صدیوں میں ایک رونما ہونے والی بڑی تبدیلی کے تناظر میں ہمارے سامنے ایک بڑا سوال کھڑا ہے۔ وہ سوال جو ہم سب سے جڑا ہے، اس بدلتی دنیا میں پاک انڈیا کشمکش کیا رخ اختیار کرے گی؟ یا یہ کہ یہ تبدیلی پاک انڈیا تنازع پر کیا اثر ڈالے گی؟ خوش قسمتی سے داخلی طور پر غیر مستحکم سا پاکستان خارجہ محاذ پر ہمیشہ بہت مستحکم رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی وقتی طور پر مضر نظر آنے والی بعض پالیسیاں بھی کچھ مدت بعد درست ثابت ہوئی ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں مگر سردست ہم اصل موضوع پر ہی فوکسڈ رہیں گے۔
آپ چین کے حوالے سے پاکستان کی 75 سالہ پالیسی دیکھیے۔ ماؤ انقلاب کامیاب ہوا اور جدید چین کا خواب حقیقت بنا تو پاکستان پہلا ملک تھا جس نے اسے تسلیم کیا، اور پی آئی اے پہلی انٹرنیشنل ایئرلائن تھی جس کی پرواز بیجنگ میں لینڈ ہوئی۔ نو آزاد چین کے ساتھ پاکستان اور انڈیا دونوں کا سرحدی معاملہ اٹھا۔ ہمارے حصے میں چین کے ساتھ جو سرحد آئی تھی اس پر کچھ ابہام تھا۔ جبکہ انڈیا کا چین کے ساتھ جو سرحدی معاملہ تھا اس میں چینی مؤقف کلیئر کٹ درست تھا۔ ہم نے چین کے ساتھ سرحدی معاہدہ کرکے مسئلہ بغیر کسی کھینچا تانی کے حل کرلیا۔ اس کے لیے ہم 5180 مربع کلومیٹر کی شکسگم ویلی سے دستبردار ہوگئے۔ مگر چین سے ہونے والے معاہدے میں ایک شق ہم نے یہ بھی ڈلوا لی کہ جب بھی مسئلہ کشمیر حل ہوگا، دونوں ممالک اس مسئلے کا از سر نو جائزہ لیں گے۔ یوں چین کے ساتھ ہماری ایک باقاعدہ سرحد وجود میں آگئی۔
ظاہر ہے چین نے ہمارے قدم کو بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا، اور آنے والے ماہ و سال میں پاک چین تعلقات کی دوستانہ روح میں اس کا کردار بھی اہم ثابت ہوا۔ بات یہیں نہ رکی بلکہ ہم باہم روٹھے چین امریکا کے مابین سہولت کار بھی بن گئے۔ ہم نے دونوں کے تعلقات قائم کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں پہلے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا خفیہ دورہ بیجنگ کروایا اور اگلے مرحلے میں سال بعد امریکی صدر رچرڈ نکسن کے تاریخی دورے کی راہ ہموار کی۔ اس کے نتیجے میں امریکا اور چین کے مابین آگے چل کر جو معاہدے ہوئے ان میں سب سے اہم یہ تھا کہ امریکا چائنیز طلبہ کے لیے اپنی یونیورسٹیز کے دروازے کھولے گا۔
امریکا نے یہ معاہدہ اس خوش فہمی کے ساتھ بصد خوشی کرلیا کہ جو چینی طالب علم امریکا میں تعلیم حاصل کریں گے، وہ آگے چل کر ’چائنیز دیسی لبرلز‘ ثابت ہوں گے، اور انقلاب کا دھڑن تختہ کردیں گے۔ مگر وہ طالب علم توقع کے بالکل برخلاف اپنے ملک کے وفادار ثابت ہوئے۔ وہ تعلیم حاصل کرکے اپنے فاقہ زدہ ملک لوٹے۔ اور آج کے اس چین کے خالق بنے جو امریکا سے دنیا کا اختیار حاصل کر رہا ہے۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ یہ کارنامہ ہمارے اس حکمران نے انجام دیا جو ہماری سیاسی تاریخ کا سب سے بدنام کردار ہے، یعنی جنرل یحییٰ خان۔
اب ذرا گاندھی جی، نہرو اور مولانا آزاد کے ہندوستان کی چائنیز پالیسی کا حال بھی دیکھ لیجیے۔ برطانوی راج کے دوران گورے نے چینی سرحد کے قریب بھی بہت سی وارداتیں کر رکھی تھیں۔ جنہیں چین نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ سب سے اہم اروناچل پردیش والا معاہدہ ہی دیکھ لیجیے۔ وہ معاہدہ برٹش انڈیا نے اس تبت کے ساتھ کیا جو سرے سے ریاست ہی نہ تھا۔ اور اس کی آڑ میں چینی علاقے پر قبضہ کرلیا۔ چالیس سال بعد انقلابی چین کے مالک بنے تو انہوں نے انڈیا کے ساتھ یہ مسئلہ اور باقی دونوں سرحدی تنازعات بھی اٹھا لیے۔ کیا انڈیا نے حل کی راہ اختیار کی؟ نہیں، بلکہ اس کا رویہ اس ناجائز قابض کا رہا جو قبضہ کیا ہوا پلاٹ چھتر کھائے بغیر خالی نہیں کرتا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ 1962 کی چین انڈیا جنگ جس میں اسے اکسائی چن سے ہاتھ دھونے پڑے۔ صرف یہی نہیں بلکہ 2019/ 2020 میں انڈین فوجیوں کی ڈنڈوں سے درگت بنی، اور اب نئے عالمی لیڈر کی شکل میں ابھرتی چائنیز سپر طاقت کا سامنا ہے۔
