Express News:
2025-11-07@10:09:47 GMT

فلسطین،دو ریاستی حل کے لیے ممکنہ راہیں

اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT

برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے فلسطین کو آزاد، خود مختار ریاست تسلیم کرلیا جو دہائیوں پر محیط مغربی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔

برطانیہ نے بالفور ڈیکلیئریشن کے 108 سال بعد فلسطین کو ریاست تسلیم کیا ہے۔ یہ دو ریاستی حل کے لیے امید قائم رکھنے کی ایک کوشش ہے۔ اقوام متحدہ میں اب تک 140ممالک فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں جب کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے برطانیہ،کینیڈا اور آسٹریلیا کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوگی، مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کے اقدامات جاری رکھیںگے۔

 یہ ایک غیر معمولی لمحہ ہے جب برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے اہم مغربی ممالک نے فلسطین کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ اعلان صرف سفارتی سطح پر ایک تبدیلی نہیں بلکہ اس پوری عالمی سوچ میں ایک گہرا رخنہ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل کی پالیسیوں اور قبضے کو بلاواسطہ یا بالواسطہ قبول کرتی رہی ہے۔ اس فیصلے کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم اسے تاریخی پس منظر میں دیکھتے ہیں جس میں بالفور ڈیکلریشن، 1948 کی جنگ، النکبہ، 1967 کی قبضہ گیری اور اوسلو معاہدوں جیسے سنگ میل شامل ہیں۔

برطانیہ کا فیصلہ خاص طور پر تاریخی حوالوں سے بہت وزنی ہے۔ 1917 میں بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے برطانیہ نے ایک ایسے وعدے کی بنیاد رکھی تھی جس کے تحت یہودیوں کو فلسطین میں قومی گھر فراہم کیا جانا تھا، لیکن اسی وعدے میں ایک شرط بھی رکھی گئی تھی کہ اس سے مقامی غیر یہودی آبادی کے شہری اور مذہبی حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ وعدہ یکطرفہ نکلا۔ آج، 108 سال بعد، وہی برطانیہ اب فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر رہا ہے تو یہ محض سفارتی اقدام نہیں بلکہ ایک اخلاقی اعتراف بھی ہے، ایک بہت دیر سے سہی مگر درست قدم۔

کینیڈا اور آسٹریلیا کا اس فہرست میں شامل ہونا، اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی برادری کے وہ حصے جو کبھی مکمل طور پر اسرائیل کے حامی سمجھے جاتے تھے، اب اس یک طرفہ حمایت سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ان ممالک نے تسلیم کیا ہے کہ فلسطینی عوام کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو کسی بھی قوم کو ہونے چاہئیں آزادی، خود مختاری، سلامتی اور اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق۔

اس وقت تک دنیا کے 140 سے زائد ممالک فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں، لیکن مغربی دنیا کا حصہ سمجھے جانے والے یہ بڑے ممالک جب اس فہرست میں شامل ہوتے ہیں تو اس کے اثرات کہیں زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔ یہ صرف علامتی بات نہیں، بلکہ اس سے فلسطینی موقف کو وہ قانونی اور اخلاقی تقویت ملتی ہے جس کی طویل عرصے سے کمی تھی۔ اس فیصلے کے بعد اقوام متحدہ میں فلسطین کی آواز مزید مستحکم ہو گی اور اسرائیل کی مسلسل ہٹ دھرمی پر بھی عالمی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔

اس کے برعکس اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حسبِ معمول ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کبھی قائم نہیں ہوگی، اور مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کے منصوبے جاری رہیں گے۔ یہ بیان دراصل اس بات کی کھلی گواہی ہے کہ اسرائیلی قیادت اب بھی طاقت اور قبضے کی پالیسی پر یقین رکھتی ہے، نہ کہ مذاکرات، انصاف یا انسانی حقوق پر۔ اگر ایک طرف دنیا فلسطین کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کر رہی ہے، تو دوسری طرف اسرائیل اس تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلنے پر بضد ہے۔

