اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں عوامی مسائل کا علم ہونا چاہیے، جج سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 18th, September 2025 GMT
سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں پتا ہونا چاہیے کہ عوامی مسائل کیا ہیں۔
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
ٹیکس پیئر کے وکیل خالد جاوید نے دلائل کا آغاز کیا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ میں بل لانے کا طریقہ کار کیا ہے۔
وکیل ٹیکس پیئر نے مؤقف اپنایا کہ پالیسی میکنگ اور ٹیکس کلیکٹر دو مختلف چیزیں ہیں، ٹیکس کلیکٹر ایف بی آر میں سے ہوتے ہیں جو ٹیکس اکھٹا کرتے ہیں، پالیسی میکنگ پارلیمنٹ کا کام ہے، اگر میں پالیسی میکر ہوں تو میں ماہرین سے پوچھوں گا کہ کیا عوام کو اس کا فائدہ ہے یا نقصان۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں انہیں پتا ہونا چاہیے عوامی مسائل کیا ہیں، کیا آج تک کسی پارلیمنٹرین نے عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے تجاویز دی ہیں، جس کمیٹی کی آپ بات کر رہے ہیں اس میں بحث بھی ہوتی ہے یا جو بل آئے اسے پاس کر دیا جاتا ہے۔
خالد جاوید نے مؤقف اپنایا کہ قومی اسمبلی میں آج تک کسی ٹیکس ایکسپرٹ کو بلا کر ٹیکس کے بعد نفع نقصان پر بحث نہیں ہوئی، وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ سپر ٹیکس کے حامی ہیں، قومی اسمبلی میں ایسی بحث نہیں ہو سکتی جو ایک کمیٹی میں ہوتی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ یہی سوال ہم نے ایف بی آر کے وکلاء سے پوچھا تھا، ایف بی آر کے وکلاء نے جواب دیا تھا مختلف چیمبرز آف کامرس سے ماہرین کو بلایا جاتا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے بتایا کہ مختلف کمیٹیاں ہیں، لیکن کمیٹیوں کے کیا نتائج ہوتے ہیں یہ آج تک نہیں بتایا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اصول تو یہ ہے کہ ٹیکس نافذ کرنے سے پہلے ماہرین کی رائے ہونی چاہیے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ بات بھی سامنے ہونی چاہیے کہ اگر 10 فیصد ٹیکس لگ رہا ہے تو کتنے لوگ متاثر ہوں گے۔
سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عوامی مسائل سپر ٹیکس
پڑھیں:
مبلغ کو علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہیے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
صدر منہاج القرآن نے کہا کہ دعوت کا مقصد صرف تبلیغ نہیں بلکہ دلوں کو نرم کرنا، نفرتوں کو مٹانا اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگ میں معاشرے کو ڈھالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کو دلیل، فہم اور کردار کے ساتھ متاثر کیا جا سکتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ جیسے سوشل میڈیا، ویڈیوز، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ دین کا پیغام وسیع پیمانے پر اور جدید انداز میں عام ہو۔ اسلام ٹائمز۔ تحریکِ منہاج القرآن کی مرکزی نظامتِ دعوت کے اسکالرز کے وفد نے نائب ناظمِ اعلیٰ علامہ رانا محمد ادریس قادری کی قیادت میں صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری سے ملاقات کی۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مبلغ کو کردار اور علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہئے۔ جدید ذرائع ابلاغ کو اصلاح معاشرہ کیلئے استعمال کیا جائے۔ استاد، مبلغ یا داعی ہر معاشرہ کے رول ماڈل افراد ہوتے ہیں۔ داعی کی تربیت پر سخت محنت ناگزیر ہے۔موجودہ دور کا داعیِ اسلام صرف علم ہی نہیں بلکہ کردار اور ابلاغ کے میدان میں بھی مضبوط ہونا چاہیے۔ علم کے بغیر دعوت گہرائی کھو دیتی ہے، کردار کے بغیر اثر ختم ہو جاتا ہے، اور ابلاغ کے بغیر پیغام نہیں پہنچتا۔
انہوں نے کہا کہ دعوت کا مقصد صرف تبلیغ نہیں بلکہ دلوں کو نرم کرنا، نفرتوں کو مٹانا اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگ میں معاشرے کو ڈھالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کو دلیل، فہم اور کردار کے ساتھ متاثر کیا جا سکتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ جیسے سوشل میڈیا، ویڈیوز، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ دین کا پیغام وسیع پیمانے پر اور جدید انداز میں عام ہو۔ انہوں نے کہا کہ علمائے کرام اور اسکالرز کو چاہیے کہ وہ نوجوان نسل کے ذہنی و فکری رجحانات کو سمجھ کر دین کو اُن کی زبان میں پیش کریں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ تحریکِ منہاج القرآن علم و کردار کے حسین امتزاج کی نمائندہ تحریک ہے جس کا مقصد معاشرے میں علمی بیداری، فکری تطہیر اور عملی تبدیلی لانا ہے۔
انہوں نے نظامتِ دعوت کے اسکالرز کو ہدایت کی کہ وہ اپنے خطابات، دروس، اور تحریروں میں دین کے اخلاقی و روحانی پہلو کو اجاگر کریں تاکہ نئی نسل اسلام کی اصل روح سے روشناس ہو سکے۔ اس موقع پر مرکزی ناظمِ دعوت علامہ جمیل احمد زاہد، قاری ریاست علی چدھڑ اور دیگر اسکالرز بھی ملاقات میں شریک تھے۔