سرائے مغل اور بند بوسن میں سیلابی صورتحال برقرار، فصلیں تباہ، دیہات زیرِ آب، وبائی امراض کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
دریائے راوی کے ہیڈ بلوکی پر پانی کی سطح میں کمی کا سلسلہ جاری ہے تاہم درمیانے درجے کا سیلاب تاحال برقرار ہے۔
محکمہ انہار کے مطابق پانی کی آمد 80,035 کیوسک جبکہ اخراج 72,035 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
سیلابی پانی نے سرائے مغل کے نواحی دیہات دلو ملتانی، ججہ کلاں، گروکے، اور کالو کھوکھر کو شدید متاثر کیا ہے۔
ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی زیرِ آب آ چکی ہے جس سے فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔ خاص طور پر اروی، مکئی اور تلی کی فصلوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ فصلوں کی تباہی کے باعث جانوروں کا چارہ ناپید ہو چکا ہے اور مویشی کئی دنوں سے بھوکے ہیں، جس کے باعث علاقہ مکین شدید پریشانی اور معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔
متعدد دیہات میں راشن ختم ہو چکا ہے اور مقامی افراد نے شکایت کی ہے کہ تاحال حکومت یا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کی امداد فراہم نہیں کی گئی۔
گورنمنٹ اسکولوں میں قائم ریلیف کیمپوں تک انتظامیہ محدود ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں صرف ریسکیو اہلکار اور پولیس نظر آ رہی ہے۔
سیلابی ریلوں نے بند بوسن میں درجنوں مکانات ملیامیٹ کر دیے ہیں، جہاں اب بھی پانی کی سست رفتار بہاؤ جاری ہے۔
مقامی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پانی کھڑا رہنے کے باعث وبائی امراض کے پھیلنے کا شدید خطرہ موجود ہے، خاص طور پر بچوں اور بزرگوں میں جلدی بیماریوں، اسہال اور ملیریا کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ڈہرکی،سیلابی صورتحال خطرناک صورت اختیار کرگیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ڈہرکی(نمائندہ جسارت)سیلابی شدت خطرناک صورتحال اختیار کر گئی،قادر پور کچے کے علاقے میں موجود گیس کے کنوؤں میں پانی داخل ہو گیا ہے۔ اور کنوؤں کی حفاظتی پلیٹس بھی بہہ کر سیلابی پانی کی نظر ہو گئیں ہیں۔ گیس کی پیداوار دینے والے 10 کنویں شدید متاثر ہوئے ہیں۔ سید قمر علی شاہ ریجنل کو آرڈینیٹر او جی ڈی سی ایل سکھر۔تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں گھوٹکی کے مقام پر اونچے درجے کے سیلاب ریلے کا شدت بھرا دباؤ برقرار۔ضلع گھوٹکی سے گزرنے والے دریائے سندھ کو ٹچ کرنے والے کچے کے بیشتر دیہاتوں کے زیر آب آنے کے ساتھ ساتھ سیلابی پانی آس پاس موجود او،جی،ڈی،سی،ایل کمپنی کے کچے کے علاقے بلاک 6 میں واقع گیس کے کنوؤں کے ای آر ڈبلیو سسٹم کے پلیٹ فارم میں بھی داخل ہو گیا ہے۔سیلابی کی شدت بھرے کٹائو کی وجہ سے کنوؤں کے باہر لگائی گئیں حفاظتی پلیٹس بھی بہہ کر سیلابی پانی کی نظر ہو گئیں ہیں۔جس کی وجہ سے سیلابی پانی کا ان کنوؤں میں داخل ہونے سے گیس کی پیداوار دینے والے 10 کنویں شدید متاثر ہوئے ہیں۔ اور سیلابی پانی متاثر ہونے والے ان کنوؤں سے گیس کی پیدوار دو دنوں سے بند کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے گیس کی یومیہ پیداوار میں نمایاں کمی بھی واقع ہو گئی ہے۔ اور سیلابی پانی کے جاری خطرناک کٹاؤ اور پانی کی شدت کی وجہ سے متاثرہ کنوؤں پر مرمتی کام فی الحال شروع نہیں کیا جا سکا ہے۔اور یہ کہ جب تک سیلابی صورتحال ختم اور پانی اتر نہی جاتا تب تک ان متاثرہ کنوؤں کی بحالی نہیں ہو سکتی ہے۔سید قمر علی شاہ ریجنل کو آرڈینیٹر او جی ڈی سی ایل سکھر۔ انہوں نے مذید کہا کہ اس بار دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب کے رخ بدلنے سے او،جی،ڈی،سی،ایل قادرپور کے کنویں متاثر ہوئے ہیں۔ادھر معلوم ہوا ہے کہ سیلابی پانی کے داخل ہونے کی وجہ سے متاثر ہونے والے گیس کے کنوؤں سے پیدوار کے بند ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں موجود میٹریل کا بھی کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ذرائع واضح رہے کہ قادر پور گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں قادرپور گیس فیلڈ کے گیس کے متعدد گیس کی پیداوار دینے والے کنویں موجود ہیں۔تاہم گیس کمپنی کے نمائندے نے مزید کہا ہے کہ اب کی بار دریائے سندھ میں آنے والے خطرناک سیلابی ریلے کے معمول سے ہٹ کر اپنے رخ تبدیل کرنے سے ہمیں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری ٹیمیں کام کررہی ہیں، تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے۔ اور اب ان متاثرہ گیس کے کنوؤں پرسیلابی پانی اترنے کے بعد ان کنوؤں کے پلیٹ فارم کا مرمتی کام شروع ہو سکے گا۔