Express News:
2025-09-23@00:07:22 GMT

افواہ سازی کے کھیل میں سیاسی استحکام

اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT

پاکستان کی سیاست اور جمہوریت پر مبنی مصنوعی نظام کا سب سے بڑا سیاسی المیہ افواہ سازی کا کھیل ہے۔اس کھیل میں پس پردہ ہونے والی سیاسی چالوں اور سیاسی سازشوں کی کہانی مختلف انداز سے ہمارے سامنے آتی ہے اور اس کو جو لوگ عملی طور پر پیش کرتے ہیں وہ بھی طاقت ور حلقوں کے قریب پائے جاتے یا وہ اس کا دعوی کرتے ہیں۔

اس کھیل کی بنیاد پر ہمارے سیاسی سطح کے پنڈت یا حکومتی نظام سے جڑے افراد ملک میں سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی پر مبنی استحکام کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ان کے بقول وہ یہ حقیقت رکھتے ہیں کہ ملک میں کچھ ہونے والا ہے اور اس غیر معمولی صورتحال میں جو کچھ ہوگا وہ بھی غیر معمولی نوعیت کا ہوگا۔ان کی سیاسی کہانی سننے کے بعد حکومتی نظام میں پہلے سے موجود غیر یقینی کیفیت میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

ایسے لگتا ہے کہ ہم معمول کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے بجائے سیاسی آنکھ مچولی یا سیاسی مہم جوئی کی بنیاد پر چلنے کا مزاج رکھتے ہیں ۔بہت سی تجاویز اور خیالات کی نوعیت موجودہ سیاسی اور جمہوری فریم ورک کے دائرہ کار سے باہر ہوتی ہیں اور ان کے بقول موجودہ فریم ورک میں حالات کی بہتری کے امکانات بہت زیادہ محدود ہیں ۔

معاشی ترقی اور قومی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے غیر یقینی یا سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنا ہماری ترجیحات کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے برعکس ہم سیاسی مسائل کا حل غیر سیاسی بنیادوں پر تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کچھ لوگ تو معاشی ترقی کے لیے سیاسی استحکام یا سیاسی نظام کے بجائے غیر سیاسی نظام یا غیر جمہوری حکومتوں میں رہ کر مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔

اگرچہ آج ہمارا دعوی ہے کہ ہم سیاسی ،معاشی ،سیکیورٹی بنیادوں پر نہ صرف عملا بہتر ہیں بلکہ علاقائی اور عالمی سفارت کاری میں بھی ہمارے لیے نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔اگر حکومت کا یہ بیانیہ درست ہے تو پھر حکومتی نظام کو بہتر طور پر چلانے اور بہتر نتائج میں کیا رکاوٹیں ہیں۔اگر ایک طرف سیاسی استحکام ہے تو پھر وہ کونسی اہم وجوہات ہیں جس کی بنیاد پر قومی سیاسی مفاہمت پر زور دیا جارہا ہے۔

کیوں یہ منطق دی جارہی ہے کہ سیاسی نظام کی بقا ہی اسی میں ہے سب سیاسی جماعتیں تمام تر اختلافات کو بھول کر یا ماضی کی سیاسی تلخیوں کو چھوڑ کر ایک ہوجائیں۔اسی طرح اگر معاشی پہیہ درست سمت میں چل پڑا ہے تو پھر اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی کیونکر ہے۔ایک طرف حکومت کا سیاسی بیانیہ ہے تو پھر دوسری طرف ہمیں حزب اختلاف کے طور پر بانی پی ٹی آئی یا پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں کا بیانیہ ہے۔ان دونوں بیانیوں میں ٹکراو کیونکر ہے اور کیا وجہ ہے دونوں فریقین ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو ہی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔

جب بھی سیاسی مسائل کا حل طاقت کی بنیاد پر تلاش کیا جائے گا تو سیاسی ماحول میں پیدا ہونے والی تلخیاں یا سیاسی تقسیم ہمیں آگے بڑھنے سے روکیں گی اور ہم کو نئے مسائل میں الجھادے گی۔لیکن شاید ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں اور پہلے سے موجود غلطیوں میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرکے ماحول کو اور تلخ کررہے ہیں۔ ایک طرف سیاست دان یا حکومت کھڑی ہے تو دوسری طرف کاروباری طبقہ تحفظات رکھتا ہے ۔یہ کاروباری طبقات موجودہ نظام پر اپنا عدم اعتماد پیش کررہا ہے۔

ان کے بقول موجودہ نظام میں معیشت کی ترقی کا کوئی امکان نہیں اور کاروبار کو مشکل بنادیا گیا ہے اور اسی وجہ سے سرمایہ کاری یا کاروباری ماحول متاثر ہورہا ہے۔ایک طرف 18ویں ترمیم پر تنقید اور اس میں 27ویں ترمیم کی بنیاد پر ترامیم اور نیشنل فنانس کمیشن کی تبدیلی یا نئے صوبوں کی تشکیل کی کہانی سیاسی منظر نامہ پر غالب ہے تو دوسری طرف باتیں ہورہی ہیں کہ اسی نظام میں تسلسل کو جاری رکھا جائے گا اور یہ تسلسل2032تک اسی طریقہ کار کے تحت جاری رہے گا اور کسی کو اس نظام کو ختم کرنے یا چھیڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

حکومت کے حامیوں کی جانب سے ہائبرڈ جمہوری نظام یا کنٹرولڈ جمہوری نظام کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ان کے بقول اس ملک کی ترقی کا مستقبل بھی ہائبرڈ نظام ہی سے جڑا ہوا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔یعنی قومی سطح پر اس بات پر ابھی تک اتفاق نہیں ہے کہ ہمیں کس نظام کے تحت اس ریاست کو چلانا ہے۔ایسے میں یہ نظام کیسے آگے بڑھ سکے گا خود اپنے اندر کئی سوالات اور تضادات رکھتا ہے۔

