ڈی آئی خان: عدلیہ کا تاریخی فیصلہ، لاوارث نومولود تعلیم یافتہ بے اولاد جوڑے کے سپرد
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
ڈیرہ اسماعیل خان:۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں عدلیہ کی تاریخ کا ایک منفرد اور تاریخی فیصلہ سامنے آیا ہے، جہاں عدالت نے ڈسٹرکٹ زنانہ اسپتال کے لیبر روم میں چھوڑے گئے ایک لاوارث نومولود بچے کو اسلام آباد میں رہائش پذیر بے اولاد، تعلیم یافتہ اور متمول جوڑے کے حوالے کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق 18 اگست 2025 کو ایک نامعلوم شخص ڈسٹرکٹ زنانہ اسپتال ڈیرہ کے لیبر روم میں نومولود بچہ چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ اسپتال عملے نے فوری طور پر سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کو اطلاع دی، جس نے معاملہ عدالت کے سپرد کرنے کی ہدایت دی۔ بعدازاں لیبر روم کی انچارج آسیہ نورین کی درخواست پر عدالت نے بچے کی عارضی حوالگی انہیں دے دی تھی۔
ایڈیشنل جج محمد ایاز خان کی عدالت میں جب بچے کی مستقل حوالگی کا کیس پیش ہوا تو مجموعی طور پر 13 درخواستیں سامنے آئیں۔ تمام درخواستوں پر غور و خوض کے بعد عدالت نے نومولود کے بہتر مستقبل اور نگہداشت کے پیشِ نظر اسلام آباد کے رہائشی جوڑے، حسن عدنان احمد (اٹارنی سپریم کورٹ) اور ان کی اہلیہ نوشین محسود، کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔
جوڑے کو بچے کی سپردگی دس لاکھ روپے کے شیورٹی بانڈ کے عوض دی گئی۔ فیصلے کے موقع پر عدالت میں خوشی کا سماں تھا۔ ایڈیشنل جج محمد ایاز خان نے خود نومولود کو گود میں لے کر بوسہ دیا اور اپنے ہاتھوں سے جوڑے کے حوالے کیا۔
بچے کی حوالگی پر جوڑا بے حد جذباتی ہوگیا اور عدالت کے اس تاریخی فیصلے پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے لیے زندگی کا سب سے قیمتی لمحہ ہے۔ سماجی حلقوں اور کمیونٹی نے عدالت کے اس فیصلے کو بے حد سراہا اور کہا کہ یہ اقدام نہ صرف بچے کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہے بلکہ معاشرے میں مثبت پیغام بھی ہے۔ اس موقع پر وکلاء، سوشل ویلفیئر افسران اور ہسپتال کے عملے کی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ عدالت کے باہر میٹھائی بھی تقسیم کی گئی۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کیا جائے، استنبول اعلامیہ
استنبول (ویب دیسک )غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کیا جائے، استنبول اجلاس کا اعلامیہ
غزہ کی تازہ صورتِ حال پر استنبول میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس کے بعد 7 مسلم ممالک نے مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا۔
اعلامیہ میں زور دیا گیا ہے کہ غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے ہاتھ میں دیا جائے، اسرائیل فوری طور پر جنگ بندی کی مکمل پاسداری کرے اور انسانی امداد کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کی جائیں۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور قومی نمائندگی کو تسلیم کیے بغیر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔
شریک ممالک نے اس مؤقف پر اتفاق کیا کہ بین الاقوامی استحکام فورس کے قیام پر غور کیا جائے گا تاکہ جنگ بندی کی نگرانی اور انسانی امداد کی فراہمی مؤثر بنائی جا سکے۔
اعلامیے کی نمایاں شقیں
1. غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کرنے پر مکمل اتفاق۔
اجلاس میں شریک تمام ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ کا سیاسی و انتظامی نظم کسی بیرونی قوت کے بجائے مقامی فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہونا چاہیے۔
2. جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر تشویش۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے جنگ بندی کے بعد بھی حملے جاری ہیں جن میں اب تک تقریباً 250 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
3. انسانی امداد کی فراہمی کی فوری ضرورت۔
شریک ممالک نے مطالبہ کیا کہ کم از کم 600 امدادی ٹرک اور 50 ایندھن بردار گاڑیاں غزہ میں بلا تعطل داخل کی جائیں۔
4. بین الاقوامی استحکام فورس پر مشاورت۔
اعلامیے میں تجویز دی گئی کہ غزہ میں ایک غیرجانب دار فورس تشکیل دی جائے جو امن کی نگرانی اور انسانی امداد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
5. فلسطینی انتظامیہ کی اصلاحی کوششوں کی حمایت۔
شریک ممالک نے فلسطینی قیادت کے اصلاحی اقدامات اور عرب لیگ و اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے منصوبوں کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔
یہ اہم اجلاس ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حقان فیدان کی میزبانی میں استنبول کے ایک معروف ہوٹل میں منعقد ہوا، جس میں انڈونیشیا، پاکستان، سعودی عرب، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ یا نمائندوں نے شرکت کی۔
اجلاس کے دوران جنگ بندی کی تازہ صورتِ حال، انسانی بحران، اور آئندہ سفارتی اقدامات پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ترکیہ کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اسرائیل جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اعلانِ جنگ بندی کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں تقریباً 250 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ ہم امن کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں، مگر اسرائیل کی جارحانہ کارروائیاں عالمی ضمیر کے لیے چیلنج ہیں۔
فیدان نے کہا کہ ترکیہ نے اپنے تمام علاقائی شراکت داروں سے رابطے بڑھا دیے ہیں تاکہ جنگ بندی کو پائیدار امن میں تبدیل کیا جا سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ اگر انسانی امداد کی راہیں نہ کھلیں تو غزہ میں انسانی المیہ ناقابلِ برداشت ہو جائے گا۔