WE News:
2025-11-02@18:40:04 GMT

بڑا جی ڈی پی، چھوٹی اوقات

اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT

صدیوں میں ایک رونما ہونے والی بڑی تبدیلی کے تناظر میں ہمارے سامنے ایک بڑا سوال کھڑا ہے۔ وہ سوال جو ہم سب سے جڑا ہے، اس بدلتی دنیا میں پاک انڈیا کشمکش کیا رخ اختیار کرے گی؟ یا یہ کہ یہ تبدیلی پاک انڈیا تنازع پر کیا اثر ڈالے گی؟ خوش قسمتی سے داخلی طور پر غیر مستحکم سا پاکستان خارجہ محاذ پر ہمیشہ بہت مستحکم رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی وقتی طور پر مضر نظر آنے والی بعض پالیسیاں بھی کچھ مدت بعد درست ثابت ہوئی ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں مگر سردست ہم اصل موضوع پر ہی فوکسڈ رہیں گے۔

آپ چین کے حوالے سے پاکستان کی 75 سالہ پالیسی دیکھیے۔ ماؤ انقلاب کامیاب ہوا اور جدید چین کا خواب حقیقت بنا تو پاکستان پہلا ملک تھا جس نے اسے تسلیم کیا، اور پی آئی اے پہلی انٹرنیشنل ایئرلائن تھی جس کی پرواز بیجنگ میں لینڈ ہوئی۔ نو آزاد چین کے ساتھ پاکستان اور انڈیا دونوں کا سرحدی معاملہ اٹھا۔ ہمارے حصے میں چین کے ساتھ جو سرحد آئی تھی اس پر کچھ ابہام تھا۔ جبکہ انڈیا کا چین کے ساتھ جو سرحدی معاملہ تھا اس میں چینی مؤقف کلیئر کٹ درست تھا۔ ہم نے چین کے ساتھ سرحدی معاہدہ کرکے مسئلہ بغیر کسی کھینچا تانی کے حل کرلیا۔ اس کے لیے ہم 5180 مربع کلومیٹر کی شکسگم ویلی سے دستبردار ہوگئے۔ مگر چین سے ہونے والے معاہدے میں ایک شق ہم نے یہ بھی ڈلوا لی کہ جب بھی مسئلہ کشمیر حل ہوگا، دونوں ممالک اس مسئلے کا از سر نو جائزہ لیں گے۔ یوں چین کے ساتھ ہماری ایک باقاعدہ سرحد وجود میں آگئی۔

ظاہر ہے چین نے ہمارے قدم کو بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا، اور آنے والے ماہ و سال میں پاک چین تعلقات کی دوستانہ روح میں اس کا کردار بھی اہم ثابت ہوا۔ بات یہیں نہ رکی بلکہ ہم باہم روٹھے چین امریکا کے مابین سہولت کار بھی بن گئے۔ ہم نے دونوں کے تعلقات قائم کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں پہلے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا خفیہ دورہ بیجنگ کروایا اور اگلے مرحلے میں سال بعد امریکی صدر رچرڈ نکسن کے تاریخی دورے کی راہ ہموار کی۔ اس کے نتیجے میں امریکا اور چین کے مابین آگے چل کر جو معاہدے ہوئے ان میں سب سے اہم یہ تھا کہ امریکا چائنیز طلبہ کے لیے اپنی یونیورسٹیز کے دروازے کھولے گا۔

امریکا نے یہ معاہدہ اس خوش فہمی کے ساتھ بصد خوشی کرلیا کہ جو چینی طالب علم امریکا میں تعلیم حاصل کریں گے، وہ آگے چل کر ’چائنیز دیسی لبرلز‘ ثابت ہوں گے، اور انقلاب کا دھڑن تختہ کردیں گے۔ مگر وہ طالب علم توقع کے بالکل برخلاف اپنے ملک کے وفادار ثابت ہوئے۔ وہ تعلیم حاصل کرکے اپنے فاقہ زدہ ملک لوٹے۔ اور آج کے اس چین کے خالق بنے جو امریکا سے دنیا کا اختیار حاصل کر رہا ہے۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ یہ کارنامہ ہمارے اس حکمران نے انجام دیا جو ہماری سیاسی تاریخ کا سب سے بدنام کردار ہے، یعنی جنرل یحییٰ خان۔

