اسرائیل سے کیسے نمٹا جائے!
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
مشرق وسطیٰ میں کاش کہ برطانیہ نے یہودیوں کو سر چھپانے کی جگہ فراہم نہ کی ہوتی تو آج جو المناک دہشت ناک اور خون آلودہ حالات فلسطین میں روز ہی رونما ہو رہے ہیں وہ نہ ہوتے مگر شاید یہ برطانیہ کی مجبوری تھی کہ اسے بے وطن اور پریشان حال یہودیوں کی مشکلات کو دور کرنے اور انھیں آباد ہونے کے لیے اپنی مفتوحہ سرزمین فلسطین کا ایک قطعہ فراہم کرنا پڑا۔
دنیا جانتی ہے کہ برطانیہ کو اس کے بدلے میں یہودیوں نے ان کے سب سے بڑے دشمن ہٹلر کو ہرانے کے لیے جاسوسی کا گھناؤنا جال پھیلایا تھا پھر اس کی پاداش میں یہودیوں کو اپنی نسل کشی جیسی آفت سے گزرنا پڑا تھا۔ شاید ہٹلر سے زیادہ یہودیوں کی نفسیات سے کوئی واقف نہیں تھا اس نے ان کی غداری کے صلے میں انھیں چن چن کر ہلاک کیا تھا۔ اس نے انھیں ہلاک کرنے کے لیے گولیوں کا استعمال نہیں کیا بلکہ بڑے بڑے گڑھے کھدوا کر ان میں یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو ڈال دیا جاتا اور اوپر سے مٹی برابر کر دی جاتی۔ یہودیوں کے اس قتل عام کو ہولوکاسٹ کا نام دیا جاتا ہے۔
آخر ہٹلر نے چند بڑے رہنماؤں کے بجائے جرمنی میں آباد تمام یہودیوں کو درگور کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ وجہ یہ تھی کہ یہودی جرمنی کے شہری ہوتے ہوئے جرمنی سے غداری کے مرتکب ہوئے تھے۔ وہ جرمنی کے دشمنوں کو جو برطانیہ، فرانس، امریکا و دیگر ممالک تھے انھیں عین دوسری جنگ عظیم کے وقت جرمنی کی خفیہ خبریں پہنچا رہے تھے۔ اس طرح وہ جرمنی کو مشکلات کا شکار کر رہے تھے۔ مگر اب کیا یہودی ہولوکاسٹ کا بدلہ فلسطینیوں سے لے رہے ہیں تو فلسطینیوں نے تو یہودیوں پر کوئی ظلم نہیں ڈھایا اور نہ ہی وہ یہودیوں کے خلاف کسی سازش میں شامل رہے ہیں پھر ان کی آج کل نسل کشی کرکے وہ انھیں کس جرم کی سزا دے رہے ہیں۔
اسرائیل نے فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی ہے۔ اب تک اسی ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ سے اوپر زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں کا کوئی نہ کوئی فرد نیتن یاہو کی درندگی کا شکار نہ بنا ہو۔ مسلسل بمباری سے بے شمار گھر تباہ ہو چکے ہیں۔
ایک طرف بھیانک بمباری سے غزہ کی آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو دوسری جانب غذائی قلت پیدا کرکے فلسطینیوں کو دانستہ طور پر موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ پڑوسی ممالک اور انسانی خدمت کے اداروں کی طرف سے بھیجی جانے والی غذا کی ترسیل میں جان بوجھ کر رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ بمباری کے وقفوں کے دوران جو ناکافی غذا بھی فلسطینیوں تک پہنچ رہی ہے اس کی تقسیم کے مقام پر پہنچنے والے فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری کی جا رہی ہے چنانچہ غذا کے بجائے انھیں موت مل رہی ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ وہاں موجود صحافیوں اور اقوام متحدہ کے امدادی اہلکاروں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ بھی فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کی درخواست کر رہی ہے مگر اس کی بھی کوئی نہیں سن رہا۔ امریکا جو حقوق انسانی کا چیمپئن خود کو کہتا ہے اس نے بھی چپ سادھ رکھی ہے یورپی ممالک اگرچہ اس قتل عام پر ناراض ہیں مگر یہ شاید دکھاوا ہی ہے۔ فلسطینی مسئلے کا واحد دیرپا حل فلسطینی ریاست کا قیام ہے مگر اس حل تک پہنچنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے کیونکہ اسرائیل اس کے خلاف ہے اور وہ شاید ہی آزاد فلسطینی ریاست کو قائم ہونے دے۔ امریکی صدر ٹرمپ کا یہ حال ہے کہ وہ کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ فلسطینی غزہ کا علاقہ خالی کر دیں بس یہی تو نیتن یاہو بھی چاہتا ہے تاکہ وہ اسرائیل کی سرحدوں کو آگے وسعت دے سکے۔
