مصنوعی ذہانت کے نئے قلعے: ہزاروں ڈیٹا سینٹرز تیار، لاگت کتنی؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
دنیا بھر میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) کی بڑھتی ہوئی مانگ نے ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر اور توسیع کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت میڈیا اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری پر کیسے اثرانداز ہوگی؟ بین رپورٹ کا تجزیہ
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سرمایہ کاری بینک مورگن اسٹینلے کا کہنا ہے کہ اب سے لے کر سنہ 2029 تک دنیا بھر میں اے آئی ڈیٹا سینٹرز پر تقریباً 3 ٹریلین ڈالر (3 ہزار ارب ڈالر) خرچ کیے جائیں گے۔
اس میں سے آدھی رقم تعمیراتی اخراجات پر خرچ ہوگی جبکہ باقی آدھی رقم مہنگے ہارڈویئر پر لگے گی جواے آئی کی طاقت کو ممکن بناتے ہیں۔
صرف برطانیہ میں اگلے چند سالوں کے دوران 100 نئے ڈیٹا سینٹرز تعمیر کیے جانے کی توقع ہے جن میں سے کئی مائیکروسافٹ کے لیے ہوں گے جس نے حال ہی میں برطانیہ میں اے آئی سیکٹر میں 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔
روایتی ڈیٹا سینٹرز وہ جگہیں ہوتی ہیں جہاں ہماری تصاویر، سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور کاروباری ڈیٹا محفوظ ہوتا ہے۔ مگر اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کی بات کچھ اور ہے۔
مزید پڑھیے: ریستورانوں میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے آرڈرز لینا اکثر مضحکہ خیز بن جاتا ہے، جانیے کیسے؟
اے آئی کے بڑے ماڈلز، خاص طور پر لینگویج ماڈلز (ایل ایل ایم)، کو چلانے کے لیے انتہائی تیز رفتار، قریبی اور طاقتور کمپیوٹرز درکار ہوتے ہیں۔ ان میں استعمال ہونے والی نیویڈیا کی چپس کئی ملین ڈالرز مالیت کی ہوتی ہیں جنہیں انتہائی قریب ایک ساتھ نصب کیا جاتا ہے تاکہ پیرالل پروسیسنگ ممکن ہو سکے۔
یہ اے آئی کثافت ڈیٹا سینٹرز کی سب سے بڑی خوبی بھی ہے اور سب سے بڑا چیلنج بھی کیونکہ ہر چِپ کے درمیان صرف ایک میٹر کا فاصلہ بھی نینو سیکنڈ کی تاخیر پیدا کر دیتا ہے جو مجموعی کارکردگی پر اثر ڈالتی ہے۔
بجلی کی طلب میں زبردست اضافہایسے ڈیٹا سینٹرز میں طاقتور چِپس کی بڑی تعداد نصب ہوتی ہے جس سے گیگا واٹس کے حساب سے بجلی استعمال ہوتی ہے۔ اے آئی ماڈلز کی ٹریننگ کے دوران اچانک پیدا ہونے والی بجلی کی مانگ کو سینکڑوں گھروں کے بیک وقت کیٹل آن اور آف کرنے جیسا قرار دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: مضامین لکھوانے کے لیے مصنوعی ذہانت پر انحصار دماغ کو کمزور کرتا ہے، تحقیق میں انکشاف
ڈیٹا سینٹر انجینئرنگ کنسلٹنسی دی اپ ٹائم انسٹیٹیوٹ کے ڈینیئل بیزو کہتے ہیں کہ عام ڈیٹا سینٹرز کے مقابلے میں اے آئی کا لوڈ، پاور گرڈ پر ایک الگ ہی قسم کا دباؤ ڈالتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی تکنیکی چیلنج ہے بالکل ایسے جیسے اپولو پروگرام تھا۔
اس شدید توانائی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے مختلف کمپنیز نے متبادل راستے تلاش کیے ہیں۔
نیویڈیا کے سی ای او جینسن ہوانگ کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں وہ گرِڈ سے ہٹ کر گیس ٹربائنز کے استعمال کے حق میں ہیں تاکہ عام صارفین متاثر نہ ہوں۔