اب ذرا گاندھی جی، نہرو اور مولانا آزاد کے ہندوستان کی چائنیز پالیسی کا حال بھی دیکھ لیجیے۔ برطانوی راج کے دوران گورے نے چینی سرحد کے قریب بھی بہت سی وارداتیں کر رکھی تھیں۔ جنہیں چین نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ سب سے اہم اروناچل پردیش والا معاہدہ ہی دیکھ لیجیے۔ وہ معاہدہ برٹش انڈیا نے اس تبت کے ساتھ کیا جو سرے سے ریاست ہی نہ تھا۔ اور اس کی آڑ میں چینی علاقے پر قبضہ کرلیا۔ چالیس سال بعد انقلابی چین کے مالک بنے تو انہوں نے انڈیا کے ساتھ یہ مسئلہ اور باقی دونوں سرحدی تنازعات بھی اٹھا لیے۔ کیا انڈیا نے حل کی راہ اختیار کی؟ نہیں، بلکہ اس کا رویہ اس ناجائز قابض کا رہا جو قبضہ کیا ہوا پلاٹ چھتر کھائے بغیر خالی نہیں کرتا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ 1962 کی چین انڈیا جنگ جس میں اسے اکسائی چن سے ہاتھ دھونے پڑے۔ صرف یہی نہیں بلکہ 2019/ 2020 میں انڈین فوجیوں کی ڈنڈوں سے درگت بنی، اور اب نئے عالمی لیڈر کی شکل میں ابھرتی چائنیز سپر طاقت کا سامنا ہے۔

اب ذرا یہ دیکھیے کہ پاکستان اور انڈیا نے پچھلے 75 سالوں میں چین کے ساتھ تعلقات کی اپنی جو تاریخ ترتیب دی ہے، اس کے نتائج اب ان دونوں کے لیے کیا نکلنے جا رہے ہیں۔ چینیوں کی بڑی خوبیوں سے ایک یہ ہے کہ یہ بھولتے نہیں۔ جن کی یادداشت صدیوں پر محیط ہو، ان کے لیے پچھلے 75 سال 75 منٹ سے زیادہ نہیں۔ یہ اس یادداشت کا ہی نتیجہ ہے کہ اس عظیم قوم نے اپنی ترقی کے دور میں بی آر آئی پراجیکٹ شروع کیا تو پاکستان کے لیے اس میں سی پیک کے نام سے اسپیشل حصہ رکھا۔ یعنی ہمیں وہ کچھ بھی دینے کا فیصلہ کیا جو بی آر آئی سے جڑے باقی ممالک کے لیے نہیں تھا۔

یاد کیجیے 9 برس قبل جب سی پیک کا اعلان ہوا تو یہ وہ وقت تھا جب چین ابھی عالمی اختیار کے حصول سے کئی سال دور تھا۔ ہم سب سی پیک پر بہت زیادہ خوش بھی ہوئے تھے اور ایک دوسرے کو یہ بھی بتایا تھا کہ اس کے ثمرات کیا کیا ہوں گے۔ ہم نے جو بھی ڈسکس کیا تھا وہ سی پیک کے ارد گرد ہی تھا۔ سی پیک سے آگے کچھ نہ تھا۔ اب جب چین نے عالمی اختیار کے حصول کی رسمی کارروائی شروع کردی ہے تو ہمارے لیے سی پیک سے اگلے مرحلے کا پیکج بھی تیار ہے۔ وہ پیکج جس کے سامنے سی پیک کا ہی قد گھٹ گیا ہے۔ اس اگلے پیکج کے تحت پاکستان جنوبی ایشیا کی ڈومننٹ پاور بننے جا رہا ہے۔ بالادستی کے اس دور کا دیباچہ ہم 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب لکھ چکے۔ ہم نے ثابت کردیا ہے کہ چین ہم پر پورے شرح صدر کے ساتھ بھروسہ کرسکتا ہے۔ اور چین کیا امریکا بھی زبان حال سے تسلیم کر رہا ہے کہ ہم یہ رول نبھانے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر کے ناز نخرے ایویں ہی نہیں اٹھائے جا رہے۔