اسرائیل کی پالیسیوں کا سب سے خطرناک پہلو یہودی آبادکاری ہے۔ مغربی کنارے میں سیکڑوں بستیاں قائم کی جا چکی ہیں جنھیں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔ ان بستیوں کا مقصد صرف زمین پر قبضہ کرنا نہیں بلکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے راستے میں عملی رکاوٹ کھڑی کرنا بھی ہے۔ جب اسرائیل زمین پر ایسی آبادیاں بناتا ہے جنھیں بعد میں ختم کرنا ممکن نہ ہو تو وہ دراصل دو ریاستی حل کو دفن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 اسرائیل کی ہٹ دھرمی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ وہ مشرقی یروشلم کو کبھی بھی فلسطینی دارالحکومت تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ یروشلم وہ مرکز ہے جہاں مذہب، سیاست، تاریخ اور عقیدت سب یکجا ہو جاتے ہیں، اگر کسی ریاست کی بنیاد ہی اس کے دارالحکومت کے بغیر رکھی جائے تو وہ نامکمل رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی عوام مشرقی یروشلم کو اپنی ریاست کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں اور جب تک اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک کسی بھی تسلیم کاری کی حیثیت محض رسمی رہے گی۔

 یہاں اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فلسطینی قیادت داخلی طور پر تقسیم ہے۔ الفتح اور حماس کی کشمکش، غزہ اور مغربی کنارے کی علیحدہ حکومتیں اور سیاسی انتشار فلسطینی کازکوکمزور کرتے ہیں۔ ایک مؤثر اور خود مختار ریاست کے لیے ضروری ہے کہ داخلی اتحاد ہو، حکومتیں شفاف ہوں، انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے اور دنیا کو دکھایا جائے کہ فلسطین ایک ذمے دار ریاست بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ بھی ضروری ہے کہ تسلیم کرنے والے ممالک محض زبانی دعوؤں پر اکتفا نہ کریں۔ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنا کافی نہیں، بلکہ ان ممالک پر لازم ہے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں کہ وہ قبضے کو ختم کرے، یہودی آبادکاریوں پر روک لگائے اور سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار ہو۔ یہ ممالک اگر واقعی امن کے علمبردار ہیں تو انھیں صرف بیانات کے ذریعے نہیں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے فلسطین کی ریاستی حیثیت کو مضبوط کرنا ہوگا۔

امریکا کی پوزیشن یہاں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، اگرچہ امریکا اب تک اسرائیل کی کھلی حمایت کرتا آیا ہے، لیکن دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور مغربی ممالک کی نئی پالیسیوں کے پیش نظر امریکا پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کی اندھی حمایت ترک کرے اور دو ریاستی حل کی طرف سنجیدگی سے قدم بڑھائے، اگر امریکا بھی فلسطین کو ریاست تسلیم کرلیتا ہے تو یہ دنیا بھر میں ایک واضح پیغام ہوگا کہ وقت بدل چکا ہے اور اب انصاف، امن اور قانون کی بالادستی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

یونیسف نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے لاکھوں بچے شدید صدموں کا شکار ہیں،غزہ میں بچوں کے درمیان ’دماغی جھلی کے خطرناک انفیکشن‘ کے بڑھتے ہوئے کیسز ایک نئی اور ہولناک انسانی تباہی کا پیش خیمہ ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا سیکڑوں بچوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔ دراصل قابض اسرائیلی کی مسلط کردہ جنگ اور محاصرے کے نتیجے میں غزہ کی صحت کی سہولیات تباہ ہو چکی ہیں۔ بچوں کے دودھ کی مسلسل قلت، شدید غذائی قلت اور قحط کے عالم میں بچوں کی کمزور ہوتی حالت نے صورتحال کو نہایت خوفناک بنا دیا ہے۔

بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی آبادی کو جان بوجھ کر بھوکا رکھنا اور ان کی بنیادی زندگی کی سہولتوں کو نشانہ بنانا کھلی درندگی کا ثبوت ہے۔ یہ انسانی المیہ دنیا کی بدترین تباہ کاریوں میں شمار ہونے لگا ہے اور اب اس کے سب سے کمزور اور معصوم شکار، یعنی بچے موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی یہ لمحہ غور و فکر کا ہے۔ ہم نے ہمیشہ فلسطینی کازکی حمایت کی ہے، لیکن ہمیں اب بین الاقوامی سطح پر مزید فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔

