صبح صبح دعائیہ کلمات کے پیغامات اور ہم
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
صبح صبح انفرادی طور پر اور گروپ میں اجتماعی طور پر اس قدر نیک افعال، اعمال اور دعائیہ کلمات کے پیغامات کی بھرمار ہوتی ہے کہ آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اتنے سارے نیک لوگ معاشرے میں کہاں رہتے ہیں؟
اگر وہ اسی معاشرے میں رہتے ہیں تو معاشرے کا یہ حال کیوں ہے؟ اگر آپ کی عبادات مسجد کے باہر آپ کے روزمرہ کے افعال میں نظر نہیں آتی تو اسے عادت یا عادات تو کہا جاسکتا ہے عبادت یا عبادات نہیں کہہ سکتے۔
میرے ایک عزیز دوست نے میری تحاریر پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ میں روزمرہ کے معروف موضوعات کو چھوڑ کر معاشرے کے حساس موضوعات پر لکھتا ہوں کہ جس پر عام طور پر لکھاری لکھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ انھوں نے تو اجتناب سے بھی سخت لفظ استعمال کیا تھا پر میں نے اجتناب پر قناعت کرلی۔ میرا جواب یہ تھا کہ اگر ہم واقعی معاشرے میں مثبت تبدیلی چاہتے ہیں تو کسی کو تو ان موضوعات کا انتخاب کرنا ہوگا، جب کہ ہمیں اس بات کی بھی آگہی ہے کہ معاشرہ ایسی نشاندہی کرنے والے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔
ایک خاتون نے اپنے شوہر کےلیے لکھا کہ ’’میرا شوہر اتنا بھی برا نہیں ہے جتنا شناختی کارڈ میں نظر آتا ہے اور اتنا اچھا بھی نہیں جتنا فیس بک پر نظر آتا ہے‘‘۔ کوئی بھی معاشرہ نہ مکمل طور پر اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر برا ہوتا ہے۔ معاشرے میں افراد کی ایک مخصوص تعداد کہ جسے critical mass کہتے ہیں اگر وہ اچھائی کی جانب راغب ہے تو وہ معاشرہ اچھا کہلائے گا اور اگر یہی کریٹیکل ماس برائی کی جانب راغب ہو تو وہ معاشرہ برا کہلائے گا۔
موجودہ حالات میں ہمارے معاشرے کو اچھا کہنا خاصا مشکل کام ہے مگر یقین مانیے ہمارا معاشرہ اتنا بھی برا نہیں۔ اشرافیہ کی چوریوں کی وجہ سے معاشرے میں جو وسائل کی قلت ہوگئی ہے اس سے مجبور ہوکر معاشرے نے موجودہ رویہ اختیار کرلیا ہے۔ اگر وسائل کی تقسیم منصفانہ ہوجائے اور عدل کا نظام یہاں رائج کردیا جائے تو اس معاشرے کو بہت کم وقت میں ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہر محلے کی مساجد میں کسی بھی نماز میں جتنے نمازی ہوتے ہیں اگر وہ سورۃ فاتحہ کا ترجمہ پڑھ لیں اور اس پر خلوص دل سے اپنی روزمرہ کی زندگی میں عملدرآمد کرنا شروع کردیں تو یہ تعداد بھی اس محلے کےلیے کریٹیکل ماس ہوگی اور اس محلے کی کایا پلٹنے کےلیے کافی ہے۔ اس طرح سے رفتہ رفتہ پورا ملک سدھارا جاسکتا ہے لیکن اگر قوم نے منافقت ہی کرنی ہے تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں اور اس کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ پھر اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔
آخر میں حسب روایت ایک کہانی اور اختتام۔ اس کہانی میں تمام لوگ بشمول میرے جو صبح بخیر اور جمعہ مبارک کے پیغامات بھیجتے ہیں، ان کےلیے سبق ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک پاکستانی نے سویڈش لڑکی سے شادی کرلی لیکن لڑکی اپنے مذہب پر ہی قائم رہی۔ شادی کے بعد پاکستانی صاحب اسے اسلام اور اسلام کی تعلیمات کے بارے میں بتاتے رہے۔ وہ اسے بتاتے کہ اسلام محبت کا دین ہے، عفو و درگزر کا مذہب ہے۔ حسن و سلوک اور حسن معاملہ کا مذہب ہے۔ نفرت اور قطع تعلقی کو اچھا نہیں سمجھتا، رحم اور برداشت کی تعلیم دیتا ہے۔ بالآخر، ایک دن اس سویڈش لڑکی نے ان تعلیمات اور اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔
پاکستانی صاحب ایک بار چھٹیاں گزارنے پاکستان تشریف لائے تو اپنی سویڈش بیوی کو بھی ساتھ لیتے آئے۔ کوئی ایک ہفتہ اپنے خاوند کے گھر والوں کے ساتھ رہنے کے بعد سویڈش بی بی کہنے لگی کہ تم اپنے گھر والوں کو بھی اسلام کی تبلیغ کرو، تاکہ وہ بھی مسلمان ہوجائیں اور گھر کا ماحول بہتر ہوجائے۔
اس سے آگے شاید کچھ نہیں لکھا جاسکتا۔ کل جب آپ صبح بخیر کا پیغام بھیجیں تو اس کہانی کو ضرور یاد کیجیے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امن کے نام پر نیا کھیل!ح-ماس کو دھمکیاں اسرائیل کو نظرانداز
ویلاگ اسلام ٹائمز اردو کی پیشکش ہے، جس میں اہم خبروں سے متعلق مفید تبصرے پیش کئے جاتے ہیں۔ ہر ہفتے کے روز، مختصر و مفید ویلاگز، دیکھنے و سننے والوں کی خدمت میں پیش کئے جائیں گے۔ سامعین سے گزارش ہے کہ یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں اور اپنی مفید آراء سے مطلع فرمائیں۔ متعلقہ فائیلیںIslam Times V Log 01-11-2025 اسلام ٹائمز وی لاگ
The New Middle East Game: America’s Hidden Strategy for Control
امن کے نام پر نیا کھیل!ح-ماس کو دھمکیاں اسرائیل کو نظرانداز
امریکی منصوبہ،مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر نشانے پر،یو اے ای کا بھیانک کردار
داعش کی چوتھی نسل؟ عراق میں نئی چال بے نقاب،الیکشن کے قریب خون کی ہولی؟
ہفتہ وار پروگرام :اسلام ٹائمز وی لاگ وی لاگر: سید عدنان زیدی پیش کش: آئی ٹائمز ٹی وی اسلام ٹائمز اردو
پروگرام کا خلاصہ:
امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ میں “امن” کے نام پر نیا کھیل کھیلنے جا رہے ہیں۔
ایران–پاکستان تعلقات کی نئی سمت، فلسطین میں حماس کا موقف، ٹرمپ کا نام نہاد امن منصوبہ،
اور عراق میں جولانی کے ذریعے 20 ہزار تربیت یافتہ شدت پسندوں کی منتقلی —
کیا یہ سب ایک بڑے عالمی منصوبے کا حصہ ہیں؟
اس وی لاگ میں جانئے کہ کیسے امریکہ خطے میں سیاسی اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے
“امن” کے پردے میں “عدم استحکام” کو فروغ دے رہا ہے۔
یہ ایک غیر جانب دار تجزیہ ہے جو زمینی حقائق اور سفارتی بیانات کی بنیاد پر پیش کیا گیا ہے۔
مزید مستنند خبروں سے لمحہ بہ لمحہ آگاہی کے لیے وزٹ کیجئے ہماری ویب سائٹhttps://www.islamtimes.com/ur
سبسکرائب کیجئے ہمارے یوٹیوب چینل کو
فیس بک،ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پہ ہمیں فالو کیجئے۔
پروگرام کے بارے میں اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کیجیے کیونکہ آپ کی رائے ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔جزاک اللہ
اسلام ٹائمز ٹیم
#MiddleEastAnalysis
#GlobalPolitics
#IranPakistanRelations
#Geopolitics
#WorldAffairs
#PeaceAndPower
#RegionalStrategy
#PoliticalAnalysis
#NewsInsight