UrduPoint:
2025-09-24@14:29:50 GMT

سعودی عرب میں اس وقت بھی ہمارے1600 فوجی موجود ہیں. خواجہ آصف

اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT

سعودی عرب میں اس وقت بھی ہمارے1600 فوجی موجود ہیں. خواجہ آصف

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24 ستمبر ۔2025 )وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں دفاعی تعاون کی تاریخ رہی ہے، اس وقت بھی سعودی عرب میں تقریبا ہمارے 1600 فوجی موجود ہیں ایک انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ پہلے کئی ہزار پاکستانی فوجی سعودی عرب میں موجود ہوتے تھے، پہلی بار سعودی عرب اور پاکستان کے دفاعی تعاون کو ایک معاہدے کی صورت میں لایا گیا ہے.

(جاری ہے)

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ دفاعی تعاون مزید مضبوط کیا جائے گا، سعودی عرب میں موجودگی زیادہ بڑھے گی انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے غزہ کے معاملے پر ٹرمپ کی کوئی باقاعدہ تجویز آئی تو مسلم ممالک آپس میں مشورہ کریں گے، مسلم ممالک دیکھیں گے کہ پیس فورس بھیجنی ہے یا کنٹرول لینا ہے، غزہ میں اس وقت قیامت کی صورتحال ہے. خواجہ آصف نے کہا کہ افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی ہورہی ہے، افغان سرزمین سے حملوں میں ہمارے شہری اور فوجی شہید ہورہے ہیں، افغانستان ہمارے خلاف استعمال ہو تو دوست ملک کیسے کہا جاسکتا ہے فغانستان سے پاکستان کےخلاف دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی ہیں.

انہوں نے کہا کہ میں افغانستان دورے پر گیا تو افغان باشندوں کو واپس لینے کیلئے خرچہ مانگا گیا، ہم نے کہا خرچہ دینے کو تیار ہیں لیکن گارنٹی کیا ہوگی یہ واپس نہیں آئیں گے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر آپ کے گھر سے میرے گھر حملہ ہو تو کس طرح بھائی چارہ رہ سکتا ہے، اگر آپ کے گھر سے حملے ہوں اور ہم بھائی کہیں تو یہ منافقت ہوگی، افغان مہاجرین کی وجہ سے ہمارے ملک میں مسائل ہیں. وزیردفاع نے کہا کہ یہ بھڑکیں مارتے ہیں افغانستان جنت نظیر بن گیا ہے تو اپنے بندے واپس لیں، افغان باشندے ہمارے پرچم کو سلام نہیں کرتے، پاکستان زندہ باد نہیں کہتے، افغان باشندے پاکستان زندہ باد کے نعرے نہیں لگاتے بھائی کیسے کہیں. 

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواجہ آصف نے کہا کہ

پڑھیں:

ذہن کی پوشیدہ دنیا: ادراک و خیال کی نظروں سے اوجھل مناظر

انسان کا سب سے قدیم اور شاید سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ اکثر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم سب ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں، سب ایک جیسا دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟ کیا ہمارے مشاہدات اور تجربات بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں؟

جدید نفسیات، نیورو سائنس، اور فلسفے کی گہرائیوں میں جھانکیں تو ہمیں ایک الگ ہی تصویر نظر آتی ہے۔ بیرونی دنیا شاید ایک ہو، لیکن ہمارے اندر جو دنیا آباد ہے، جو منظر ہمارے ذہن میں بنتے اور بگڑتے ہیں، وہ ہر شخص کے لیے بالکل مختلف اور انوکھے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ’پوشیدہ سرزمین‘ ہے جہاں ہر کوئی اپنی الگ حقیقت میں زندگی گزار رہا ہے۔