پاکستان میں سب سے زیادہ بات فرسودہ گورننس کے نظام اور موجودہ انتظامی ڈھانچوں پر ہورہی ہے اور خود عالمی رپورٹس بھی کہہ رہی ہیں کہ موجودہ نظام میں معاشی ترقی کے امکانات بہت کم ہیں ۔لیکن کوئی بھی جدید اصلاحات کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں اور سب ہی فریقین خود کو باقیوں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور دیکھنا چاہتے ہیں ۔یہ ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جہاںادارہ جاتی سطح پر ہمیں مختلف فریقین میں ٹکراو نظر آتا ہے۔ ہم اب بھی بضد ہیں کہ مرکزیت کی بنیاد پر ہی نظام کو چلانا ہے اور اختیارات کی مختلف سطح پر تقسیم کو اپنے سیاسی مفاد میں خطرہ سمجھتے ہیں۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اہل دانش اور علمی وفکری ماہرین ملک کو چلانے کا جو خاکہ پیش کرتے ہیں وہ اس ملک کے طاقت ور طبقات کو قبول نہیں اور وہ پرانے خیالات اور پرانے نظام کے ساتھ ہی کھڑے رہنے پر بضد ہیں۔جب بھی حکمرانی کے نظام میں کرپشن کے خاتمے یا بدعنوانی کے سدباب پر آواز اٹھائی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ سب سیاسی نعرے ہیں اور کرپشن کی سماجی یا سیاسی قبولیت پر زور دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آج کے سرمایہ دارانہ نظام کا یہ حصہ ہے۔اہم بات یہ ہے ملک میں سیاسی افواہوں کا بازار ہمیشہ گرم رہتا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر سیاسی نظام میں اکھاڑ بچھاڑ پر تو بات کی جاتی ہے۔

 جس انداز اور حکمت عملی سے ملک کے نظام کو چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جیسے حالات میں غیر یقینی اور کمزور نظام کی بنیاد پر ہم آگے بڑھنے کی باتیں کررہے ہیں اس سے سیاسی اور معاشی استحکام کی منزل اور دور چلی جائے گی۔سب سے پہلے ہمیں افواہوں کی بنیاد پر سیاسی نظام کو چلانے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ سیاسی مہم جوئی سے گریز کرکے مستقل بنیادوں پر بڑی سیاسی مشاورت کے ساتھ نظام کو بھی آگے بڑھانا ہوگا ۔ اسی بنیاد پر مضبوط بنیادوں پر اصلاحات کی مدد سے آگے بڑھنے ہی میں مجموعی طور پر ریاست اور عوام کا مفاد جڑا ہوا ہے،یہ ہی ہماری حکمت عملی ہونی چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی بنیاد پر بنیادوں پر سیاسی نظام ان کے بقول آگے بڑھنے ہے تو پھر ہے اور اس نہیں اور کرتے ہیں ایک طرف نظام کو ہیں اور نظام کی کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

بھارتی کھلاڑیوں نے ہاتھ نہ ملا کر چھوٹا پن دکھایا ہے؛ عطاء اللّٰہ تارڑ

ویب ڈیسک : وفاقی وزیرِ اطلاعات عطاء اللّٰہ تارڑ نے کہا ہے کہ سیاست اور کھیل کو الگ رکھنا چاہیے، بھارت جنگ میں فتح حاصل نہیں کر سکا تو کھیل میں ہاتھ نہ ملانے جیسی دشمنی کو لے آیا، بھارتی کھلاڑیوں نے ہاتھ نہ ملا کر چھوٹا پن دکھایا ہے اور خفت مٹانے کی کوشش کی۔

لندن میں نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے عطاء اللّٰہ تارڑ نے کہا کہ لندن میں وزیرِ اعظم کا گزشتہ روز کا اجتماع تاریخی تھا، وزیرِ اعظم پاکستان نے اوورسیز پاکستانیوں کی خدمات کا برملا اعتراف کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وقت قوم کو اکٹھا کرنے کا ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں جنگ میں بھی بڑی کامیابی سے نوازا، وزیرِ اعظم اور سپہ سالار کے ٹیم ورک کے سبب دنیا اب پاکستان کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

جلد کے ٹیٹوز سے اکتا کر چینی نوجوان دانتوں پر ٹیٹوز بنوانے لگے

انہوں نے مزید کہا کہ وزیرِ اعظم اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہمیشہ کی طرح کشمیر اور فلسطین کیلئے آواز اٹھائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دونئی سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن
  • الیکشن کمیشن میں دو نئی سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہو گئیں
  • بھارت جنگ نہ جیت سکا، کھیل میں دشمنی لے آیا: عطا تارڑ
  • خطے میں جاری بڑا کھیل
  • بھارتی کھلاڑیوں نے ہاتھ نہ ملا کر چھوٹا پن دکھایا ہے؛ عطاء اللّٰہ تارڑ
  • ’عمان کا بھارت کیخلاف شاندار کھیل‘، پاکستان کیا سیکھ سکتا ہے؟
  • کرکٹ سیاست کی زد میں
  • اللّٰہ کا خوف اور اچھا نظام چیزوں کو ٹھیک کرتا ہے،حافظ نعیم الرحمان
  • اللّٰہ کا خوف اور اچھا نظام چیزوں کو ٹھیک کرتا ہے: حافظ نعیم الرحمان