چینی سائنس دانوں کی ایجاد نئی بیٹری، اسمارٹ فون اور برقی گاڑیاں بدل جائیں گی
اشاعت کی تاریخ: 18th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چینی سائنس دانوں نے توانائی کے شعبے میں ایک اہم پیش رفت کرتے ہوئے ایک نئی قسم کی بیٹری تیار کرلی ہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اسمارٹ فونز سے لے کر برقی گاڑیوں تک توانائی کی فراہمی کے روایتی طریقوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ بیٹری لیاؤننگ میں قائم ڈیلین انسٹیٹیوٹ آف کیمیکل فزکس کے سائنس دانوں کی ٹیم نے تیار کی ہے اور اسے ’’ہائڈرائڈ آئن بیٹری‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
یہ بیٹری اپنی نوعیت میں منفرد ہے کیونکہ یہ لیتھیم آئن بیٹریوں کے برعکس ہائیڈروجن آئنز پر انحصار کرتی ہے جو ٹھوس الیکٹرولائٹ کے ذریعے حرکت کرتے ہیں۔
اس وجہ سے یہ وزن میں نہ صرف ہلکی ہے بلکہ توانائی فراہم کرنے کی زیادہ صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ ٹیکنالوجی مکمل طور پر کامیاب ہوجائے تو دنیا بھر میں بیٹریوں کے استعمال کا نقشہ بدل سکتا ہے۔
فی الحال اس ٹیکنالوجی کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ بیٹریاں صرف بلند درجہ حرارت پر مؤثر طریقے سے کام کرتی ہیں اور عام درجہ حرارت پر غیر مستحکم ہوجاتی ہیں، جس کے باعث انہیں فوری طور پر صارفین کے لیے متعارف نہیں کرایا جاسکتا۔ ماہرین اس رکاوٹ پر قابو پانے کے لیے مزید تجربات کر رہے ہیں تاکہ بیٹری کو ہر ماحول میں استعمال کے قابل بنایا جاسکے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ ٹیکنالوجی کامیابی سے عام استعمال میں آجاتی ہے تو برقی گاڑیوں کی کارکردگی میں بے پناہ اضافہ ہوگا، اسمارٹ فونز کو طویل وقت تک چارجنگ کی ضرورت نہیں رہے گی اور توانائی کے دیگر شعبے بھی اس سے انقلاب برپا کر سکیں گے۔
یہ پیش رفت دنیا بھر میں توانائی کے مستقبل پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے، کیونکہ اس وقت لیتھیئم آئن بیٹریاں ہی سب سے زیادہ استعمال ہورہی ہیں۔ ہائڈرائڈ آئن بیٹری اگر اپنے مسائل پر قابو پا لے تو یہ ٹیکنالوجی آنے والے برسوں میں توانائی کے شعبے کو ایک نئی سمت دے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: توانائی کے آئن بیٹری
پڑھیں:
چین نے امریکی کمپنی اینوڈیا کی چِپس خریدنے پر اپنی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر پابندی لگادی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چین کے انٹرنیٹ ریگولیٹر نے ایک بڑا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو امریکی کمپنی اینوڈیا (Nvidia) کی نئی اے آئی چِپس خریدنے سے روک دیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق سائبر اسپیس ایڈمنسٹریشن آف چائنا (سی اے سی) نے علی بابا اور بائٹ ڈانس سمیت دیگر کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اینوڈیا کی خصوصی طور پر چین کے لیے تیار کی گئی RTX Pro 6000D چپ کے آرڈرز اور ٹیسٹنگ کا عمل بند کر دیں۔ یہ ہدایت اس وقت سامنے آئی جب کئی کمپنیوں نے اس پروڈکٹ کے ہزاروں یونٹس خریدنے کا عندیہ دیا اور ٹیسٹنگ بھی شروع کر دی تھی۔
یہ پابندی اس سے پہلے لگائی گئی اینوڈیا کے H20 ماڈل پر عائد قدغن سے بھی سخت تصور کی جا رہی ہے، کیونکہ H20 بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت کے منصوبوں میں استعمال ہو رہا تھا۔ رپورٹس کے مطابق چینی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مقامی چپ ساز ادارے اب ایسے پروسیسرز تیار کر رہے ہیں جو اینوڈیا کے ان برآمدی ماڈلز کے برابر یا بعض صورتوں میں ان سے زیادہ بہتر ہیں۔ اسی لیے چین اب اپنی کمپنیوں کو اینوڈیا پر انحصار ختم کرنے اور مکمل طور پر مقامی سیمی کنڈکٹرز پر منتقل ہونے کی طرف لے جا رہا ہے۔
انوڈیا کے چیف ایگزیکٹو جینسن ہوانگ نے لندن میں میڈیا کو بتایا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے چین میں کمپنی کے مستقبل کے حوالے سے بات کریں گے۔ واضح رہے کہ اینوڈیا نے یہ خصوصی چپس اس وقت متعارف کروائی تھیں جب سابق صدر جو بائیڈن نے کمپنی کو اپنے طاقتور ترین پروڈکٹس چین کو برآمد کرنے سے روک دیا تھا۔ اس پابندی کے بعد کمپنی نے نسبتاً کم طاقتور ماڈلز متعارف کرائے تاکہ وہ چین میں اپنا کاروبار جاری رکھ سکے۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ اب ہواوے اور کیمبرکون جیسی مقامی چپ ساز کمپنیاں، اس کے علاوہ بائڈو اور علی بابا جیسے بڑے ادارے، اپنی اے آئی چپ ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق چینی پروسیسرز اس سطح پر پہنچ چکے ہیں جہاں وہ امریکی ماڈلز کا متبادل بن سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ اقدام چین کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ امریکا کے ساتھ مصنوعی ذہانت اور سیمی کنڈکٹرز کی دوڑ میں خود کفالت اور بالادستی حاصل کرنا چاہتا ہے۔