کراچی میں نالے کہاں سے آتے ہیں اور ڈوبنے والوں کو کون بچاتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, September 2025 GMT
کراچی میں ہر بار کی طرح اس بار بھی بارش کے دوران پانی جمع ہونے کے واقعات نے شہری آبادی کو نقصان پہنچایا۔
شہر کی مشہور ملیر اور لیاری ندیاں نہ صرف طغیانی کی زد میں آئیں بلکہ ان ندیوں نے کہیں زیر تعمیر شاہراہِ بھٹو کو نقصان پہنچایا تو کہیں لیاری ندی نے شہری علاقوں کا رخ کیا۔
ایسے میں ایک بار پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیا اب صورتحال قابو میں ہے یا کراچی میں پانی اپنا کھویا ہوا حصہ واپس لے گا؟
وی نیوز نے اس حوالے سے بات کی مصنف اور سینیئر صحافی شاہ ولی اللہ جنیدی سے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی دو تاریخی ندیاں ہیں، ایک ملیر اور دوسری لیاری ندی۔
ان کے مطابق ان ندیوں پر تجاوزات قائم ہو چکی ہیں۔ حتیٰ کہ ملیر ندی میں شامل ہونے والے نالوں میں سے ایک پر پاکستان کی مشہور ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن قائم کر دی گئی ہے۔
لیاری ندی کا بھی یہی حال ہے، یہ ایک وسیع علاقہ پر پھیلی ندی تھی، لیکن اب سکڑ چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ندیوں کے راستے روکے گئے تو تباہی سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔ اصل خطرہ اس دن سے ہے جب سمندر نے پانی لینا چھوڑ دیا، اور اگر ایسا ہوا تو کراچی رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔
اس بار لیاری ندی میں طغیانی کے باعث کچھ افراد بہہ گئے ہیں۔ ان کی تلاش لیاری ندی اور سمندر کے سنگم پر قائم مچھر کالونی کے مقام پر کی جا رہی ہے، تاہم ابھی تک کوئی نہیں ملا۔
اسی مقام پر کوہاٹی محلے میں رہائش پذیر مقامی افراد ماہر تیراک بھی ہیں۔ ان کے مطابق مختلف ادوار میں اب تک 25 لاشیں اس مقام سے نکال کر لواحقین کے سپرد کی جا چکی ہیں اور اس بار بھی اگر کوئی لاش ملی تو وہ اسے ضرور نکالیں گے۔
یہ افراد نہ صرف پانی میں بہنے والی اشیا تلاش کرتے ہیں بلکہ ڈوب جانے والی لاشیں بھی نکال کر اہل خانہ کے سپرد کر دیتے ہیں۔
اگرچہ ان کا ذریعہ معاش اس پانی سے وابستہ نہیں، لیکن وہ اس مقام کے چپے چپے سے واقف ہیں اور اشیا کی تلاش نے انہیں ماہر تیراک بنا دیا ہے جو سمندر سے کچھ بھی نکال سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: لیاری ندی
پڑھیں:
گورنر ہاؤس میں اسپیکر کو رسائی کیخلاف کامران ٹیسوری کی درخواست، سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل
گورنر سندھ کامران ٹیسوری—فائل فوٹوگورنر ہاؤس کراچی میں گورنر کی غیر موجودگی میں اسپیکر صوبائی اسمبلی کو مکمل رسائی دینے کے معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی درخواست پر 5 رکنی آئینی بنچ تشکیل دے دیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ 3 نومبر کو سماعت کرے گا۔
سندھ ہائی کورٹ نے قائم مقام گورنر کو گورنر ہاؤس کی مکمل رسائی کا حکم دیا تھا۔
گورنر سندھ کے دفتر کو تالہ لگانے پر قائم مقام گورنر سندھ اور اسپیکر سندھ اسمبلی اویس شاہ نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ ان کا درخواست میں مؤقف ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے ہمیں سنے بغیر فیصلہ سنایا۔
گورنر سندھ کا درخواست میں مؤقف ہے کہ قائم مقام گورنر اویس قادر شاہ کو اجلاس کرنے سے روکا نہیں گیا، تصاویر اور ویڈیو سے واضح ہے کہ قائم مقام گورنر کو مکمل پروٹوکول دیا گیا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ آئین میں قائم مقام گورنر کا دائرہ اختیار طے ہے، قائم مقام گورنر 2015ء کے قانون کے تحت گورنر ہاؤس استعمال نہیں کر سکتا، سندھ ہائی کورٹ نے جلد بازی میں فیصلہ کر کے درخواست نمٹائی ہے۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی درخواست میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