جوا پروموشن کیس: یوٹیوبر سعدالرحمان عرف ڈکی کی ضمانت خارج ہونے کا حکم نامہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
عدالت نے جوا پروموشن کیس کے ملزم یوٹیوبر سعد الرحمان عرف ڈکی بھائی کی ضمانت خارج ہونےکا حکم نامہ جاری کردیا۔ضلع کچہری کے جوڈیشل مجسٹریٹ نعیم وٹو نے 3 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کیا۔حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ ایف آئی اے کےمطابق درخواست گزار بڑے پیمانے پرجوئے کی ایپلی کیشن کی پروموشن کررہا تھا، درخواست گزار کے لاکھوں کی تعداد میں نوجوان مداح ہیں،ایسے سوشل میڈیا انفلوئنسر کی کوئی بھی غلطی بڑے پیمانے پر معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔حکم نامے کے مطابق درخواست گزار نے کبھی انکار نہیں کیا کہ اس نے جوئے کی پروموشن نہیں کی، درخواست گزار سے جوئے کی پروموشن کی مد وصول میں 3لاکھ26ہزار 420 ڈالرز ملے۔حکم نامے کے مطابق درخواست گزار کے وکیل نہیں بتاسکےکہ رقم جوئے کی کمپنی سےنہیں ملی اور نہ ہی اس رقم کے ذرائع بتاسکے، درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ درج کیا گیا۔حکم نامے میں مزید کہا گیا ہےکہ درخواست گزار کے وکیل کے مطابق انکوئری کے دوران درخواست گزارکو نوٹس موصول نہیں ہوا، کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا جس سےثابت ہو کہ کسی کانقصان ہوا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: درخواست گزار کے
پڑھیں:
امریکی عوام کے ٹیکسز مزید اسرائیل کی غزہ کے خلاف جنگ پر خرچ نہیں ہونے چاہیے، ٹریبیون
روزنامے کے مطابق ریاستِ متحدہ 1948 سے اسرائیل کا سب سے قریبی حلیف ہے اور اس کی اقتصادی و عسکری امداد 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، یہ امداد جو منصوبے کے مطابق 2028 تک جاری رہے گی۔ اسلام ٹائمز۔ ایک امریکی روزنامہ نے اداریے میں لکھا ہے کہ جب تک غزہ میں جنگ بند نہیں ہوتی ہر گزرتے دن کے ساتھ سینکڑوں فلسطینی اپنی جانیں کھو دیتے ہیں، اور اس دوران واشنگٹن کی خاموشی خوفناک ہے۔ روزنامہ دی ٹریبیون نے اپنے اداریے میں زور دیا کہ یہ خاموشی امریکہ کی ساکھ کو کمزور کر رہی ہے۔ روزنامے نے یاد دہانی کروائی کہ غزہ پر حملے کے آغاز کو دو سال گزر چکے ہیں اور اس جنگ نے شہریوں پر بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے، محلے اور بستییں مکمل طور پر نقشے سے مٹ چکی ہیں، ہسپتال منہدم ہو گئے ہیں اور انسانی ادارے قحط کے بحران کے درمیان تنہا پڑ گئے ہیں۔
روزنامے کے مطابق ریاستِ متحدہ نے 1948 سے اسرائیل کا سب سے قریبی حلیف ہونا جاری رکھا ہوا ہے اور اس کی اقتصادی و عسکری امداد 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، ایسی امداد جو منصوبے کے مطابق 2028 تک جاری رہے گی۔ رپورٹوں کے مطابق، امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 بلین ڈالر عسکری امداد دیتا ہے، یہ رقم امریکہ کی تاریخ میں کسی ایک ملک کو دی جانے والی سب سے بڑی سالانہ امداد سے بھی زیادہ ہے۔ اداریے میں لکھا گیا ہے کہ جانی نقصانات اور جنگ کے تسلسل نے امریکہ اور اس کے پالیسی سازوں پر اخلاقی ذمہ داری ڈال دی ہے۔
واشنگٹن کی تل ابیب کے لیے بلاشرط حمایت نہ صرف انسانی اقدار سے دور ہے بلکہ دنیا میں امریکہ کی شبیہ کو بھی مسخ کر دیتی ہے اور اسے فلسطینیوں کی جانوں کا شریکِ جرم بناتی ہے؛ ایسی کیفیت جو روزنامے کے بقول بدلنی چاہیے۔ اداریہ آخر میں امریکی حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ اپنی بین الاقوامی ساکھ بحال کرنے کے لیے اتنی ہی حساسیت انسانی حقوق کے دفاع میں بھی دکھائے جتنی وہ اپنے ہتھیاروں کے بیڑے کی حفاظت میں دکھاتی ہے، امریکی عوام کے ٹیکس مزید اس قتلِ عام پر ضائع نہیں ہونے چاہئیں، یہ وسائل امن، سفارتکاری اور انسانی امداد کی حمایت پر خرچ ہونے چاہئیں، نہ کہ جنگ کے تسلسل پر۔