ذہن کی فلٹرنگ: ہر سوچ ایک منفرد نظر

ہمارا ذہن کوئی خالی سلیٹ (Tabula Rasa) نہیں جس پر دنیا اپنی مرضی کے نقش بنا دے۔ یہ ایک فعال اور مسلسل فلٹر کرنے والا نظام ہے۔ ڈینیل کاہنیمن، جو کہ ایک مشہور ماہر نفسیات اور نوبل انعام یافتہ ہیں، نے اپنی کتاب 'Thinking, Fast and Slow' میں بتایا کہ ہمارا ذہن دو حصوں میں کام کرتا ہے: ایک حصہ تیز، جذباتی، اور غیر ارادی، جبکہ دوسرا حصہ سست، منطقی اور سوچے سمجھے فیصلے کرتا ہے۔ یہ دونوں حصے مل کر ہمارے ہر فیصلے اور سوچ کو شکل دیتے ہیں۔

ہمارا ماضی، ہماری یادیں، ثقافت، مذہب، ہمارے خوف اور ہماری امیدیں، یہ سب مل کر ایک خاص 'Perceptual Lens' بناتے ہیں۔ اس پرسیپچوئل لینز کو سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک ایسا ذہنی چشمہ ہے جو ہمیں ہر چیز کو اپنے مخصوص زاویے سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب کسی شہر میں کوئی احتجاجی مارچ ہوتا ہے تو ایک شخص کےلیے یہ ’جمہوریت کا حق‘ ہوسکتا ہے، جبکہ دوسرا اسے ’امن و امان کے لیے خطرہ‘ سمجھتا ہے۔ دونوں کی نظریں ایک ہی واقعہ دیکھ رہی ہیں، لیکن ان کی سوچ میں فرق ہوتا ہے۔ ان کا مشاہدہ اپنی جگہ Biased یا متعصب ہے۔ اسی طرح، ایک شاعر جب جنگل میں جاتا ہے تو اسے فطرت کی خوبصورتی اور اس کے گہرے جذبات نظر آتے ہیں، مگر اسی جنگل میں ایک کاروباری شخص صرف لکڑی کی قیمت اور اس کا ممکنہ منافع دیکھتا ہے۔ آنکھیں ایک ہی چیز دیکھ رہی ہیں، لیکن ان کے دماغوں میں بننے والی تصویریں مکمل طور پر مختلف ہیں۔


فلسفیانہ سوال: کیا ہم سب ایک ہی Tunnel میں قید ہیں؟

فلسفے میں یہ بحث صدیوں پرانی ہے۔ اٹھارہویں صدی کے فلسفی جارج برکلے کا مشہور قول "Esse est percipi" یعنی ’’کسی چیز کا وجود اس کے ادراک پر منحصر ہے‘‘ اس خیال کی بنیاد ہے۔ آج کل یہ سوچ 'Solipsism' کی شکل میں سامنے آتی ہے، جس کے مطابق ایک انسان اپنے ذہن کے علاوہ کسی اور وجود کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ شاید ایک انتہا پسندانہ سوچ ہو، لیکن یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہمارا اپنا وجود ہی ہمارے ہر تجربے کا محور ہے۔

ہم جو کچھ بھی جانتے ہیں، وہ ہمارے حواس خمسہ کے ذریعے ہمارے دماغ تک پہنچتا ہے۔ ہمارا دماغ ان سگنلز کو رنگ، آواز، اور احساس میں بدلتا ہے۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ ہماری حقیقت صرف ایک محدود اور ادھورا ورژن ہو؟ کیونکہ ہمارے حواس بھی تو محدود ہیں؛ ہم الٹرا وائلٹ روشنی نہیں دیکھ سکتے اور کتوں جیسی سننے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔


نیورو سائنس کی نئی روشنی,  ہمارا دماغ ایک تخلیق کار ہے

جدید نیورو سائنس کے مشہور نیورو سائنٹسٹ ڈیوڈ ایگلمین نے اپنی کتاب 'The Brain: The Story of You' میں اس بات کی وضاحت کی کہ ہمارا دماغ ایک ’بند اکائی‘ کی طرح ہے۔ یہ صرف برقی سگنلز کو وصول کرتا ہے۔ یہ سگنلز نہ تو روشنی ہوتے ہیں اور نہ ہی آواز، بلکہ ہمارا دماغ انہیں رنگوں، خوشبوؤں اور جذبات میں ڈھالتا ہے۔ اس لحاظ سے، ہماری پوری زندگی دراصل ایک ’شعوری تخلیق‘ ہے۔ ماہرِ اعصاب انیل سیٹھ کا 'Predictive Processing' کا نظریہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے، جس کے مطابق ہمارا ذہن مسلسل یہ پیش گوئی کرتا ہے کہ اسے باہر سے کیا محسوس ہونے والا ہے۔


تنازعات کی اصل وجہ، اپنی حقیقت کا غرور

یہ صرف ایک علمی یا فلسفیانہ بحث نہیں ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی، ہمارے سماجی جھگڑے، اور یہاں تک کہ بین الاقوامی تنازعات بھی اسی غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ ’’میری حقیقت ہی آخری اور حتمی حقیقت ہے‘‘۔ جب ہم یہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں کہ دوسرے انسان کا نقطہ نظر بھی اس کی اپنی ذہنی ساخت، اس کے ذاتی تجربات اور اس کی اپنی اندرونی دنیا کا نتیجہ ہے، تو بات چیت ختم ہوجاتی ہے اور تصادم شروع ہوجاتا ہے۔

تو پھر اس کا کیا حل ہے؟ حل یہ نہیں کہ ہم اپنی داخلی حقیقت کو چھوڑ دیں، کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں۔ اس کا حل تو اس حقیقت کو مان لینے میں پنہاں ہے کہ ’’ہر انسان اپنی اپنی دنیا میں رہ رہا ہے‘‘۔

یہی سوچ ہمیں ایک ایسی تواضع (Humility) عطا کرتی ہے، ایک ایسی انکساری دیتی ہے جس سے ہم دوسروں کے خیالات اور نقطہ نظر کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے ہم ان سے متفق نہ ہوں۔ یہی وہ بنیاد ہے جو صحت مندانہ تعلقات، مثبت گفتگو اور پرامن بقائے باہمی کو یقینی بناتی ہے۔ ہماری بیرونی دنیا کے مناظر شاید سب کے لیے ایک جیسے ہوں، لیکن ان سے کہیں زیادہ پراسرار اور وسیع سفر ہماری ان اندرونی دنیاؤں کا ہے، جنہیں ہمارا ذہن دیکھتا ہے۔ اس سچائی کو مان لینا ہی دراصل حقیقی دانشمندی کی پہلی سیڑھی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کو سنگین مسائل کا سامنا ہے؛ خواجہ آصف
  • سعودی عرب میں اس وقت بھی ہمارے1600 فوجی  موجود ہیں،   دفاعی تعاون مزید مضبوط کیا جائیگا:  خواجہ آصف 
  • پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی: کیا افغان طالبان کی ٹی ٹی پی پر گرفت کمزور ہوگئی؟
  • پاک سعودی دفاعی معاہدے کا ڈرافٹ کافی مشاور ت کے بعد فائنل ہوا،خواجہ آصف
  • دروازے پر دستک اور واپسی کا خوف: پاکستان میں افغان لڑکیوں کی مشکلات
  • برطانیہ میں فلسطینی مشن کی عمارت کو سفارتخانے کا درجہ مل گیا، فلسطینی پرچم بھی لہرادیا گیا
  • ذہن کی پوشیدہ دنیا: ادراک و خیال کی نظروں سے اوجھل مناظر
  • 1965 جنگ کا 22واں روز؛ معرکہ ڈوگرائی کیا ہے؟
  • بھارت نے آئندہ حملہ کیا تو سعودی عرب ہمارے ساتھ ہو گا، خواجہ آصف