سفارتی سطح پر فلسطین کی حمایت کو منظم اور مؤثر بنانا چاہیے، مسلم ممالک کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کرنا چاہیے اور مغربی دنیا میں بیداری کی اس نئی لہر کا حصہ بن کر فلسطینیوں کی آواز کو عالمی فورمز پر مزید طاقت دینی چاہیے۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی، فلسطینیوں کی داخلی تقسیم، عالمی طاقتوں کی منافقانہ پالیسیاں اور زمین پر حقائق کی تلخی۔ یہ سب ایسی رکاوٹیں ہیں جو فلسطینی ریاست کے قیام کو مشکل بناتی ہیں، مگر اس کے باوجود، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی تسلیم کاری ایک نئی امید ہے۔

یہ اس امید کا اعلان ہے کہ دنیا کے طاقتور حلقے اب خاموش تماشائی نہیں رہیں گے، بلکہ وہ حق اور انصاف کی بنیاد پر فیصلے کریں گے۔ یہ تسلیم کاری اگرچہ فلسطینی ریاست کے قیام کا آخری قدم نہیں، لیکن یہ ایک بہت بڑا قدم ضرور ہے۔ یہ راستہ طویل ہے، مشکل ہے اور اس میں قربانیاں بھی درکار ہیں، مگر جب دنیا کے ضمیر میں حرکت پیدا ہو، تو ناممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ فلسطینی عوام نے دہائیوں تک مظالم سہے، ظلم برداشت کیا اور پھر بھی اپنی شناخت اور آزادی کی جدوجہد ترک نہیں کی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا ان کی اس قربانی کا عملی اعتراف کرے، اور انھیں وہ حق دے جو ہر قوم کو حاصل ہے اپنی زمین، اپنی ریاست اور اپنی تقدیر پر خود اختیار۔

 یہ لمحہ صرف فلسطین کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے، اگر اس موقع پر عالمی برادری نے واقعی انصاف کیا، تو نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں امن کی ایک نئی صبح طلوع ہو سکتی ہے اور اگر اس موقع کو بھی ضایع کر دیا گیا، تو پھر ظلم، نفرت اور انتقام کا جو دائرہ قائم ہو چکا ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہو پائے گا۔ اب یہ فیصلہ دنیا کو کرنا ہے کہ وہ تاریخ کے کس طرف کھڑی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطین کو ریاست تسلیم فلسطینی ریاست دو ریاستی حل اسرائیل کی کہ فلسطینی کینیڈا اور تسلیم کرنے کہ فلسطین اور مغربی نہیں بلکہ ہٹ دھرمی تسلیم کر کے ذریعے ریاست کے ہے کہ وہ نہیں ہو یہودی ا میں ایک ہے اور اور ان کے لیے

پڑھیں:

جموں و کشمیر میں ریاست کا درجہ بحال کرنے کیلئے حالات کو معمول پر لانا ہوگا، عارف محمد خان

بہار کے گورنر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ملک میں وزیراعظم سمیت ہر کوئی ریاستی حیثیت کی بحالی کی خواہش رکھتا ہے، تاہم ہمیں ایسا ہونے کیلئے معمول کی صورتحال پیدا کرنی چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ ریاست بہار کے گورنر عارف محمد خان نے کہا کہ جموں و کشمیر میں ریاست کا درجہ بحال کرنا ملک اور وزیراعظم نریندر مودی کی "متفقہ" خواہش ہے، لیکن اس بات پر زور دیا کہ حالات کو معمول پر لانا ضروری ہے، وہ ڈل جھیل کے کنارے ایس کے آئی سی سی (SKICC) میں "جموں و کشمیر میں امن، عوام اور امکانات" کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کے لئے سرینگر میں ہیں۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ملک میں وزیراعظم سمیت ہر کوئی ریاستی حیثیت کی بحالی کی خواہش رکھتا ہے، تاہم ہمیں ایسا ہونے کے لئے معمول کی صورتحال پیدا کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیئے کہ قانون کی عام حکمرانی اسی طرح لاگو ہو جس طرح کہیں اور ہو۔ عارف محمد خان نے کہا کہ کورونا وائرس کی ابتدا ایک مخصوص جگہ سے ہوئی لیکن اس نے پوری دنیا کو تباہ کر دیا۔ اسی طرح فسادیوں سے لاحق خطرہ صرف کشمیر کے لئے تشویش کا باعث نہیں ہے، یہ سب کے لئے تشویش کا سبب ہے۔

