فلسطین،دو ریاستی حل کے لیے ممکنہ راہیں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے فلسطین کو آزاد، خود مختار ریاست تسلیم کرلیا جو دہائیوں پر محیط مغربی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔
برطانیہ نے بالفور ڈیکلیئریشن کے 108 سال بعد فلسطین کو ریاست تسلیم کیا ہے۔ یہ دو ریاستی حل کے لیے امید قائم رکھنے کی ایک کوشش ہے۔ اقوام متحدہ میں اب تک 140ممالک فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں جب کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے برطانیہ،کینیڈا اور آسٹریلیا کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوگی، مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کے اقدامات جاری رکھیںگے۔
یہ ایک غیر معمولی لمحہ ہے جب برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے اہم مغربی ممالک نے فلسطین کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ اعلان صرف سفارتی سطح پر ایک تبدیلی نہیں بلکہ اس پوری عالمی سوچ میں ایک گہرا رخنہ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل کی پالیسیوں اور قبضے کو بلاواسطہ یا بالواسطہ قبول کرتی رہی ہے۔ اس فیصلے کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم اسے تاریخی پس منظر میں دیکھتے ہیں جس میں بالفور ڈیکلریشن، 1948 کی جنگ، النکبہ، 1967 کی قبضہ گیری اور اوسلو معاہدوں جیسے سنگ میل شامل ہیں۔
برطانیہ کا فیصلہ خاص طور پر تاریخی حوالوں سے بہت وزنی ہے۔ 1917 میں بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے برطانیہ نے ایک ایسے وعدے کی بنیاد رکھی تھی جس کے تحت یہودیوں کو فلسطین میں قومی گھر فراہم کیا جانا تھا، لیکن اسی وعدے میں ایک شرط بھی رکھی گئی تھی کہ اس سے مقامی غیر یہودی آبادی کے شہری اور مذہبی حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ وعدہ یکطرفہ نکلا۔ آج، 108 سال بعد، وہی برطانیہ اب فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر رہا ہے تو یہ محض سفارتی اقدام نہیں بلکہ ایک اخلاقی اعتراف بھی ہے، ایک بہت دیر سے سہی مگر درست قدم۔
کینیڈا اور آسٹریلیا کا اس فہرست میں شامل ہونا، اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی برادری کے وہ حصے جو کبھی مکمل طور پر اسرائیل کے حامی سمجھے جاتے تھے، اب اس یک طرفہ حمایت سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ان ممالک نے تسلیم کیا ہے کہ فلسطینی عوام کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو کسی بھی قوم کو ہونے چاہئیں آزادی، خود مختاری، سلامتی اور اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق۔
اس وقت تک دنیا کے 140 سے زائد ممالک فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں، لیکن مغربی دنیا کا حصہ سمجھے جانے والے یہ بڑے ممالک جب اس فہرست میں شامل ہوتے ہیں تو اس کے اثرات کہیں زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔ یہ صرف علامتی بات نہیں، بلکہ اس سے فلسطینی موقف کو وہ قانونی اور اخلاقی تقویت ملتی ہے جس کی طویل عرصے سے کمی تھی۔ اس فیصلے کے بعد اقوام متحدہ میں فلسطین کی آواز مزید مستحکم ہو گی اور اسرائیل کی مسلسل ہٹ دھرمی پر بھی عالمی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
اس کے برعکس اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حسبِ معمول ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کبھی قائم نہیں ہوگی، اور مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کے منصوبے جاری رہیں گے۔ یہ بیان دراصل اس بات کی کھلی گواہی ہے کہ اسرائیلی قیادت اب بھی طاقت اور قبضے کی پالیسی پر یقین رکھتی ہے، نہ کہ مذاکرات، انصاف یا انسانی حقوق پر۔ اگر ایک طرف دنیا فلسطین کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کر رہی ہے، تو دوسری طرف اسرائیل اس تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلنے پر بضد ہے۔