مائیکروسوفٹ نے توانائی کے منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جن میں تھری مائیلز آئی لینڈ پر نیوکلیئر پاور کی بحالی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیے: لیبارٹریوں میں تیار کردہ ‘مصنوعی دماغ’ کا حیران کن استعمال کیا ہے؟
گوگل کا ہدف ہے کہ وہ سنہ 2030 تک مکمل طور پر کاربن فری توانائی پر منتقل ہو جائے۔
امیزون ویب سروسز پہلے ہی دنیا میں تجدید پذیر توانائی کی سب سے بڑی خریدار ہے۔
ماحولیاتی اثرات اور تنقیداے آئی ڈیٹا سینٹرز پر بڑھتی توانائی کی مانگ کے ساتھ ساتھ ان کے ماحولیاتی اثرات پر بھی قانون ساز اداروں کی نظر ہے۔ خاص طور پر چِپس کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پانی کی بڑی مقدار درکار ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں: مزاح نگاری مصنوعی ذہانت کے بس کی بات نہیں، مصنفین
امریکی ریاست ورجینیا میں ایسے ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر کو پانی کے استعمال سے مشروط کرنے کا بل زیر غور ہے۔
برطانیہ کے لنکن شائر میں ایک اے آئی فیکٹری پر اینگلین واٹر نے اعتراض کیا ہے کیونکہ وہ گھریلو مقاصد کے علاوہ پانی فراہم کرنے کے پابند نہیں۔
کیا یہ سب باتیں ہیں۔
بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ موجودہ سرمایہ کاری کی رفتار ناقابل یقین ہے۔ ایک ڈیٹا سینٹر کانفرنس میں ایک ماہر نے تو اے آئی انڈسٹری کے دعووں کوایک نئی اصطلاح دیتے ہوئے کہا کہ یہ ’Bragawatts’ (شیخی خور واٹس) ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ناسا نے سورج کی سرگرمیوں کی پیشگوئی کے لیے مصنوعی ذہانت کا سہارا لے لیا
ڈی ٹی سی پی میں ڈیٹا سینٹر کے ماہر زحل لمبوالا جو ہیں کہتے ہیں کہ سرمایہ کاری کو آخرکار منافع دینا ہوتا ہے ورنہ مارکیٹ کو خود اپنی اصلاح کرنی پڑتی ہے۔
تاہم وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اے آئی کی اہمیت واقعی غیر معمولی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اے آئی کی اثر پذیری انٹرنیٹ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اور اس لیے ان ڈیٹا سینٹرز کی ضرورت بھی حقیقی ہے۔
اے آئی ڈیٹا سینٹرز ٹیکنالوجی کی دنیا کی نئی ’ریئل اسٹیٹ‘ بن چکے ہیں۔ اگرچہ ان پر آنے والی لاگت، توانائی کے مسائل اور ماحولیاتی خدشات اپنی جگہ موجود ہیں لیکن ان کا وجود اور افادیت حقیقی ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔
تاہم ماہرین متفق ہیں کہ اخراجات کا یہ طوفان ہمیشہ نہیں چلے گا اور وقت کے ساتھ ساتھ مارکیٹ خود کو متوازن کر لے گی۔
دنیا بھر میں اے اائی ڈیٹا سینٹرز کی موجودہ صورتحالدنیا بھر میں اس وقت تقریباً 11،800 فعال ڈیٹا سینٹرز موجود ہیں جو مختلف اقسام کی ڈیجیٹل سروسز فراہم کرتے ہیں جیسے کلاؤڈ اسٹوریج، ویب ہوسٹنگ، اور دیگر آئی ٹی خدمات۔ ان میں سے تقریباً 4،000 ڈیٹا سینٹرز ایسے ہیں جو خاص طور پر اے آئی ورک لوڈز کے لیے موزوں یا اے آئی آپٹیمائزڈ ہیں یعنی وہ جدید چِپس، ہارڈویئر اور نیٹ ورکنگ انفراسٹرکچر سے لیس ہیں تاکہ مصنوعی ذہانت کے بڑے ماڈلز کو تربیت دی جا سکے یا چلایا جا سکے۔
مزید پڑھیں: برطانیہ: بالغ شہریوں کی اکثریت مصنوعی ذہانت سے خوفزدہ کیوں؟
