برطانوی پرچم تشدد، تقسیم کی علامت بنانے والوں کے حوالے نہیں کرینگے، وزیراعظم کیئر اسٹارمر
اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT
برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر کا کہنا ہے کہ ملک کے پرچم کو تشدد اور تقسیم کی علامت بنانے والوں کے حوالے نہیں کریں گے۔
سر کیئر اسٹارمر نے لندن میں دائیں بازو کے مظاہرے میں ڈیڑھ لاکھ افراد کی شرکت کے بعد بیان میں کہا کہ برطانوی پرچم ہمارے متنوع ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی کو ہماری سڑکوں پر رنگ یا پس منظر کی وجہ سے خوفزدہ نہیں ہونے دیں گے۔
برطانوی وزیراعظم سر کئیر اسٹارمر نے کہا کہ پر امن احتجاج ہمارے ملک کی اقدار کا بنیادی حق ہے، برطانوی عوام کو اپنے رواداری، تنوع اور دوسروں کے احترام پر فخر ہے۔
واضح رہے کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق ہفتے کو دائیں بازو کے مظاہرے کےدوران 26 پولیس افسران زخمی ہوئے جبکہ 25 مظاہرین گرفتار کیےگئے۔
Post Views: 6.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
برطانوی حکمران جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کا اسرائیل میں داخلہ بند
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن: برطانیہ کی حکمران جماعت لیبر پارٹی کے دو ارکانِ پارلیمنٹ کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق سائمن اوفر اور پیٹر پرنسلے ایک پارلیمانی وفد کے ساتھ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے دورے پر گئے تھے، جہاں وہ طبی اور ریلیف سرگرمیوں کا جائزہ لینا چاہتے تھے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے دونوں ارکانِ پارلیمنٹ کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے لیبر پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ وہ خطے میں صحت عامہ کے مسائل کو قریب سے دیکھنے کے خواہشمند تھے لیکن اسرائیلی حکومت نے انہیں اس موقع سے محروم کر دیا جو انتہائی افسوسناک رویہ ہے۔
برطانوی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اس اقدام کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ برطانوی عوامی نمائندوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ لندن میں اسرائیلی سفارت خانے نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے تاہم برطانوی حکام نے اسرائیلی حکومت پر واضح کیا ہے کہ یہ اقدام دوستانہ تعلقات کے منافی ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق فارن آفس منسٹر ہمیش فالکنر سمیت اعلیٰ حکام ارکانِ پارلیمنٹ سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے، اس سے قبل بھی اسرائیلی حکام نے بعض برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیا تھا، جس پر برطانیہ کی سیاسی قیادت نے سخت ردعمل دیا تھا۔