عالمی امداد یا خود انحصاری؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ملک میں حالیہ سیلابی صورتحال کے پیش نظر گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کے بڑے دلچسپ اور فکر انگیز بیانات میڈیا کی زینت بنے ہیں جن میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاھ نے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کے لیے اقوام متحدہ سے مدد کی فوری اپیل کرے، ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ جلد سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے متاثرین کی مدد کی جائے، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہر چند سال کے بعد ہمیں سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وزیراعظم سے کہتاہوں اقوام متحدہ کو ریلیف کے لیے فوری اپیل کی جائے۔ اس سے قبل پارٹی چیئرمین بلاول زرداری بھی یہ شکوہ کرچکے ہیں کہ انہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ اب تک وفاقی حکومت نے سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے عالمی اداروں سے اپیل کیوں نہیں کی ہے۔ انہوں نے ’ایکس‘ پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس نوعیت کی آفات کے وقت یہ ایک عالمی معیار ہے، ایسا پچھلے سیلابوں کے دوران کیا گیا تھا، جب میں وزیرِ خارجہ تھا، اس سے پہلے 2010 کے سیلاب اور 2005 کے زلزلے میں بھی یہی ہوا تھا۔ دنیا بھر کے ممالک اس طرح کی آفات کے بعد پہلے 72 گھنٹوں میں امداد کی اپیل کرتے ہیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ حکومت اس بار بیرون ملک امداد یا قرضوں کے بجائے خود انحصاری پر توجہ دے گی کیونکہ 2022 میں وعدوں کے بعد بھی دنیا نے امداد نہیں دی۔ اس لیے ہم خود انحصاری کو ترجیح اور کشکول کو خدا حافظ کہیں گے۔ وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا بھی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے بیانات پر ردعمل سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم سیلاب متاثرین کی مدد میں مصروف ہیں، اس لیے اتحادی سمجھ کر برداشت کررہے ہیں۔ اتحادی ہونے کا یہ مطلب نہیں اب آپ کے جعلی فلسفے اور ناکام تھیوریاں سنتے جا ئیں۔ پنجاب حکومت سیلاب متاثرین کی ہر قسم کی مدد اپنے وسائل سے کررہی ہے، سندھ میں ابھی سیلاب سے کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا، اس کے باوجود پیپلزپارٹی وفاق کو بیرون ملک سے امداد مانگنے پر فورس کررہی ہے وفاقی حکومت کا کشکول کے بجائے خود انحصاری کا فیصلہ اس حوالے سے خوش آئند ہے کہ وطن عزیز پہلے ہی حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات اندورنی و بیرونی قرضوں کے بوجھ اور بھکاری کے حوالے سے مشہور ہے، مزاحیہ پروگرامات اور ٹک ٹاک میں بھی اس حوالے سے ریاست کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ سیلاب سے لیکر قدرتی آفات کے موقع پر مستقل بنیادوں پر ٹھوس منصوبہ بندی اور خودانحصاری کے بجائے عوام کو بھکاری بننے کا عادی بنایا جاتا ہے۔ غریب وبے سہارا لوگوں کو کھانا کھلانے کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ، کچھ لوگ تو کراچی سمیت ملک بھر میں جاری لنگرخانوں کو بے سود اور لوگوں کو بیکار، نکمے اور بھکاری بنانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ کسی سیاستدان نے خوب کہا ہے کہ پاکستان میں لنگرخانے نہیں بلکہ کارخانوں کی ضرورت ہے۔ اس طرح بے نظیر انکم سپورٹ کو بھی اس تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ اس کے نام پرغریبوں کا پیسہ بااثر خاندانوں کی خواتین کو نوازنے اور بیوروکریسی کے ہڑپ کرنے کی خبریں بھی زبان زدعام ہیں، یاد رہے کہ اس سال بینظیرانکم سپورٹ پروگرم کے لیے بیس فی صد اضافہ کے 716 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس میں شفافیت اور ہنرمند افراد تیار کرنے کو ترجیح دی جائے۔
جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے حکومت سندھ کی جانب سے 21 لاکھ گھر سیلاب متاثرین کو بناکر دینے والے دعوے کو دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب سندھ سمیت پاکستان اس وقت بارش اور سیلاب میں نہیں ڈوبا ہوا بلکہ حکمران طبقے کی نااہلی اور نالائقی سے سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے جس سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اور انتظامی نااہلی کا اس سے اندازہ لگائیں کہ بارش کو ایک ہفتہ سے بھی زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود کراچی، حیدرآباد شہروں سمیت سندھ کے کئی علاقوں میں بارش کے پانی اور کیچڑ کی نکاسی نہیں کی جاسکی۔ کیچڑ کی وجہ سے بدترین ٹریفک جام اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ گلی محلوں میں جوھڑ کی طرح کھڑے پانی کی وجہ سے مچھروں کی بہتات اور وبائی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ان کے بقول پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ میں صرف لوٹ مار کے ’’سسٹم‘‘ کو مضبوط کیا اور سندھ میں 18 سال سے کرپشن میں ترقی کی۔ یہی وجہ ہے کہ تیل، گیس، کوئلہ، بجلی اور زراعت کی دولت سے مالا مال صوبے کے عوام آج غربت، بھوک اور افلاس کا شکار ہیں اور صاف پانی، صحت اور تعلیم جیسی سہولتوں سے محروم ہیں۔ قرضوں و بھیک سے ملک نہیں چلائے جاتے۔ اس وقت قرضوں کی معیشت سے ملک چلایا جارہا ہے۔ حکومت کی جانب سے ملکی ترقی اور معیشت کی بحالی کے دعووں کے باوجود مہنگائی کا طوفان ہے۔ آٹا، چینی، چاول اور سبزی پھلوں سمیت روزہ مرہ کی اشیاء خورو نوش کی قیمتیں عام عادمی کی دسترس سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ 44 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق موجودہ حکومت کے پہلے 16 ماہ میں قرضوں میں 13 ہزار 78 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ وفاقی حکومت کے قرضوں میں یہ اضافہ مارچ 2024 سے لے کر جون 2025 کے دوران ہوا، اسی عرصے میں وفاقی حکومت کا مقامی قرضہ 11 ہزار 796 ارب روپے بڑھا اسی طرح وفاقی حکومت کے بیرونی قرضے میں 1282 ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ وفاقی حکومت کا قرضہ جون 2025 تک 77 ہزار 888 ارب روپے رہا۔ اسی طرف ملکی بجٹ کا بڑا حصہ قرضے و سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ حادثات سے سیکھ کر نہ صرف اپنے آپ کو بحرانوں سے نکالتی ہیں بلکہ آگے بڑھ کر ملک وقوم کو ان خطرات سے بچانے و محفوظ کرنے کے لیے بھی ٹھوس و طویل مدتی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔
سندھ میں کرپشن چور بازاری ڈاکو راج میرٹ کا قتل اقربا پروری اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پہچان بنا ہوا ہے پیپلز پارٹی کے 18 سالہ دور اقتدار میں اس پہچان میں مزید اضافہ ہوا۔ 55 ارب سے شاہراہِ بھٹو اور 12 ارب روپے سے تعمیر ہونے والی نیو حب کینال کی تباہی کو بھی سائیں سرکار کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ دریائے کے بندوں کو محفوظ بنانے سیوریج اور سیم نالوں کی صفائی کے نام پر اربوں روپے ھڑپ کرنے سمیت محکمہ تعلیم اور ایریگیشن کی کرپشن اس کے علاوہ ہے۔ اور تو چھوڑیں پیپلز پارٹی کے دور میں ہونے والے سندھ پبلک سروس کمیشن پر بھی لوگوں نے سوال اٹھا دیے ہیں۔ کئی اْمیدوار میرٹ کے قتل اور پیسہ لیکر ناکام اْمیدواروں کو کامیاب کرنے خلاف عدالت جاچکے ہیں۔ سیلاب کی آڑ میں بیرونی امداد کے نام پر بھیک مانگ کر پر کرپشن ولوٹ مار کرکے پوری دنیا میں ملک کا عزت و وقار مجروح کرنے کے بجائے کشکول توڑ کر وفقی حکومت کا خود انحصاری کا فیصلہ خوش آئند اور عوامی امنگوں کے عین مطابق ہے۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بیرونی قرضوں، سودی نظام، کرپشن اور مفت خوری سے جان چھڑا کر سادگی و کفایت شعاری کی جانب قدم اپنی ذات سے شروع کرے۔ الحمدللہ! وطن عزیز تیل گیس پٹرول کوئلہ سونا زراعت سمیت قدرتی دولت ِ سے مالامال ہے۔ اصل مسئلہ نیت کا ہے اگر آج ہی حکومت دیانتداری سے مذکورہ بالا اقدامات شروع کردے تو کامیابی ان کے قدم چومے گی اور عوام کو مہنگائی ظلم و ناانصافیوں آٹے، چینی اور گندم جیسے بحرانوں سے بھی نجات ملے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سیلاب متاثرین وفاقی حکومت پیپلز پارٹی متاثرین کی حکومت کا ارب روپے کے بجائے کی جانب کے لیے
پڑھیں:
میئرمرتضیٰ وہاب کو گرین لائن منصوبے کے ٹھیکیدار پر اعتراض ہے، وفاقی حکومت
وفاق کا کام سندھ حکومت سے رابطے رکھنا ہے، اصل مسئلہمیئر اور ٹھیکیدار کے درمیان ہے، وفاق اپنا کام کرچکا ہے، ترجمان
کراچی والوں کو سہولیات دینا چاہتے ہیں،بیرسٹر راجہ انصاری کی گرین لائن منصوبے پر کام بند ہونے سے متعلق وضاحت
حکومت پاکستان کے ترجمان نے گرین لائن منصوبے پر کام بند ہونے سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میٔر کراچی کو ٹھیکدار کے این او سی پر تحفظات ہیں۔تفصیلات کے مطابق حکومت پاکستان کے ترجمان بیرسٹر راجہ انصاری نے گرین لائن منصوبہ پر کام بند کرنے سیمتعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میٔرکراچی کو ٹھیکیدار سے این اوسی پر تحفظات ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاق کراچی والوں کو سہولیات فراہم کرنا چاہتا ہے تاکہ کراچی کے لوگوں کو جلد سفری سہولیات میسر ہوں، وفاق نے گرین منصوبے کی توسیع کیلئے رقم فراہم کردی ہے۔راجہ انصاری نے کہا کہ منصوبے سے متعلق وفاق اورسندھ حکومت رابطے میں ہیں جبکہ وفاق بلدیاتی حکومت اور میٔرسے کوآرڈینیشن میں نہیں ہوتا۔ترجمان حکومت پاکستان نے کہا کہ وفاق نے سندھ حکومت سے تعاون کرکے منصوبہ تیزی سے مکمل کیا، گرین لائن کا توسیعی کام کا آغاز ہوچکا تھا، نمائش تا جامعہ کلاتھ منصوبہ پر تیزی کام چل رہا تھا۔راجہ انصاری نے کہا کہ چند روزقبل میں نے گرین لائن منصوبہ کی نگرانی بھی کی، اب میٔر صاحب وضاحت کریں گے کہ انہیں اعتراض کیا ہے، دراصل مسئلہ ٹھیکدار اور میٔر کراچی کے درمیان ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ وفاق نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے، ہم سندھ حکومت کے ساتھ مل کر لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں۔