فلسطینی بھی امریکی اور اسرائیلی سازش سے باخبر معلوم ہوتے ہیں جب ہی انھوں نے غزہ کو خالی کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ مر تو سکتے ہیں مگر اپنی جگہ نہیں چھوڑ سکتے۔ یہودیوں کے ظلم و ستم کوئی نئے نہیں ہیں وہ تو ماضی میں اپنے پیغمبروں کو بھی شہید کرتے رہے ہیں۔ وہ دولت کی لالچ میں کسی بھی برے کام کو کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ انسان کش قوم ہے۔
یہ اپنے مفاد کے حصول کے لیے کسی بھی انسان کش کام کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ انسانوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکت کا سبب بننے والا ایٹم بم بھی انھی کی ایجاد ہے۔ انھوں نے ہی امریکا اور برطانیہ کو ایٹمی قوت بنایا ہے اور امریکا نے ان کے ہی بنائے ہوئے ایٹم بموں سے ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملے کرکے ان شہروں کے لاکھوں شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
امریکا اور برطانیہ آج بھی یہودیوں کے سب سے بڑے طرف دار ہیں اور ان کی دنیا میں واحد ریاست اسرائیل کے نگہبان ہیں۔ یہ تو حقیقت ہے کہ ایٹم بم کو ایجاد کرنے والا آئین اسٹائن تھا جو یہودی تھا اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کے پہلے ایٹم بم کا بلیو پرنٹ 1940 میں برمنگھم برطانیہ میں دو یہودیوں نے تیار کیا تھا۔ انھوں نے ہی برطانیہ کو خبر دی تھی کہ ایک ایٹم بم ایک پورے شہر کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں جب جرمنی اور جاپان اتحادی افواج پر بھاری پڑ رہے تھے تو ایسے میں امریکا ان دونوں ممالک کو ایک بڑا سبق سکھانا چاہتا تھا کیوں کہ جس رفتار سے اس وقت جنگ چل رہی تھی اس سے امریکا نہ سہی مگر برطانیہ ضرور تباہی کے دہانے پر تھا۔ ایسے میں برطانیہ نے یہودی سائنس دانوں کا ایٹم بم کا بلیو پرنٹ امریکا کو مہیا کر دیا۔ امریکا میں اسی بلیو پرنٹ کے تحت وہاں موجود یہودی سائنس دانوں نے ایٹم بم تیار کیے اور پھر امریکا نے انھیں جاپان کے خلاف استعمال کر ڈالا۔ امریکا نے ایک نہیں دو ایٹم بم جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے۔ ان سے وہاں کے لاکھوں شہری موت کی نیند سو گئے اور درجنوں ہی شہر تباہ و برباد ہو کر کھنڈر بن گئے۔
امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرانے کی غلطی کی تھی مگر اس میں برطانیہ کا بھی عمل دخل شامل تھا۔ اسی طرح عربوں کی سرزمین پر یہودیوں کو بسانے میں امریکا ضرور پیش پیش تھا مگر یہودیوں کو آباد کرنے کے لیے برطانیہ نے اپنی مفتوحہ فلسطین کی سرزمین مہیا کی تھی جو اس نے سلطنت عثمانیہ کو پہلی جنگ عظیم میں شکست دے کر حاصل کی تھی۔ آج امریکا اور برطانیہ کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل کی ہمت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ جمانے کا پلان بنا چکا ہے۔
فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم و ستم کو روکنے کے لیے امریکا اور برطانیہ سے کوئی امید لگانا عبث ہے اب تمام مسلم ممالک کو اسرائیل کو سبق سکھانے کے لیے اپنی مصلحتوں سے باہر نکل کر عملی اقدام اٹھانا ہوں گے۔ جس طرح گزشتہ دنوں ایران اسرائیل کو جارحیت کا مزہ چکھا چکا ہے جس سے اسرائیل کی کمزوری سامنے آ چکی ہے، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اگر مسلم ممالک اسرائیل کو مجبور کرنے کے لیے اس پر حملہ نہیں کرسکتے تو کم سے کم تمام سفارتی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات ہی منقطع کر لیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکا اور برطانیہ کرنے کے لیے یہودیوں کے یہودیوں کو امریکا نے ہے کہ وہ چکے ہیں رہے ہیں ایٹم بم رہی ہے
پڑھیں:
معاملات بہتر کیسے ہونگے؟
دنیا کا کاروبارِ زندگی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کرہ ارض‘ حقیقت کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ عرض کرنے کا مدعا ہے کہ یہ تمام دنیا Physical laws پر مبنی ہے۔ عمل اور رد عمل کا قانون ہر طریقہ سے لاگو ہے۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور سائنسی انقلاب کے بعد‘ دنیا میں پہلی مرتبہ Nation Statesکی شروعات ہوئیں۔ اس سے قبل مملکتیں ‘ کسی بھی مخصوص سرحد کے بغیر چل رہی تھیں اور آنے جانے کے معاملات یکسر مختلف تھے۔
ویزہ یا پاسپورٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ فرانس ‘ جرمنی اور یوکے کے چند فلسفیوں کی سوچ نے دنیا کی تشکیل نو کر دی۔ بدقسمتی سے‘ اس جوہری تبدیلی میں مسلمانوں کا کسی قسم کا حصہ نہیں تھا۔ ویسے یہ المیہ‘ صدیاں گزرنے کے باوجود‘ آج بھی اپنی ہیئت میں بالکل قائم ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کی دنیا میں‘ مسلمان‘ بالکل اجنبی سے تھے۔ فکری طور پر متحد اور ترقی کرنے کے لیے‘ کسی قسم کا کوئی سہارا موجود نہیں تھا۔ جدید تعلیم اور سائنس سے ویسے ہی ہمیں کوئی غرض نہیں تھی۔
اس جھول کا فائدہ‘ سب سے زیادہ ہمارے مذہبی طبقے نے اٹھایا۔ برصغیر کی حد تک معاملات کو دیکھیے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ عام لوگوں سے کوئی سنجیدہ انتقامی بدلہ لے رہے ہیں۔ جدید علوم کوحرام قرار دے دیا گیا۔انگریزی تعلیم کو کافر کی زبان بتایا گیا۔ ضعیف العتقادی اور جہالت کو اوڑھنا بچھونا بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مجموعی طور پر مسلمان اور بالخصوص برصغیرکے مسلمان ‘ سائنسی انقلاب اور جدت پسندی سے دور ہوتے گئے۔ اور ایک مخصوص دائرہ میں زندگی گزارنے لگے۔ باورکروایا گیا کہ ہمارا دین خطرے میں ہے۔
دنیا ہمارے خلاف ہے۔ لہٰذا ہر قسم کی تبدیلی لانے والی سوچ کفر کے نزدیک لے جاتی ہے۔ یہ بیانیہ‘ ہمارے ڈی این اے کا حصہ بنا دیا گیا۔ مغرب کی اعلیٰ ترین درس گاہوں سے تعلیم یافتہ‘ چند بلند پایہ لوگ‘ اس معاملہ کو بھانپ گئے اور ان کی حد درجہ محنت بلکہ ریاضت کی بدولت‘ پاکستان وجود میں آیا۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کے حصول اور ہمارے سیاسی اکابرین کے خلاف ‘ سب سے مہلک محاذ‘ مذہبی طبقے نے ہی قائم کیا۔ آپ ہمارے کسی لیڈر کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیجیے۔ مذہبی طبقے نے ان کی ذاتی زندگی سے لے کر سیاسی سوچ‘ سب میں کیڑے نکالے۔ انھیں ملحد‘کافر اور مسلمانوں کا دشمن قرار دیا گیا۔ سرسید احمد خان‘ علامہ اقبال اور قائداعظم سب تختہ مشق بنے۔