جموں و کشمیر کو ملک کا تاج قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کشمیر کو ایسی تکلیف دہ صورتحال سے گزرنا پڑا۔ گورنر نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے تقسیم کی قیمت چکائی، لیکن کشمیر نے سب سے زیادہ قیمت ادا کی۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں مجھے بتایا گیا کہ معصوم لوگ اکثر مصیبت کا شکار ہوتے ہیں، یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب فتنہ (بدامنی) پھیلتا ہے تو بے گناہوں کو بھی لامحالہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ انہون نے کہا کہ اس سے میرا دل ٹوٹتا ہے، لیکن صرف فسادیوں کو نشانہ بنانے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ بہار انتخابات کے بارے میں عارف خان نے کہا کہ 6 نومبر کو پہلے مرحلے کے لئے تیاریاں مکمل ہیں۔ انہوں نے انتخابات کو جمہوریت کا جشن قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت بہت مضبوط ہو چکی ہے۔ صدر دروپدی مرمو اور وزیر اعظم مودی کی مثالیں دیتے ہوئے خان نے کہا کہ خاندانی پس منظر اب کسی شخص کو حکمرانی کا حق نہیں دیتا۔

انہوں نے کہا کہ آج حکومت بنانے والوں کو بیلٹ کے ذریعے عارضی مینڈیٹ دیا جاتا ہے، وہ خودمختار نہیں ہیں، بلکہ عوام ہیں، یہ نظام ہمارے نوجوانوں کو امید کا ایک طاقتور پیغام دیتا ہے۔ اڈیشہ کی ایک خاتون، جسے زمین کے معاملے پر ایس ڈی ایم کے دفتر جانا پڑا، اب ہندوستان کی صدر ہیں۔ احمد آباد کے ایک سادہ گھر میں پیدا ہونے والا شخص یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے وزیراعظم کی حد ہے۔ شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ جموں و کشمیر میں امن پچھلے پانچ سالوں میں دی گئی قربانیوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اس تبدیلی کا سہرا وزیراعظم مودی کو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بندوق کی آواز کی جگہ بچوں کی ہنسی اور تعلیم نے لے لی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ معاشرہ قانون کی حکمرانی پر عمل نہ کرے اور امن ترقی اور پیشرفت کی شرط ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آسٹن ولا اور مکابی تل ابیب کے میچ کے دوران اسٹیڈیم کے باہر فلسطین کے حق میں بڑا احتجاج
  • صحافیوں کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیاگیا اسکا آئین میں ذکر نہیں
  • یونان-البانیہ کی سرحد پر مکڑیوں کا ممکنہ دنیا کا سب سے بڑا جال دریافت
  • جموں و کشمیر میں ریاست کا درجہ بحال کرنے کیلئے حالات کو معمول پر لانا ہوگا، عارف محمد خان
  • امریکا میں ریاستی انتخابات، ورجینیا اور نیوجرسی میں ڈیموکریٹس کی بڑی کامیابی
  • کالعدم ٹی ایل پی کے ٹکٹ ہولڈرز کا جماعت سے دستبرداری کا اعلان
  • کالعدم ٹی ایل پی کے ٹکٹ ہولڈرز کا پارٹی چھوڑنے کا اعلان
  • ٹی ایل پی ٹکٹ ہولڈرز کا جماعت سے دستبرداری کا اعلان
  • صدر زرداری کی سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سے ملاقات، خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام پر زور
  • امریکا کی 50 ریاستوں میں مقامی و ریاستی انتخابات کیلئے ووٹنگ کا آغاز