اسرائیل کی پالیسیوں کا سب سے خطرناک پہلو یہودی آبادکاری ہے۔ مغربی کنارے میں سیکڑوں بستیاں قائم کی جا چکی ہیں جنھیں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔ ان بستیوں کا مقصد صرف زمین پر قبضہ کرنا نہیں بلکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے راستے میں عملی رکاوٹ کھڑی کرنا بھی ہے۔ جب اسرائیل زمین پر ایسی آبادیاں بناتا ہے جنھیں بعد میں ختم کرنا ممکن نہ ہو تو وہ دراصل دو ریاستی حل کو دفن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اسرائیل کی ہٹ دھرمی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ وہ مشرقی یروشلم کو کبھی بھی فلسطینی دارالحکومت تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ یروشلم وہ مرکز ہے جہاں مذہب، سیاست، تاریخ اور عقیدت سب یکجا ہو جاتے ہیں، اگر کسی ریاست کی بنیاد ہی اس کے دارالحکومت کے بغیر رکھی جائے تو وہ نامکمل رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی عوام مشرقی یروشلم کو اپنی ریاست کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں اور جب تک اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک کسی بھی تسلیم کاری کی حیثیت محض رسمی رہے گی۔
یہاں اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فلسطینی قیادت داخلی طور پر تقسیم ہے۔ الفتح اور حماس کی کشمکش، غزہ اور مغربی کنارے کی علیحدہ حکومتیں اور سیاسی انتشار فلسطینی کازکوکمزور کرتے ہیں۔ ایک مؤثر اور خود مختار ریاست کے لیے ضروری ہے کہ داخلی اتحاد ہو، حکومتیں شفاف ہوں، انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے اور دنیا کو دکھایا جائے کہ فلسطین ایک ذمے دار ریاست بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ تسلیم کرنے والے ممالک محض زبانی دعوؤں پر اکتفا نہ کریں۔ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنا کافی نہیں، بلکہ ان ممالک پر لازم ہے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں کہ وہ قبضے کو ختم کرے، یہودی آبادکاریوں پر روک لگائے اور سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار ہو۔ یہ ممالک اگر واقعی امن کے علمبردار ہیں تو انھیں صرف بیانات کے ذریعے نہیں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے فلسطین کی ریاستی حیثیت کو مضبوط کرنا ہوگا۔
امریکا کی پوزیشن یہاں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، اگرچہ امریکا اب تک اسرائیل کی کھلی حمایت کرتا آیا ہے، لیکن دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور مغربی ممالک کی نئی پالیسیوں کے پیش نظر امریکا پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کی اندھی حمایت ترک کرے اور دو ریاستی حل کی طرف سنجیدگی سے قدم بڑھائے، اگر امریکا بھی فلسطین کو ریاست تسلیم کرلیتا ہے تو یہ دنیا بھر میں ایک واضح پیغام ہوگا کہ وقت بدل چکا ہے اور اب انصاف، امن اور قانون کی بالادستی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
یونیسف نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے لاکھوں بچے شدید صدموں کا شکار ہیں،غزہ میں بچوں کے درمیان ’دماغی جھلی کے خطرناک انفیکشن‘ کے بڑھتے ہوئے کیسز ایک نئی اور ہولناک انسانی تباہی کا پیش خیمہ ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا سیکڑوں بچوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔ دراصل قابض اسرائیلی کی مسلط کردہ جنگ اور محاصرے کے نتیجے میں غزہ کی صحت کی سہولیات تباہ ہو چکی ہیں۔ بچوں کے دودھ کی مسلسل قلت، شدید غذائی قلت اور قحط کے عالم میں بچوں کی کمزور ہوتی حالت نے صورتحال کو نہایت خوفناک بنا دیا ہے۔
بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی آبادی کو جان بوجھ کر بھوکا رکھنا اور ان کی بنیادی زندگی کی سہولتوں کو نشانہ بنانا کھلی درندگی کا ثبوت ہے۔ یہ انسانی المیہ دنیا کی بدترین تباہ کاریوں میں شمار ہونے لگا ہے اور اب اس کے سب سے کمزور اور معصوم شکار، یعنی بچے موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی یہ لمحہ غور و فکر کا ہے۔ ہم نے ہمیشہ فلسطینی کازکی حمایت کی ہے، لیکن ہمیں اب بین الاقوامی سطح پر مزید فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
