امریکی دباؤ پر عراقی ترکمان گیس ڈیل ناکام، بجلی بحران مزید بڑھنے کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
عراق کی ترکمانستان سے گیس خریدنے کی کوشش امریکی دباؤ کے باعث ناکام ہوگئی۔
اس معاہدے کے تحت ترکمانستان سے گیس ایران کے راستے عراق پہنچائی جانی تھی تاکہ ملک میں بجلی کی قلت کم ہو سکے، لیکن امریکا نے اس ڈیل کی منظوری دینے سے انکار کر دیا۔
عراقی وزیراعظم کے توانائی امور کے مشیر عادل کریم نے کہا کہ اگر یہ معاہدہ آگے بڑھایا گیا تو عراقی بینکوں اور مالیاتی اداروں پر امریکی پابندیاں لگ سکتی ہیں، اسی لیے فی الحال یہ معاہدہ معطل کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ عراق پچھلی ایک دہائی سے اپنی بجلی کی بڑی ضرورتیں ایران سے گیس لے کر پوری کر رہا ہے۔ صرف 2024 میں ایران سے 9.
عراق کی بجلی کی طلب گرمیوں میں سب سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور روزانہ تقریباً 45 ملین کیوبک میٹر گیس درکار ہوتی ہے۔ ایران سے گیس نہ ملنے کے باعث ملک میں بجلی کی پیداوار میں تقریباً 3 ہزار میگاواٹ کی کمی آچکی ہے، جو تقریباً ڈھائی ملین گھروں پر اثر انداز ہوئی ہے۔
ترکمان ڈیل ناکام ہونے کے بعد عراق اب قطر اور عمان سے ایل این جی (LNG) درآمد کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے اور اس کے لیے ایک فلوٹنگ ٹرمینل لیز پر لینے کی تیاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے ٹوٹل انر جیز، بی پی اور شیورون جیسی بڑی تیل و گیس کمپنیوں کے ساتھ منصوبوں پر بھی دستخط کیے ہیں تاکہ مستقبل میں اپنی گیس کی پیداوار بڑھائی جا سکے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔
امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔
متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔
امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