پاکستان تو بن گیا مگر وہ لبرل سوچ‘ جس کا ذکر بار بار اس ملک کو بنانے والوں نے کیا تھا اسے پنپنے نہیں دیا گیا۔ کمال یہ ہے کہ ان مذہبی جماعتوں کے قائدین‘ جو پاکستان بنانے کے خلاف تھے، نیا ملک بنتے ہی‘ بڑے اطمینان سے ہندوستان چھوڑ کر نئے ملک میں بس گئے۔ یہاں آ کر انھوں نے ماضی کا چلن نہیں بدلا۔ فرقہ پرستی‘ جذباتیت ‘ حقیقت پسندی سے اجتناب اور بے یقینی کی فضا کو اتنی ہوا دی کہ بحیثیت قوم‘ ہمیں پختہ یقین ہو گیا کہ ہمارے خلاف ایک بین الاقوامی سازش ہو رہی ہے۔
پوری قوم کی فطرت میں یہ نکتہ منجمد کر دیا گیا کہ ہمارے بچنے کا بھی ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم قدامت پسندی کو اپنا وطیرہ بنا لیں۔ ملکی سیاست دان اتنی سنجیدہ سوچ کے مالک تھے ہی نہیں کہ اس باریک عمل کو سمجھ پاتے جس کو عقیدت کا لبادہ بھی پہنا دیا گیا ۔ پاکستان میں ایک ایسا عمل پیہم ہوا جو پوری دنیا میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ریاستی اداروں نے چند مذہبی حلقوں کو ساتھ ملا کر‘ عام لوگوں کی مزید منفی ذہن سازی کر ڈالی اور اس چلن سے اقتدار پر دائم قبضہ کر لیا۔ جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک مسلسل جاری ہے۔ اس کا ادراک ہمارے ملک میں بہت کم لوگوں کو ہے۔
یہ معاملہ عام آدمی کو اس طرح معلوم پڑا جس مذہبی طبقہ کو ہم نے ریاست کی سوچ کے مطابق‘ کشت و خون کرنے کے لیے استعمال کیا تھا،وہ اپنا بنیادی کام کرنے کے بعد ہمارے ملک پر ہی پل پڑے۔ دہشت گردی کا جن‘ پاکستان کے ہر کونے میں برہنہ ہو کر رقص کرنے لگا۔ جب یہ سمجھ آئی کہ ریاست کا اپنا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے۔تو دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی گئی جو آج بھی جاری وساری ہے۔ مگر اسی اثناء میں ‘ بین الاقوامی صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ نے مسلمان دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ حماس‘ جو کہ الفتح کے مقابلہ میں اسرائیل ہی کے چند اداروں نے کھڑی کی تھی۔
جس کے متعلق مسلسل لکھتا چلا آ رہا ہوں کہ ان کا غزہ کو برباد کرنے میں کلیدی کردار ہے۔ اس نے اسرائیل کے شہریوں پر حملہ کر کے اس ملک کو وہ جواز مہیا کیا‘ جو یکسر‘ ان کے حق میں تھا۔ ذرا سوچئے کہ حماس کے بے ربط حملوں سے غزہ کو کتنی بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ پورا شہر‘ مٹی اور لاشوں کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ حماس کے اس ناپختہ قدم سے غزہ کو حد درجہ نقصان پہنچا۔ مگر ہمارے جیسے ملک میں‘ اس باریک نقطہ پر بات کرنے کو مشکل تر بنا دیا گیا۔ بلکہ یہاں اس معاملہ پر کھل کر غیر متعصب سوال کرنے کو ہی پیچیدہ تر بنا ڈالا گیا۔ اب ہوا کیا۔
ہمارا ملک‘ ایک تو دہشت گردوں کے نرغہ میںسانس لینے پر مجبور ہو گیا اور دوسرا ہم حماس اور اسرائیل کی جنگ میں ایک ایسے فریق کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگے جن کا قصور بھی زیادہ تھا اور وہ اپنے ہی مسلمان شہریوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے تھے۔ ہمیں ذہنی دھچکا اس وقت لگا جب ہمارے سب سے قریبی دوست مسلم ممالک نے ‘ اسرائیل کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ فلسطین کے مسئلہ سے مونہہ پھیر چکے تھے۔
