راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سے سیکڑوں ملازمین کی برطرفی، ورکرز کا بڑے احتجاج کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ماتحت سینیٹری پٹرول ورکرز نے سیکڑوں ملازمین کی برطرفی کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے بڑے احتجاج کا اعلان کر دیا۔
قائدین نے خبردار کیا ہے کہ ہمارے مطالبات تسلیم نہ ہوئے اور برطرف ملازمین کو فی الفور بحال نہ کیا گیا تو نہ صرف احتجاج کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا جبکہ احتجاج کو دھرنے میں تبدیل کر دیا جائے گا جو غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا۔
دوسری جانب، ملازمین کی برطرفی اور احتجاج کے باعث عالمی ادارہ صحت کی سرویکل کینسر کے خلاف مہم سمیت ڈینگی، پولیو، خسرہ اور ستھرا پنجاب مہم ختم ہونے کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔
اس ضمن میں پیر کے روز راولپنڈی آل اتحاد سینٹری پٹرول ضلع راولپنڈی کے زیر اہتمام ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے دفتر میں زبردست احتجاج کیا گیا۔ احتجاج میں اتحاد کے ضلعی صدر منیر معین، محمد شہباز عباسی، فیضان قریشی، مبشر، زرقا میر، سعدیہ بی بی، ناصرہ مسکین، سفیر جدون، سمینہ اشرف، ذیشان ستی سمیت بڑی تعداد میں مرد و خواتین ورکز نے شرکت کی۔
متاثرہ ملازمین نے معمولی کوتاہی پر ایک شوکاز کے بعد برطرفی سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی ایس او پیز کو فالو نہیں کیا جا رہا حالانکہ سنیٹری پٹرول ورکرز نے ہمیشہ کسی بھی مہم میں بڑھ چڑھ کر کام کیا یہاں تک کہ 12ربیع الاول کو بھی ہم نے انسانیت کی خاطر فرائض انجام دیے۔
ملازمین نے بتایا کہ 2015 سے ہم ملازمت کر رہے ہیں، دن رات کام کر کے صرف ایک ایکٹیویٹی پر ہمیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا، ہیلتھ ورکرز پر اگر پیڈا ایکٹ لگتا ہے تو محکمہ صحت کے افسران پر کیوں نہیں لگ سکتا۔ محکمہ صحت کے تمام افسران کی کرپشن کے ثبوت موجود ہیں جو انہوں نے ہم سے زبردستی کروائے ہیں، ہم نے کورونا میں دن رات محنت کی اور آج ہمیں نوکری سے فارغ کیا جا رہا ہے۔
ادھر رہنماؤں نے خبردار کیا کہ یہ ایک بڑے سفر کی شروعات ہے، یہ قدم محض احتجاج نہیں بلکہ حقوق کی بحالی کی پیش رفت ہے، احتجاج میں ورکرز کی شمولیت ملازمین کے بیدار و متحد ہونے کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جدوجہد عزت، انصاف اور وقار کی جنگ ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہم سیاسی انتقام نہیں بلکہ انصاف اور عزت کی بحالی چاہتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ہمارے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو احتجاج کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا، اگر ملازمین کو بحال نہ کیا تو احتجاج دھرنے میں تبدیل کرینگے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
NLFپاکستان کا گیپکو ملازمین کی شہادت پر اظہار افسوس
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گزشتہ روز کوٹلی لوہاراں میں پیش آنے والے ایک دلخراش حادثے میں گیپکو کے چار محنت کش اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر گئے۔ شہداء میں کلیم اللہ (ALM، سکنہ ہنوں گکھڑ)، عرفان احمد (ALM، سکنہ پتوکی)، راحیل (مکینک، سکنہ کجھوروال، عارضی ملازم) اور اکرم (سکنہ کوٹلی چندو، عارضی ملازم) شامل ہیں، جو محکمانہ غفلت اور حفاظتی اقدامات کی عدم فراہمی کے باعث دورانِ ڈیوٹی شہید ہوئے۔
نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، صدر این ایل ایف سیالکوٹ فریاد حسین شاہ اور جنرل سیکرٹری امانت علی خاکی نے شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات کی، فاتحہ خوانی کی اور لواحقین کو دلاسہ دیا۔ اس موقع پر انہوں نے کوٹلی لوہاراں گرڈ اسٹیشن کا بھی دورہ کیا جہاں گیپکو کے SE جمشید، XEN دانش چانڈیو، SDO اور دیگر افسران و ملازمین سے حادثے کی تفصیلات حاصل کیں۔
شمس الرحمن سواتی نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ المناک سانحہ محکمانہ غفلت اور بنیادی حفاظتی اصولوں (Safety Protocols) کی کھلی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔ حادثے کے وقت کھمبے کی تنصیب یا منتقلی کے لیے کوئی مشینری یا کرین فراہم نہیں کی گئی تھی، نہ ہی کام کرنے والے ملازمین کو ذاتی حفاظتی سامان (PPE: Personal Protective Equipment) جیسے انسولیٹڈ دستانے، ہارنس، ہیلمٹ اور وولٹیج ڈٹیکٹر مہیا کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ کسی سینئر سپروائزر کی موجودگی بھی یقینی نہیں بنائی گئی، جو NEPRA Safety Code 2022 اور Pakistan Electrical Safety Standards (PEES) کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی تنصیبات پر کام کرتے وقت Lockout/Tagout (LOTO) Procedure، لائن کلیئرنس، اور گراؤنڈنگ جیسے حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانا لازم ہے تاکہ اچانک بجلی بحال ہونے سے حادثات نہ ہوں۔ یہ سب حفاظتی اقدامات بین الاقوامی معیار، خصوصاً OSHA (Occupational Safety and Health Administration) Standards – 29 CFR 1910.269 کے مطابق لازمی قرار دیے گئے ہیں۔
شمس الرحمن سواتی نے حکومت اور گیپکو انتظامیہ سے درج ذیل مطالبات کیے:
شہداء کے ورثاء کو آرمی شہداء کے برابر مالی پیکج اور تمام مراعات دی جائیں۔
حادثے کی غیر جانبدارانہ انکوائری محکمہ سے باہر کے آزاد ماہرین پر مشتمل کمیٹی سے کرائی جائے۔
تمام فیلڈ اسٹاف کو جدید حفاظتی آلات (PPE) فراہم کیے جائیں اور ان کے استعمال کو سختی سے یقینی بنایا جائے۔
اسٹاف کی کمی پوری کی جائے تاکہ ملازمین کو اوورلوڈ نہ کیا جائے اور حادثات کے خطرات کم ہوں۔
تمام لائن اسٹاف کی ریگولر ٹریننگ اور ریفریشر کورسز NEPRA اور OSHA گائیڈ لائنز کے مطابق کرائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس حادثے پر بھی محکمے نے آنکھیں بند رکھیں تو یہ رویہ انسانیت سوز اور مجرمانہ غفلت تصور ہوگا۔ حکومت، عدلیہ، میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس مسئلے پر فوری ایکشن لینا ہوگا تاکہ آئندہ ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