جب آپ کا عالمی پروفائل بڑھتا ہے تو دنیا آپ سے پیش بھی اسی حساب سے آتی ہے۔ ہم نے تاریخ کے ہر موڑ پر امریکی مفادات پر اپنے مفادات کو ترجیح دے کر اسے ناراض تو کیا ہے، مگر اسے ہاتھ سے بھی نہیں نکلنے دیا۔ یہ کارنامہ صرف ہم نے ہی انجام دے رکھا ہے ایک ہی وقت میں امریکا اور چین دونوں سے تعلقات ہیں، اور دونوں میں سے ایک بھی ہم سے یہ نہیں کہہ رہا کہ دوسرے کو چھوڑیے۔ انڈیا سے یہ مطالبہ ہو رہا ہے کہ نہیں؟ ہم کیوں کامیاب ہیں اور انڈیا کیوں ناکام؟

کیونکہ ہم نے ثابت کر رکھا ہے کہ چین سے ہماری دوستی امریکا کے بھی مفاد میں ہے، اور امریکا سے ہمارے تعلقات چین کے بھی مفاد میں ہیں۔ یوں یہ دونوں عالمی طاقتیں ہم سے مطمئن بھی ہیں اور ان میں سے ایک بھی یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ دوسرے سے تعلق ختم کیجیے۔ کیا انڈیا کی خارجہ پالیسی میں ایسی کوئی خوبی ہے؟ ہم چین اور امریکا کے بیچ وہ مستقل کڑی ہیں جس نے آج بھی ان دونوں کو باہم مربوط رکھا ہوا ہے۔ کیا انڈیا میں یہ صلاحیت ہے؟ چین اور امریکا چھوڑیے وہ تو ایران اور اسرائیل کے بیچ بھی کڑی نہ بن سکا۔

آخری بات یہ کہ پاکستان اور انڈیا دونوں کو آج چین سے اسی سلوک کا سامنا ہے جس کے اپنے اپنے کردار کی وجہ سے یہ مستحق بنے ہیں۔ ہمیں مفت میں نہیں نوازا جا رہا۔ یہ ہماری دہائیوں پر محیط خارجہ پالیسی کے ثمرات ہیں جو اب ہمیں ملنے جا رہے ہیں۔ جبکہ انڈیا کو یہ خوش فہمی مار گئی کہ وہ مستقبل کی عالمی طاقت ہے۔ اس کی یہ خوش فہمی دور کرنے کا عمل ہم چین کی پارٹنرشپ سے شروع کرچکے۔ جلد ثابت ہوجائے گا کہ عالمی طاقت کیا، یہ تو جنوبی ایشیا سطح کی لوکل طاقت بھی نہیں۔ اور یہ اس لیے ہوگا کہ مولانا آزاد انہیں یہ بتانا بھول گئے تھے کہ محض جی ڈی پی بڑھنے سے بات نہیں بنتی، اوقات بھی بڑھانی پڑتی ہے۔ اوقات ٹکے کی ہو تو بڑا جی ڈی پی کسی کام کا نہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

wenews امریکا بھارت تعلقات امریکا پاکستان تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ عالمی طاقتیں مودی سرکار وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا بھارت تعلقات امریکا پاکستان تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ عالمی طاقتیں مودی سرکار وی نیوز چین کے ساتھ عالمی طاقت اور انڈیا میں چین اور ان سی پیک کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

پولیس رویہ۔۔ حسنین اخلاق بھی عدیل اکبر کی راہ پر؟

میری بات/روہیل اکبر

حسنین اخلاق لاہور کی صحافت کا ایک معتبر نام جو اخلاص ،محبت اور وفا کا پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ ہنس مکھ اور بے ضرر بھی ہے لیکن صحافی پورے دنوں کا ہے، وہ پولیس کے رویے سے اتنا تنگ آگیا کہ ایس پی عدیل اکبر کی طرح سوچنا شروع کردیا۔حسنین اخلاق کا قصہ انہی کی زبانی لکھوں گا لیکن پہلے ہمارے شیر جوانوں کا حال بھی پڑھ لیںجو وردی پہنتے ہی درندوں کا روپ دھار لیتے ہیں ۔پولیس والوں کے خون کا ٹیسٹ کروایا جائے تو بہت سے نشئی نکلیں گے۔ کانسٹیبل سے لیکر اوپر تک پینے اور پلانے والوں کے ساتھ ساتھ زانی بھی ملیں گے اور ڈاکوئوں کی بھی اس محکمہ میں کمی نہیں ہے۔ یوٹیوبر ڈکی بھائی کی بیوی کی درخواست پر جو مقدمہ درج ہوا ہے اس میں بہت سے پردہ نشین کھل کر سامنے آگئے اور آئے روز ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں پولیس والے خود کرتے ہوئے پکڑے جارہے ہیں ۔ابھی کل ہی کی ایک تازہ ترین واردات بھی ملاحظہ فرمائیں کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی)کا انسپکٹر تاجر کے اغوا کی واردات کا ماسٹرمائنڈ نکلا۔ انسپکٹر جاوید اقبال نے اہلکار کے ساتھ مل کرکاہنہ سے تاجر کو اغوا کیا۔ ملزمان نے مغوی کے اہل خانہ سے 40لاکھ روپے طلب کیے اور ایل او ایس کے قریب رقم وصول کی ۔دوران تفتیش انسپکٹرجاویداقبال اور اہلکار توصیف کا بھانڈہ پھوٹ گیا ۔یہ چھوٹے لیول کی کارروائیاں سرِ عام ہورہی ہیں۔ اب بڑے لیول کے ایس پی عدیل اکبر کی خود کشی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔
اگر پولیس کے افسران اور اہلکار ادارے کے اندر غیر انسانی رویوں، دباؤ، اور ناانصافی کے سبب خود کشی جیسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو رہے ہیں توعام عوام کا کیا حشر ہوتا ہوگا۔ یہ وحشت اس نظام کی گہرائیوں میں چھپی سنگین خرابیوں کو ظاہر کرتی ہے ایس پی اسلام آباد کی خودکشی کوئی معمولی واقعہ نہیں، بلکہ ایک چیخ ہے اس سسٹم کے خلاف جو انصاف کے نام پر ظلم کو ادارہ جاتی شکل دے چکا ہے۔ جب ایک تربیت یافتہ افسر جو قانون کا محافظ ہے خود کو غیر محفوظ محسوس کرے تو پھر عام شہریوں کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔وہ تو پہلے ہی پولیس کے رحم و کرم پر ہیں۔ پولیس کلچر میں رائج طاقت کا غلط استعمال، افسران بالا کا دباو ، سیاسی مداخلت، اور محکمے کے اندر عزتِ نفس کی پامالی جیسے عوامل ایسے واقعات کو جنم دیتے ہیں ۔یہ سوچنے کا لمحہ ہے کہ جو ادارہ عوام کی جان و مال کا محافظ ہو، وہ خود اپنے اہلکاروں کی ذہنی اور اخلاقی حفاظت کیوں نہیں کر پاتا؟اسلام آباد پولیس کے ایک سینئر افسر ایس پی کی خودکشی نے پورے نظامِ انصاف کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ کسی ایک فرد کا ذاتی دکھ نہیں بلکہ ایک سسکتے ہوئے ادارے کی اجتماعی چیخ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس معاشرے کی محافظ ہوتی ہے لیکن اگر یہی محافظ اپنے ہی اندر ظلم و زیادتی، بے انصافی اور بے قدری کا شکار ہوں تو پھر عوام کیا توقع رکھے؟ جب ایک اعلیٰ افسر اپنی جان لے لے تو سوچئے اْس سپاہی کا کیا حال ہوگا جو چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دیتا ہے، چھٹی نہیں ملتی اور معمولی غلطی پر افسران بالا کی گالیوں اور ذلت کا سامنا کرتا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے پولیس کلچر میں انسان نہیں، صرف ”رینک” کی عزت ہوتی ہے طاقتور افسر کا حکم حرفِ آخر ہے چاہے وہ غلط ہو ماتحتوں کی کوئی سننے والا نہیں ویسے بھی سیاست، سفارش اور انا پرستی نے اس ادارے کی روح کو کھوکھلا کر دیا ہے اسلام آباد کے ایس پی کا خودکشی کرنا دراصل ایک علامت ہے اس نظام کی جو اندر سے سڑ چکا ہے اسلام آباد کے صنعتی زون میں تعینات عدیل اکبر کی خود کشی نہ صرف ایک افسوسناک ذاتی سانحہ ہے بلکہ ریاستی فورسز کے اندر پائی جانے والی ایک گہری بیماری کی نمائندگی بھی ہے ۔وہ ایک تجربہ کار افسر تھے جنہوں نے مختلف اضلاعِ بلوچستان میں کام کیا اور اپنی قابلیت سے ادارے میں پہچان بنائی عدیل اکبر نے ایم فل کی ڈگری (گورننس اینڈ پبلک پالیسی) حاصل کی تھی ۔اگر ایک باوقار، ہوشمند اور اہل پولیس افسر ایسی حالت تک پہنچ سکتا ہے کہ اپنی جان لے لی تو پھر عام شہری کی حالت کا اندازہ کیا ہوگا؟ عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح لاٹھیوں سے ہانکا جاتا ہے کچھ اسی طرح کا واقعہ سینئر صحافی حسنین اخلاق کے ساتھ بھی پیش آیا۔ تھانہ شاد باغ کے فرعون صفت ایس ایچ او کا رویہ بھی پورے نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ صرف ایک تھانیدار کی کہانی نہیں بلکہ لاہور سمیت ملک بھرکے تقریبا ہر تھانے کا یہی حال ہے۔ حسنین صاحب لکھتے ہیں کہ سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ ارباب اقتدار اور اپنوں کی کاوشوں سے پنجاب میں مرچکی صحافت کی میت کا آج اپنی آنکھوں دیکھا اور خود پر بیتا حال کیسے بیان کروں۔ اسے ذلت کی داستان کہوں یا لاقانونیت بہرحال کچھ بھی نام دیجیے نتیجہ صرف جہالت کی تسکین تھا جس کا مجھے اڑھائی گھنٹے سامنا رہا۔ شاید کچھ صحافتی دوست یہ گواہی دے ہی دیں کہ میں گزشتہ تین دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہوں اور اس دوران بہت سے قومی اور بین الاقوامی جرائد میں لکھنے کے علاوہ ملک کے بہت سے معتبر صحافتی اداروں میں اہم مقام پر کام کرچکا ہوں اور اب بھی ایک سیٹلائٹ نیوز چینل سے وابستگی ہے۔ اس طویل تمہید کا مقصد آپکو وہ داستان بے توقیری بیان کرنا ہے جس کا میں شکار رہا۔ آپ نے کچھ روز پہلے میرے فیس بک پیج پر ایل ڈی اے کے افسران کی کرپشن سے متعلق ایک اسٹوری پڑھی ہوگی، جہاں لاہور کے علاقہ شاد باغ میں پلازہ مالکان کی جانب سے ایل ڈی اے افسران سے لین دین کرکے بغیر نقشہ منظوری کے کروڑوں روپے کی قانونی فیسیں جمع کروائے بغیر غیر قانونی پلازے کی تعمیر کرائی جارہی ہے ۔