وہ سمجھ چکے تھے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے زمینی حقائق کے مطابق قدم اٹھانے پڑیں گے۔متحدہ عرب امارات اور متعدد‘ مشرق وسطیٰ کے ممالک‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے لگے۔ دنیا کی واحد سوپر پاور نے Abrahamic Accords کاڈول ڈالا ۔ اور پھر معاملات جوہری طور پر تبدیل ہو گئے۔ امریکا کے موجودہ صدر‘ اسرائیل کے حد درجہ ثابت قدم دوست ثابت ہوئے۔
پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا سب سے زیادہ فائدہ ہندوستان نے اٹھایا اور وہ اسرائیل کے ساتھ مثالی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پاکستان اور ہندوستان کی باہمی حالیہ جنگ میں اسرائیلی ماہرین‘ ہندوستان میں موجود تھے اور انھوں نے اپنے ڈرون ‘ ہمارے ہر علاقے میں کامیابی سے بھجوائے ۔ ریاستی ادارے‘ موجودہ حالات کو بھانپ چکے ہیں۔ انھوںنے اپنا طرز عمل‘ ایک سو اسی ڈگری کے زاویہ سے تبدیل کر لیا ہے۔ ابراہیمک معاہدے کا کیا کرنا ہے؟ دشت گردی کے ناسور کو کیسے جسم سے کاٹنا ہے؟ ملک کے اندر جاری و ساری شدت پسندی کو کس طرح اعتدال پر لے کر آنا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
دلیل کی بنیاد پر عرض کرتا چلوں کہ ملک کے وجود کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ مگر جو سوچ ہم نے خود پروان چڑھائی تھی‘ اس کو تبدیل کیسے کرنا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں‘ ایک مذہبی جماعت کے جلوس کے ساتھ ‘ جو سلوک روا رکھا گیا اس سے یہ عنصر عیاں ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے‘ اب مذہبی شدت پسندی سے اپنے آپ کو دور کر رہے ہیں۔ سیاست دان‘ اتنے کمزور ہیں کہ وہ معاملات کو صرف ریاستی اداروں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ بلکہ ان کے اندر خوف بھی ہے کہ کہیں تشدد پسند حلقے ‘ ان کا وجود ہی ختم نہ کر دیں۔ یہ خدشہ بہرحال موجود ضرور ہے۔
موجودہ صوت حال نازک ضرور ہے‘ مگر ان تمام معاملات کا حل موجود ہے۔ دفاعی ادارے بالکل درست سمت میں کام کر رہے ہیں۔ مگر ان کے مثبت اقدامات کو موجودہ سیاسی ڈھانچہ کی معاونت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے پاؤں نمک کے ہیں اور وہ مسائل کے پانی میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ حل کیا ہے؟ کیا ہونا چاہیے ؟ یہ مسئلہ بھی ہے کہ صرف طاقت کے بل بوتے پر حتمی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ موجودہ سیاسی نظام ‘ مسائل کو بڑھا تو سکتا ہے کم نہیں کر سکتا۔ اور پھر یہ موجودہ لوگ اتنے کائیاں ہیں کہ اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے‘ دفاعی اداروں کو عوام کے ساتھ متصادم راہ پر دھکیلنا چاہتے ہیں۔
دانشمندی یہی ہے کہ اندرونی سیاسی خلفشار کو ختم کیا جائے۔ جس سیاست دان کو عوامی پذیرائی حاصل ہو‘ اسے ‘ نظام کا حصہ بنایا جائے۔ پھر بغیر کسی تردد کے اپنے ملک کے قومی مفاد میں انقلابی اور دور رس فیصلے کیے جائیں‘ جن سے ہمارے ملک کے دشمنوں کی تعداد میں کمی ہو سکے۔حکمت یہی ہے کہ سب فریقین کو اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ اس خطرناک شدت پسند سوچ کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں‘ جو ہمارے ملک کو یرغمال بنا چکی ہے۔ یہ وقت‘ کسی انتقام کا نہیں‘ بلکہ دانش مندی اور حکیمانہ فیصلوں کا ہے! مگر اس وقت تو مجھے سنجیدہ سوچ کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ دیکھیے ۔ آگے معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