اب ذرا یہ دیکھیے کہ پاکستان اور انڈیا نے پچھلے 75 سالوں میں چین کے ساتھ تعلقات کی اپنی جو تاریخ ترتیب دی ہے، اس کے نتائج اب ان دونوں کے لیے کیا نکلنے جا رہے ہیں۔ چینیوں کی بڑی خوبیوں سے ایک یہ ہے کہ یہ بھولتے نہیں۔ جن کی یادداشت صدیوں پر محیط ہو، ان کے لیے پچھلے 75 سال 75 منٹ سے زیادہ نہیں۔ یہ اس یادداشت کا ہی نتیجہ ہے کہ اس عظیم قوم نے اپنی ترقی کے دور میں بی آر آئی پراجیکٹ شروع کیا تو پاکستان کے لیے اس میں سی پیک کے نام سے اسپیشل حصہ رکھا۔ یعنی ہمیں وہ کچھ بھی دینے کا فیصلہ کیا جو بی آر آئی سے جڑے باقی ممالک کے لیے نہیں تھا۔
یاد کیجیے 9 برس قبل جب سی پیک کا اعلان ہوا تو یہ وہ وقت تھا جب چین ابھی عالمی اختیار کے حصول سے کئی سال دور تھا۔ ہم سب سی پیک پر بہت زیادہ خوش بھی ہوئے تھے اور ایک دوسرے کو یہ بھی بتایا تھا کہ اس کے ثمرات کیا کیا ہوں گے۔ ہم نے جو بھی ڈسکس کیا تھا وہ سی پیک کے ارد گرد ہی تھا۔ سی پیک سے آگے کچھ نہ تھا۔ اب جب چین نے عالمی اختیار کے حصول کی رسمی کارروائی شروع کردی ہے تو ہمارے لیے سی پیک سے اگلے مرحلے کا پیکج بھی تیار ہے۔ وہ پیکج جس کے سامنے سی پیک کا ہی قد گھٹ گیا ہے۔ اس اگلے پیکج کے تحت پاکستان جنوبی ایشیا کی ڈومننٹ پاور بننے جا رہا ہے۔ بالادستی کے اس دور کا دیباچہ ہم 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب لکھ چکے۔ ہم نے ثابت کردیا ہے کہ چین ہم پر پورے شرح صدر کے ساتھ بھروسہ کرسکتا ہے۔ اور چین کیا امریکا بھی زبان حال سے تسلیم کر رہا ہے کہ ہم یہ رول نبھانے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر کے ناز نخرے ایویں ہی نہیں اٹھائے جا رہے۔
جب آپ کا عالمی پروفائل بڑھتا ہے تو دنیا آپ سے پیش بھی اسی حساب سے آتی ہے۔ ہم نے تاریخ کے ہر موڑ پر امریکی مفادات پر اپنے مفادات کو ترجیح دے کر اسے ناراض تو کیا ہے، مگر اسے ہاتھ سے بھی نہیں نکلنے دیا۔ یہ کارنامہ صرف ہم نے ہی انجام دے رکھا ہے ایک ہی وقت میں امریکا اور چین دونوں سے تعلقات ہیں، اور دونوں میں سے ایک بھی ہم سے یہ نہیں کہہ رہا کہ دوسرے کو چھوڑیے۔ انڈیا سے یہ مطالبہ ہو رہا ہے کہ نہیں؟ ہم کیوں کامیاب ہیں اور انڈیا کیوں ناکام؟
کیونکہ ہم نے ثابت کر رکھا ہے کہ چین سے ہماری دوستی امریکا کے بھی مفاد میں ہے، اور امریکا سے ہمارے تعلقات چین کے بھی مفاد میں ہیں۔ یوں یہ دونوں عالمی طاقتیں ہم سے مطمئن بھی ہیں اور ان میں سے ایک بھی یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ دوسرے سے تعلق ختم کیجیے۔ کیا انڈیا کی خارجہ پالیسی میں ایسی کوئی خوبی ہے؟ ہم چین اور امریکا کے بیچ وہ مستقل کڑی ہیں جس نے آج بھی ان دونوں کو باہم مربوط رکھا ہوا ہے۔ کیا انڈیا میں یہ صلاحیت ہے؟ چین اور امریکا چھوڑیے وہ تو ایران اور اسرائیل کے بیچ بھی کڑی نہ بن سکا۔