علاوہ ازیں دنیا بھر میں 1،100 سے زائد ہائپر اسکیل ڈیٹا سینٹرز موجود ہیں۔ یہ وہ بڑی سطح کی سہولیات ہیں جو کئی میگا واٹ سے لے کر گیگا واٹ تک توانائی استعمال کرتی ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد اے آئی کے لیے وقف یا مخصوص کی جا رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگلے چند سالوں میں اے آئی کی بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر مزید ہزاروں ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر متوقع ہے۔ اس پر خاص طور پر امریکا، چین، یورپ، اور برطانیہ جیسے خطوں میں ٹیکنالوجی کمپنیاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی ڈیٹا سینٹرز اے آئی ڈیٹا سینٹرز کی لاگت مصنوعی ذہانت ڈیٹا سینٹرز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے ا ئی ڈیٹا سینٹرز مصنوعی ذہانت ڈیٹا سینٹرز اے ا ئی ڈیٹا سینٹرز مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کی دنیا بھر میں سرمایہ کاری میں اے ا ئی اے ا ئی کی ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
چار سینیٹرز کا سائبر فراڈیوں کے ہاتھوں لٹنے کا انکشاف
چار سینیٹرز کا سائبر فراڈیوں کے ہاتھوں لٹنے کا انکشاف WhatsAppFacebookTwitter 0 6 November, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:(آئی پی ایس)
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں ایک کے بجائے چار چار سینیڑز کے فراڈیوں کے ہاتھوں لٹنے کا انکشاف ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹرز اپنے ساتھ ہونے والے فراڈز پر پھٹ پڑے۔ سینیٹر بلال خان مندوخیل، سینیٹر سیف اللہ ابڑو، سینیٹر دلاور خان اور سینیٹر فلک ناز چترالی کے ساتھ فراڈ ہونے کا انکشاف ہوا۔
سیینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں این سی سی آئی اے کے کرپشن کے معاملات بھی پہنچ گئے۔
این سی سی آئی کے افسران کے معاملات پر ایجنڈا ان کیمرا کیا گیا، ان کیمرا ایجنڈے میں پاکستانی شہریوں کا ڈیٹا آن لائن فروخت کرنے کا معاملہ بھی شامل تھا۔
اجلاس کی سربراہی چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل سلیم رحمانی نے کی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل سلیم نے بتایا کہ مجھے بھی فراڈیوں کی کال آئی، ہیکرز نے مختلف اراکین پارلیمنٹ کو آن لائن فراڈ کے ذریعے لاکھوں روپے کا چونا لگایا۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو کے مطابق ہیکرز کا یہ گروہ صرف پانچ یا ساڑھے پانچ لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کرتا ہے۔
ہیکرز نے سینیٹر فلک ناز چترالی، قادر مندوخیل اور سیف اللہ ابڑو کو چکرا کر رکھ دیا۔ ہیکرز ٹیلی فون کالز کے ذریعے سینیٹرز کو مکمل ڈیٹا بتا کر لاکھوں روپے کا چونا لگا گئے۔
سینیٹر دلاور خان سے ساڑھے 8لاکھ روپے لوٹ لیے گئے جبکہ سینیٹرز فلک ناز چترالی سے دو قسطوں میں ہیکرز پانچ لاکھ کا فراڈ کر گئے۔ خاتون سینیٹر کو فیصل نام کے بندے نے کال کرکے پیسے بٹورے۔
سینیٹر فلک ناز چترالی نے انکشاف کیا کہ ہیکرز نے کونسلنگ سینٹر بنانے کے نام پر کال کے ذریعے فراڈ کیا، ہیکرز کے پاس خاندان اور بچوں سے متعلق مکمل ڈیٹا موجود تھا۔
