارت کا انٹرویو
  • ٹونی بلیر بیت المقدس کا محافظ؟
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟
  • امریکا میں الو بڑھ گئے، محکمہ داخلہ کا سخت کارروائی کا فیصلہ
  • کریملن کا جوہری تجربات سے انکار، امریکی تجربات کی بحالی پر مناسب جواب دیا جائے گا، روس