آخری بات یہ کہ پاکستان اور انڈیا دونوں کو آج چین سے اسی سلوک کا سامنا ہے جس کے اپنے اپنے کردار کی وجہ سے یہ مستحق بنے ہیں۔ ہمیں مفت میں نہیں نوازا جا رہا۔ یہ ہماری دہائیوں پر محیط خارجہ پالیسی کے ثمرات ہیں جو اب ہمیں ملنے جا رہے ہیں۔ جبکہ انڈیا کو یہ خوش فہمی مار گئی کہ وہ مستقبل کی عالمی طاقت ہے۔ اس کی یہ خوش فہمی دور کرنے کا عمل ہم چین کی پارٹنرشپ سے شروع کرچکے۔ جلد ثابت ہوجائے گا کہ عالمی طاقت کیا، یہ تو جنوبی ایشیا سطح کی لوکل طاقت بھی نہیں۔ اور یہ اس لیے ہوگا کہ مولانا آزاد انہیں یہ بتانا بھول گئے تھے کہ محض جی ڈی پی بڑھنے سے بات نہیں بنتی، اوقات بھی بڑھانی پڑتی ہے۔ اوقات ٹکے کی ہو تو بڑا جی ڈی پی کسی کام کا نہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا بھارت تعلقات امریکا پاکستان تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ عالمی طاقتیں مودی سرکار وی نیوز چین کے ساتھ عالمی طاقت اور انڈیا میں چین اور ان سی پیک کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں سابق مستقل مندوب مسعود خان نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایسا تأثر سامنے آ رہا ہے کہ کچھ لوگ نادانستہ اور کچھ لوگ شعوری طور پر مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں کشیدہ صورتحال کے حوالے سے ’وی نیوز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ غزہ کے معاملے پر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا جو اجلاس ہوا اُس میں کہا گیا کہ غزہ کی گورننس میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اگر فلسطین کے ملٹری ونگ حماس کو آپ ختم کر دیں گے تو فلسطین کی کوئی دفاعی قوّت نہیں رہے گی۔
یہ بھی پڑھیں: عرب اسلامی ہنگامی اجلاس: ’گریٹر اسرائیل‘ کا منصوبہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بنتا جارہا ہے: امیر قطر
انہوں نے کہاکہ غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان یہودی بستیاں آباد ہیں۔ اب نیا منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں۔ اگر آپ سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے دیکھیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین اور ریاستِ فلسطین کو دفن کیا جا رہا ہے۔
’مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال میں پاکستان کا کردار قابلِ ستائش ہے‘
سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کا کردار قابلِ ستائش رہا ہے اور ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی اس کی تعریف کی ہے۔ پاکستان نے سفارتکاری سے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرکے ہوش مندی اور حکمت کا ثبوت دیا۔
قطر پر حملے سے امریکا کیسے لاعلم تھا؟قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اِس حملے سے کیسے لاعلم تھا جبکہ امریکا اور اسرائیل دونوں اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں، یعنی موساد اور سی آئی اے ایک دوسرے پر نظر رکھتی ہیں۔
’وہ خطے کے باقی ممالک پر نظر تو رکھتے ہی ہیں لیکن ایک دوسرے پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ قرین قیاس نہیں ہے کہ اسرائیل کی جانب سے قطر پر حملے کا امریکا کو چند منٹ پہلے پتا چلا۔‘
انہوں نے کہاکہ یہ حملہ عالم اِسلام کے لیے بالعموم اور عالمِ عرب کے لئے بالخصوص خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا عالمی نظام تشکیل پا رہا ہے۔ عرب ممالک غزہ اور فلسطین کے معاملے پر بہت محتاط تھے کہ ایک خاص حد سے آگے نہ جائیں کیوں کہ امریکا اُن کی سیکیورٹی کا ضامن تھا۔ لیکن اِس حملے سے جو صورتحال میں بدلاؤ آیا ہے اُس سے لگتا ہے کہ اب اِس خطے میں کوئی قانون نہیں ہوگا۔
کیا عرب ممالک مزاحمت کر سکتے ہیں؟اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ خلیجی ممالک نے 80 کی دہائی میں کوشش کی تھی کہ ہمارے پاس کوئی دفاعی قوّت ہونی چاہیے اور اِس مرتبہ پھر اُنہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارا کوئی مشترکہ دفاعی نظام ہونا چاہیے لیکن یہ امریکا کے اِس قدر تابع ہیں کہ یہ ایسا کر نہیں پائیں گے، یہ فیصلہ کرنا اُن کے لئے مُشکل ہو گا۔