اسٹوری کے بعد مجھے آج سورس نے بتایا کہ ایل ڈی اے افسران کو بتائے جانے کے باوجود وہاں کام جاری ہے ،جب میں نے وقت کی کمی کے باعث خود ہی موبائل سے پلازے میں کام جاری ہونے کی فوٹیج بنائی تاکہ خبر دے سکوں تو وہاں اندر موجود افراد نے مجھ پر گنیں تان لیں ۔مختصراً مزید ستم یہ کہ میں بدقسمتی سے ون فائیو پر کال کر بیٹھا اس کے بعد تین گھنٹے کی وہ ذلت تھی جو مجھے شاد باغ تھانے میں ایس ایچ او کی سیٹ پر تعینات اللہ رب العزت کی ابتر مخلوق (اللہ گواہ ہے مجھے اب تک اس کا نام نہیں پتہ) کے ہاتھوں برداشت کرنا تھی کہ الاماں الحفیظ۔ اس فی الوقتی فرعون نے تین منٹ کی گفتگو کے دوران میری طرف سے خود کو پریس کلب کا رکن بتانے پر بھڑکتے ہوئے مجھ پر آٹھ بار پیکا ایکٹ کی ایف آئی آر کاٹنے اور چھ بار گھٹیا کہنے اور میرے سروس کارڈ کو نقلی ثابت کرنے کے سوا کچھ زیادہ تو نہیں فرمایا اور ہاں جب میں نے انکے پوچھے جانے پر کہ "پتہ ای نا کہ پیکا کی اے” یہ بتانے کی جسارت کی کہ میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا ایک ایک بار جوائنٹ سیکریٹری اور نائب صدر رہ چکا ہوں جس پر موصوف نے یونین کو لپیٹ کر ۔۔۔۔۔ میں دے دیا جبکہ ہر آدھ گھنٹے بعد ایک سب انسپکٹر کے ذریعے "بس تیرے تے پرچہ ہون لگا اے” کی آواز اس ہزیمت کو تازہ رکھنے کے لئے علیحدہ احکامات جاری کئے تاکہ میں غلطی سے بھی خود کو قابل عزت نہ سمجھ بیٹھوں۔ مجھ سے فون لے لیے جانے اور ملزمان کے ساتھ بند کردیے جانے کے بعد یہ تو بھلا ہو ان تین چار غیر معروف صحافتی اداروں کے رپورٹرز کا جو وہاں کسی کام سے موجود تھے اور حالانکہ میں ان سے واقف نہیں تھا لیکن ان کی مہربانی کہ وہ مجھے جانتے تھے سو انہوں نے غالبًا ایس پی سٹی کے فون کے ذریعے میری حبس بجا سے بازیابی کرائی۔ اب کسی دوست نے بتایا ہے کہ سی سی پی او آفس جاکر درخواست گزارو۔ میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ یہ احساس ذلت کو کم کرے گا یا دوگنا؟؟ شام چھ بجے سے اب تک رب کعبہ کی قسم ہے کہ اینگزائٹی کا یہ عالم ہے کہ کئی بار سب کچھ ختم کردینے کا سوچ چکا ہوں۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • پنجاب میں اسکول ٹائمنگز کی خلاف ورزی پر دس لاکھ تک جرمانہ، نیا شیڈول فوری نافذ
  • سموگ کے باعث پنجاب بھر کے سکولوں کے اوقات کار تبدیل
  • ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ: جنوبی افریقہ اور انڈیا کا فائنل میں مقابلہ تاریخ ساز کیوں قرار دیا جارہا ہے؟
  • پنجاب میں اسموگ کی شدت میں اضافہ، اسکولوں کے اوقات کار تبدیل
  • پاکستان مخالف بھارتی میڈیا کا ایک اور جھوٹا پروپیگنڈا بے نقاب
  • پاکستان دشمنی میں مبتلا بھارتی میڈیا کا ایک اور جھوٹ بے نقاب، وزارتِ اطلاعات نے “انڈیا ٹوڈے” کا گمراہ کن پروپیگنڈا بےنقاب کر دیا
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے
  • امریکا نے بھارت کے ساتھ 10 سالہ دفاعی معاہدے پر دستخط کردیے
  • پولیس رویہ۔۔ حسنین اخلاق بھی عدیل اکبر کی راہ پر؟
  • مذاکرات ، پاکستان کیا کرے