امریکا نے فلسطین کو تسلیم کرنے کے عالمی فیصلوں کو ’نمائشی‘ قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا نے برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور حال ہی میں پرتگال سمیت کئی مغربی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلانات کو ’نمائشی اقدامات‘ قرار دیا ہے۔ واشنگٹن کے مطابق یہ اعلانات خطے میں حقیقی امن کی ضمانت نہیں بن سکتے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا کہ واشنگٹن کی اولین ترجیحات میں ’’سنجیدہ سفارت کاری‘‘ کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن قائم کرنا، اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانا اور یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی شامل ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ خطے میں دیرپا امن و ترقی صرف اس صورت ممکن ہے جب حماس کو اس عمل کا حصہ نہ بنایا جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد پرتگال نے بھی اسی مؤقف کو اپنایا۔ بین الاقوامی ذرائع کے مطابق آنے والے دنوں میں مزید ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں، جس سے فلسطین کے حق میں سفارتی حمایت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
اُدھر اسرائیل نے ان تمام فیصلوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ صہیونی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے حالیہ بیان میں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ کوئی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوگی اور اس کے برعکس مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کے منصوبے بدستور جاری رہیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سعودی عرب کی جدید ایف 35 لڑاکا طیارے خریدنے کی درخواست پینٹاگون نے منظور کر لی
واشنگٹن:سعودی عرب کی ایف-35 جنگی طیاروں کی خریداری کی درخواست نے پینٹاگون کے اہم مرحلے کو کامیابی سے عبور کر لیا ہے، اور یہ درخواست اب مزید منظوری کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ سعودی عرب نے امریکہ سے 48 جدید ایف-35 طیارے خریدنے کی درخواست کی ہے جو ایک ممکنہ اربوں ڈالرز کی سودے کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں فوجی توازن کو تبدیل کرنے کے امکانات کو جنم دے سکتا ہے اور اسرائیل کے معیاری فوجی برتری کے حوالے سے واشنگٹن کے نقطہ نظر کو چیلنج کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے اس سال کے شروع میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے براہ راست درخواست کی تھی اور یہ طیارے لاک ہیڈ مارٹن کی مصنوعات ہیں۔
پینٹاگون ابھی اس ممکنہ فروخت پر غور کر رہا ہے اور ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
اس فیصلے سے پہلے کئی مزید مراحل کی منظوری کی ضرورت ہوگی جن میں کابینہ کی سطح پر مزید اجازت، ٹرمپ سے فائنل منظوری اور کانگریس کو اطلاع دینا شامل ہے۔
پینٹاگون نے اس معاملے پر کئی ماہ تک کام کیا ہے اور اب یہ کیس دفاعی محکمہ کے سیکریٹری کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔
اس سودے کے حجم اور اس کی موجودہ حیثیت کے بارے میں ابھی تک عوامی طور پر تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
لاک ہیڈ مارٹن کے ترجمان نے کہا کہ فوجی فروخت حکومت سے حکومت کے درمیان معاملات ہیں اور اس پر بہترین طریقے سے واشنگٹن ہی جواب دے سکتا ہے۔