پاک سعودی دفاعی معاہدہ سے برادر ملکوں کے وسائل مجتمع ہوگئے، سردار مسعود
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
سٹی42: سابق صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے باہمی دفاعی معاہدہ کو خطے میں ایک اہم اسٹریٹجک اور انقلابی پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب محفوظ ہوگئے ہیں بلکہ دونوں ملک اب اپنی قوتوں اور وسائل کو مجتمع کرکے مشترکہ دفاع کو مؤثر بنانے کے قابل ہو گئے ہیں۔
اپنے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے بعد اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو اسے سعودی عرب پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اسی طرح اگر سعودی عرب پر کسی جانب سے حملہ ہوتا ہے تو وہ پاکستان پر حملہ شمار ہوگا۔
پاکستان نے کامن ویلتھ بیچ ہینڈ بال چیمپئن شپ میں سری لنکا کو شکست دیدی
سردار مسعود خان نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں اور سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب پاکستان کے عوام کے لیے عقیدت اور احترام کا مرکز رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نو ستمبر کے دن قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد خلیجی ریاستوں میں یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ اسرائیل ان کی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ بن چکا ہے۔ امریکی یقین دہانیوں کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو مسلسل اعلان کر رہے ہیں کہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود حماس کے نمائندوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
دہلی یونیوسٹی کا سٹوڈنٹ یونین الیکشن؛ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم کا قبضہ ہو گیا
انہوں نے کہا کہ قطر پر حملہ اچانک نہیں بلکہ منظم منصوبہ بندی کا حصہ تھا، جس میں ان فلسطینی مذاکرات کاروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جو امریکہ کی پیش کردہ امن تجاویز پر مذاکرات کرنے قطر کے وزیراعظم کی دعوت پر دوحہ میں موجود تھے۔ اس حملے کے ذریعے اسرائیل نے مذاکراتی عمل سبوتاژ کیا اور غزہ پر مزید تسلط قائم کرنے کے لیے وقت حاصل کرلیا۔
اسرائیل نے اس اقدام سے یہ پیغام بھی دیا کہ اب اسے ابراہیم معاہدے کی ضرورت نہیں رہی اور وہ خلیجی ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے طاقت کا استعمال کر سکتا ہے۔سردار مسعود خان نے کہا کہ مسلم اور عرب دنیا میں نیٹو طرز کا کوئی مشترکہ دفاعی میکنزم موجود نہیں ہے، اگرچہ کچھ عرصہ پہلے مشترکہ دفاعی شیلڈ بنانے کی تجویز زیر غور تھی لیکن باہمی اختلافات کی وجہ سے یہ عملی شکل اختیار نہ کر سکی۔
دارالحکومت میں 12 قسم کی سرگرمیوں پر پابندی، دفعہ 144 میں دو ماہ کی توسیع
انہوں نے کہا کہ اس وقت او آئی سی، عرب تعاون کونسل اور عرب لیگ جیسے پلیٹ فارم تو موجود ہیں لیکن یہ فوجی اتحاد نہیں بلکہ غیر عسکری مقاصد کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان اور سعودی عرب کا نیا دفاعی تعاون اسٹریٹجک اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے نتیجے میں نہ صرف دونوں ممالک بلکہ دیگر خلیجی ریاستیں بھی بالواسطہ طور پر محفوظ ہو گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس تعاون کو وسعت دی گئی تو مستقبل میں کوئی مشترکہ دفاعی نظام بن سکتا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ غزہ میں اب تک دو لاکھ افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں لیکن امت مسلمہ اجتماعی طور پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھا سکی، جبکہ مغربی ممالک کے عوام کی جانب سے احتجاج اور آوازیں زیادہ توانا ہیں۔
پاک سعودی ڈیفینس معاہدہ دونوں ملکوں کیلئے مثبت ہے؛ بلاول بھٹو
ان کے مطابق اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمان ممالک مغربی طاقتوں کے ساتھ ایسے معاہدوں اور تعلقات میں بندھے ہیں جن کے باعث وہ آزادانہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔پاک سعودیہ دفاعی معاہدے پر اسرائیل اور بھارت کے ممکنہ ردعمل پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے قطر پر حملے کے بعد تین بار پاکستان کا نام لیا ہے جو محض اتفاق نہیں۔
اسرائیل پاکستان کو اپنا مد مقابل بنانا چاہتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ پاکستان مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اس معاہدے سے خوفزدہ ہے کیونکہ وہ ماضی میں اسرائیل کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف جنگی کارروائیاں کرتا رہا ہے اور اب اس معاہدے نے اس کے عزائم ناکام بنا دیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بھارت پاکستان پر حملے کا ارادہ رکھتا تھا تاکہ اپنی حالیہ عسکری ناکامیوں کا بدلہ لے سکے لیکن نئے دفاعی معاہدے نے اس کے مذموم ارادوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
لاہور میں بونداباندی شروع
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: پاکستان اور سعودی عرب انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کہا کہ اس پر حملہ کے لیے
پڑھیں:
سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوگا، ہم حل نکال لیں گے: ٹرمپ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر اشارہ دیا ہے کہ سعودی عرب جلد ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوسکتا ہے۔
امریکی ٹی وی پروگرام “60 منٹس” میں گفتگو کے دوران اینکر نے سوال کیا کہ کیا سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اس معاہدے میں شامل ہونے پر آمادہ ہوگا؟ اس پر صدر ٹرمپ نے جواب دیا کہ انہیں یقین ہے کہ سعودی عرب بالآخر ابراہیمی معاہدے کا حصہ بن جائے گا۔ ان کے بقول، “ہم کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لیں گے۔”
دو ریاستی حل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ معاملہ “اسرائیل اور مجھ پر منحصر ہے۔”
ادھر وائٹ ہاؤس کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان 18 نومبر کو امریکہ کا دورہ کریں گے، جہاں ان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات طے ہے۔ دونوں رہنما دوطرفہ تعلقات، علاقائی صورت حال اور ممکنہ ابراہیمی معاہدے پر بات چیت کریں گے۔
امریکی میڈیا کے مطابق یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب پر اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ یاد رہے کہ 2020 میں طے پانے والے ابراہیمی معاہدوں کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