پاکستان نے کرپٹو کرنسی ایکسچینجز کیلئے لائسنسنگ کا باضابطہ عمل شروع کردیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد میں پاکستان نے کرپٹو کرنسی کے حوالے سے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے عالمی کرپٹو ایکسچینجز کے لیے لائسنسنگ کا عمل شروع کر دیا ہے۔
ورچوئل ایسٹس ریگولیٹری اتھارٹی نے بین الاقوامی سروس فراہم کنندگان کو لائسنس کے لیے درخواست دینے کی دعوت دی ہے تاکہ ملک میں کرپٹو مارکیٹ کو باقاعدہ ریگولیٹ کیا جا سکے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا کی سب سے بڑی غیر منظم کرپٹو مارکیٹس میں شامل ہے، جہاں تقریباً 40 ملین صارفین موجود ہیں اور سالانہ تجارتی حجم 300 بلین ڈالر تک پہنچتا ہے۔ اس تناظر میں اتھارٹی کا قیام مارکیٹ کو عالمی معیار کے مطابق لانے اور مالیاتی خطرات پر قابو پانے کے لیے کیا گیا ہے۔
اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں کام کرنے کے خواہشمند کرپٹو پلیٹ فارمز کے لیے عالمی ریگولیٹرز سے لائسنس لازمی ہوگا۔ مزید یہ کہ درخواست دہندگان کو “Know Your Customer (KYC)” کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ اپنی کمپنی کی مکمل تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی۔ اس کا مقصد منی لانڈرنگ سمیت غیر قانونی مالیاتی سرگرمیوں کو روکنا اور فِن ٹیک کے شعبے کو محفوظ انداز میں آگے بڑھانا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف کرپٹو مارکیٹ کو ریگولیشن کے دائرے میں لایا جا سکے گا بلکہ پاکستان میں بین الاقوامی سرمایہ کاری اور نئے معاشی مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
ویب ڈیسک
شیخ یاسین
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
ذیابیطیس — پاکستان میں مرض بڑھنے کی وجوہات
14 نومبر کا دن عالمی سطح پر یومِ ذیابیطیس کے نام سے منایا جاتا ہے، تاکہ ذیابیطیس کے بڑھتے ہوئے رجحان، اس کے اثرات اور روک تھام کے اہم اقدامات کو اجاگر کیا جائے۔
اس موقع پر عالمی ادارے اور پاکستان دونوں نے مرض کے پھیلاؤ، علاج کی رسائی اور ممکنہ احتیاطی تدابیر کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ذیابیطس ایک ایسی طبی حالت کا نام ہے، جس میں مریض کے خون میں گلوکوز کی سطح کو کنٹرول کرنے کی قدرتی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے، اسی وجہ سے اس بیماری کو عرف عام میں شوگر کا مرض بھی کہا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ذیابیطیس کے مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ دنیا بھر میں 537 ملین (یعنی تقریباً 54 کروڑ) افراد ذیابیطیس کے مرض کا شکار ہو چکے ہیں، جن میں سے نصف سے زائد افراد علاج نہ کروانے والے ممالک میں ہیں۔
رپورٹس بتاتی ہیں کہ بالغ افراد میں ذیابیطیس کی شرح 1990 کے بعد تقریباً دگنی ہوچکی ہے۔ جبکہ 2030 تک یہ تعداد بڑھ کر 64 کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، جس سے بیماری کی بڑھتی ہوئی شدت کا اندازہ ہوتا ہے.
بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق نچلی اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں اس مرض کا پھیلاؤ تیز تر ہے جہاں علاج اور تشخیص کے وسائل محدود ہیں۔ پاکستان کی صورتحال مزید غیر مستحکم ہے۔
ذیابیطس کی عالمی فیڈریشن کے مطابق، پاکستان میں بالغ افراد میں ذیابیطیس کی شرح 30 فیصد سے زائد ہے اور تقریباً 34.5 ملین افراد ذیابیطیس کے مریض ہیں، اس اعتبار سے پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ شرح والا ملک ہے۔ پاکستان کا ہر چوتھا بالغ فرد اس بیماری کا شکار ہوچکا ہے۔
ایک مطالعے کے مطابق پاکستان میں ذیابیطیس کا اندازاً تناسب 14.62 فیصد ریکارڈ ہوا تھا، جبکہ پری ڈایابیٹیز (Prediabetes) کی شرح بھی 11 فیصد کے قریب ہے۔
بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے ڈیٹا کے مطابق 2021 میں اس مرض نے 40 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جان لے لی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام چین اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر آتا ہے۔
ذیابیطیس کے باعث دل کی بیماری، گردے کی ناکامی، بینائی کا نقصان اور ٹانگوں کی ناکارہ ہونے جیسی پیچیدگیاں عام ہیں۔ پاکستان کے اسپتالوں میں اکثر مریض بروقت تشخیص اور مناسب علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔
عالمی اور مقامی تحقیق کے مطابق، ذیابیطیس کی وبا کا سبب زیادہ وزن، جسمانی سرگرمی کی کمی، فاسٹ فوڈ کا بڑھتا استعمال، شہری زندگی کا مقام اور خاندانی اسباب ہیں۔ خصوصاً پاکستان میں شہری علاقوں میں یہ مسائل شدت اختیار کر رہے ہیں۔
یومِ ذیابیطیس 2025 کی تھیم کے مطابق یہ دن ’’ذیابیطیس اور خوشحالی‘‘ (Diabetes and Well-being) کے عنوان سے منایا جارہا ہے، جس میں خاص طور پر کام کی جگہ، ذہنی صحت اور جسمانی فلاح پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
اس سال پاکستان میں بھی سرکاری اور نجی اداروں نے ذیابیطیس کی تشخیص، آگاہی اور احتیاطی مہمات شروع کی ہیں تاکہ بیماری کے خاموش پھیلاؤ کو روکا جاسکے اور مریضوں کو بہتر علاج تک رسائی دی جا سکے۔