انہوں نے کہاکہ اِس پر یہ روس اور چین کی طرف دیکھیں گے۔ ان دونوں ملکوں کے ساتھ خلیجی ریاستوں کے معاشی تعلقات تو ہیں لیکن دفاعی تعلقات نہیں۔ اب وہ دیکھیں گے کہ امریکا اگر اُن کو سیکیورٹی مہیّا نہیں کرتا تو اُن کے پاس کیا آپشن ہیں۔
مسعود خان نے کہاکہ یہ خلیجی ممالک کوئی عام ریاستیں نہیں، یہ ہزاروں ارب ڈالر کی دولت رکھنے والے ممالک ہیں۔ انہوں نے تین ٹریلین ڈالر کے ساورن ویلتھ فنڈ کے ذریعے امریکا میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ امریکا ہر سال اِن مُلکوں کو سینکڑوں ارب ڈالر کا اسلحہ بیچتا ہے لیکن اُسے جان بوجھ کر اسرائیل کی استعداد سے کم رکھا جاتا ہے۔
’اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا گریٹر اسرائیل کے لیے آیا خلیجی ممالک کو مکمل تباہ کیا جائے گا یا پھر اِن کی سیکیورٹی کے لیے کوئی نیا انتظام کیا جائے گا۔‘
’شہباز ٹرمپ ممکنہ ملاقات کا ایجنڈا ٹرمپ جنرل عاصم ملاقات سے اوپر نہیں جا سکتا‘وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہاکہ اِس ملاقات کا ایجنڈا 18 جون کو صدر ٹرمپ اور آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے درمیان ملاقات کے ایجنڈے سے اوپر نہیں جا سکتا۔
انہوں نے کہاکہ وہ بڑا جامع ایجنڈا تھا اور اُس کو حتمی شکل اسحاق ڈار اور امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو کے درمیان ملاقات میں دے دی گئی تھی اور اُس کے تناظر میں پاکستان کے بارے میں کچھ اچھے فیصلے بھی ہو سکتے ہیں۔
مسعود خان نے کہاکہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے قطر پر حملے کے لیے امریکا کے اُسامہ بن لادن کے خلاف پاکستان میں آپریشن کو جواز بنانا سراسر غلط تھا۔ اُسامہ بن لادن کوئی امریکا کے کہنے پر مذاکرات تو نہیں کر رہا تھا۔
’حماس رہنما خلیل الحیہ قطر میں امریکا کی منشا سے مذاکرات کے لئے آیا تھا، قطر نے بُلایا تھا اور اُس کے ہاتھ میں وہ پرچہ دیا تھا جو امریکا نے دیا تھا کہ یہ شرائط امریکا و اسرائیل دونوں کی طرف سے ہیں۔‘
قطر پر حملے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کے فوراً دورے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہاکہ قطر کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں وہاں ہمارے بہت سارے پاکستانی کام بھی کرتے ہیں اور بڑے اعلیٰ عہدوں پر بھی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اِس کے علاوہ قطر خطے کا مرکز ہے۔ وہ مشرق مغرب کے درمیان، شمال اور جنوب کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ لہٰذا حملے کے فوراً بعد وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ ایک اہم فیصلہ تھا۔ وہ گئے اور قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ وہ اِسلامی ملک ہے اور ہر مشکل گھڑی میں اُنہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عرب اسلامی اجلاس: مسلم ممالک نے قطر کو اسرائیل کے خلاف جوابی اقدامات کے لیے تعاون کی یقین دہانی کرادی
’پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے پیچھے بھارت ہے‘پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے۔ گزشتہ برس دہشتگردی میں 4 ہزار لوگ مارے گئے جو کوئی چھوٹی تعداد نہیں۔
اُنہوں نے کہاکہ ملا ہیبت اللہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں لیکن اِس کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور ان دہشتگردوں کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews سابق سفارتکار سابق صدر آزاد کشمیر قطر پر اسرائیلی حملہ گریٹر اسرائیل مسئلہ فلسطین مسعود خان وی نیوز