سفارتی سطح پر فلسطین کی حمایت کو منظم اور مؤثر بنانا چاہیے، مسلم ممالک کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کرنا چاہیے اور مغربی دنیا میں بیداری کی اس نئی لہر کا حصہ بن کر فلسطینیوں کی آواز کو عالمی فورمز پر مزید طاقت دینی چاہیے۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی، فلسطینیوں کی داخلی تقسیم، عالمی طاقتوں کی منافقانہ پالیسیاں اور زمین پر حقائق کی تلخی۔ یہ سب ایسی رکاوٹیں ہیں جو فلسطینی ریاست کے قیام کو مشکل بناتی ہیں، مگر اس کے باوجود، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی تسلیم کاری ایک نئی امید ہے۔
یہ اس امید کا اعلان ہے کہ دنیا کے طاقتور حلقے اب خاموش تماشائی نہیں رہیں گے، بلکہ وہ حق اور انصاف کی بنیاد پر فیصلے کریں گے۔ یہ تسلیم کاری اگرچہ فلسطینی ریاست کے قیام کا آخری قدم نہیں، لیکن یہ ایک بہت بڑا قدم ضرور ہے۔ یہ راستہ طویل ہے، مشکل ہے اور اس میں قربانیاں بھی درکار ہیں، مگر جب دنیا کے ضمیر میں حرکت پیدا ہو، تو ناممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ فلسطینی عوام نے دہائیوں تک مظالم سہے، ظلم برداشت کیا اور پھر بھی اپنی شناخت اور آزادی کی جدوجہد ترک نہیں کی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا ان کی اس قربانی کا عملی اعتراف کرے، اور انھیں وہ حق دے جو ہر قوم کو حاصل ہے اپنی زمین، اپنی ریاست اور اپنی تقدیر پر خود اختیار۔
یہ لمحہ صرف فلسطین کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے، اگر اس موقع پر عالمی برادری نے واقعی انصاف کیا، تو نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں امن کی ایک نئی صبح طلوع ہو سکتی ہے اور اگر اس موقع کو بھی ضایع کر دیا گیا، تو پھر ظلم، نفرت اور انتقام کا جو دائرہ قائم ہو چکا ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہو پائے گا۔ اب یہ فیصلہ دنیا کو کرنا ہے کہ وہ تاریخ کے کس طرف کھڑی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطین کو ریاست تسلیم فلسطینی ریاست دو ریاستی حل اسرائیل کی کہ فلسطینی کینیڈا اور تسلیم کرنے کہ فلسطین اور مغربی نہیں بلکہ ہٹ دھرمی تسلیم کر کے ذریعے ریاست کے ہے کہ وہ نہیں ہو یہودی ا میں ایک ہے اور اور ان کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کا مختلف ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا خیرمقدم
فائل فوٹونائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان فلسطینی ریاست کو فرانس، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال کی جانب سے تسلیم کیے جانے کا خیر مقدم کرتا ہے۔
اپنے بیان میں اسحٰق ڈار نے کہا کہ وہ تمام ممالک جنہوں نے فلسطین کو تاحال تسلیم نہیں کیا وہ بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست فلسطین کو تسلیم کریں۔
جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران فرانس کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ فرانس نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیا ہے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ آج انہوں نے فلسطین کے دو ریاستی حل سے متعلق اعلیٰ سطح کی کانفرنس میں شرکت کی ہے جو کہ فرانس اور سعودی عرب کی جانب سے مشترکہ طور پر چئیر کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جنہوں نے فلسطینی ریاست کو انیس سو اٹھاسی میں آزادی کے اعلان کے فوری بعد تسلیم کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کو تسلیم کیا جانا اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت فلسطینی عوام کا قانونی حق ہے۔ ان ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جانا خطے میں منصفانہ، جامع اور دیرپا امن کی جانب قدم ہے۔