ممبر سینیٹ داخلہ کمیٹی نے بتایا کہ این سی سی آئی اے میں شکایات کے باوجود کوئی شنوائی نہ ہوئی۔
ڈی جی این سی سی آئی اے سید خرم علی نے سائبر کرائم افسروں پر رشوت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات پر بریفنگ دی۔
بریفنگ میں ڈی جی این سی آئی اے نے بتایا کہ تین ماہ کے اندر نئے لوگ ڈیپارٹمنٹ میں لے کر آئیں گے، جو ضرورت ہوگی اس کے مطابق بندے رکھے جائیں گے اور پرانے لوگوں کا بھی دیکھ رہے ہیں ان کا کیا کرنا ہے۔ این سی سی آئی اے کو مکمل بہتر کرنے میں چھ ماہ لگیں گے، ہماری کوشش ہے نیا ادارہ ہے بندے بھی نئے رکھیں جائیں۔
سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ این سی سی آئی اے میں پراسیکیوشن کا فقدان ہے، مقدمات تو درج ہو جاتے ہیں مگر آگے کچھ نہیں ہوتا۔
ڈیٹا لیک کا معاملہ
شہریوں کا ڈیٹا لیک ہونے کا معاملہ بھی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ میں پہنچ گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ شہریوں کا ڈیٹا لیک ہونے کے معاملے پر آپ نے کیا کیا ہے؟
ڈی جی این سی سی آئی اے نے بتایا کہ اس معاملے میں متعدد مقدمات درج ہوئے ہیں، 851 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، ٹیلی کام کمپنیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ہم ان کا آڈٹ بھی کر رہے ہیں، اس معاملے کو حل کرنے کے لیے تین ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
ڈیٹا لیک کے معاملے پر وزیر داخلہ کی بنائی جانے والی تفتیشی کمیٹی کے معاملے پر اسپیشل سیکرٹری داخلہ اور ڈی جی این سی سی آئی اے لاعلم نکلے۔
سینیٹر پلوشہ خان نے پوچھا کہ ڈیٹا لیک کے معاملے پر وزیر داخلہ نے تفتیشی کمیٹی بنائی تھی، اس کا کیا بنا؟ ڈی جی این سی سی آئی اے اور اسپیشل سیکرٹری داخلہ نے جواب دیا کہ اس طرح کی کوئی کمیٹی میرے علم میں نہیں۔
سینیٹر کے بھائی اور بھتیجے کے قاتلوں کی عدم گرفتاری
سینیٹر محمد اسلم ابڑو کے بھائی اور بھتیجے کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر چیئرمین کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی سندھ اور آئی جی بلوچستان کا کمیٹی میں نا آنا انتہائی نامناسب ہے، سندھ اور بلوچستان کے آئی جیز کو سخت نوٹسز جاری کرتے ہیں، اگر یہ دونوں آئی جیز آئندہ کمیٹی میں بھی نا آئے تو ہم سینیٹرز مل کر فیصلہ دیں گے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سینیٹر اسلم ابڑو اور سینیٹر سیف اللہ ابڑو کو فوری طور پر سیکیورٹی فراہم کی جائے، فوری کا مطلب ہے آج ہی ان دونوں سینیٹرز کو سیکیورٹی فراہم کریں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین اور ایران کا ایرانی جوہری مسئلے پر تفصیلی تبادلہ خیال سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ ڈکی بھائی اور دیگر سوشل میڈیا انفلوئنسرز سے رشوت لینےکے معاملے میں بڑی پیشرفت ستائیسویں آئینی ترمیم کی حمایت کے لیے ایم کیو ایم نے اپنے مطالبات وزیراعظم کے سامنے رکھ دیے ایمان مزاری اور ان کے شوہر ہادی علی چٹھہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ جسٹس گلگت بلتستان سردار شمیم کی مدت ملازمت میں توسیع پی پی رہنما خورشید شاہ کے خلاف نیب ریفرنس ایف آئی اے عدالت منتقلCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم