پاکستان کا معاشی ترقی کا ماڈل ناکام ہو رہا ہے، عالمی بینک
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 ستمبر 2025ء) عالمی بینک کی رپورٹ "ریکلیمِنگ مومینٹم ٹوورڈز پراسپرٹی: پاکستان کی غربت، مساوات اور لچک کا جائزہ" میں مزید انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کی ابھرتی ہوئی متوسط طبقہ آبادی، جو کل آبادی کا 42.7 فیصد ہے، ''مکمل معاشی تحفظ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ متوسط طبقہ بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے جیسے کہ محفوظ نکاسیٔ آب، صاف پینے کا پانی، سستی توانائی اور رہائش، جو پاکستان میں "کمزور عوامی خدمات کی فراہمی" کی نشاندہی کرتا ہے۔
ایک تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے 15 سے 24 سال کی عمر کے 37 فیصد نوجوان نہ تو ملازمت کر رہے ہیں اور نہ ہی تعلیم یا تربیت میں شامل ہیں، جس کی وجہ سے آبادی کا دباؤ اور مزدور منڈی کی طلب و رسد میں عدم توازن ہے۔
(جاری ہے)
اس رپورٹ کو، جسے پاکستان کے متعدد میڈیا اداروں نے شائع کیا ہے، کے مطابق "پاکستان کا ترقیاتی ماڈل جس نے ابتدا میں غربت کم کرنے میں مدد دی تھی، اب ناکافی ثابت ہوا ہے، اور 2021-22 سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
‘‘ کیا عالمی بینک اور آئی ایم ایف اس کے لیے ذمہ دار نہیں؟جب عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی اس ناکام ماڈل کی حمایت پر ذمہ داری کے بارے میں پوچھا گیا تو عالمی بینک کے سینئر ماہر معاشیات ٹوبیاس ہاک نے کہا کہ پاکستان نے کوئی ایک مخصوص معاشی ماڈل اختیار نہیں کیا جو عالمی بینک یا آئی ایم ایف نے مسلط کیا ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا، ''پاکستان کا کبھی امید افزا غربت میں کمی کا سفر اب رک گیا ہے اور برسوں کی محنت سے حاصل کردہ کامیابیاں ضائع ہو رہی ہیں۔
‘‘پاکستان میں عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر بولورما آنگابازر نے کہا کہ بینک یہ جاننا چاہتا ہے کہ غربت کی شرح ماضی کی طرح تیزی سے کم کیوں نہیں ہو رہی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں معیشت اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہی۔
رپورٹ کے مطابق "حالیہ دھچکوں نے غربت کی شرح کو مالی سال 2023-24 میں بڑھا کر 25.
رپورٹ نے پاکستان میں غربت کی دو مختلف شرحیں ظاہر کیں: قومی سطح پر غربت 25.3 فیصد ہے، جو آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے، لیکن بین الاقوامی غربت لائن کے مطابق یہ شرح 44.7 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
عالمی بینک کی غربت پر تحقیق کی ماہر کرسٹینا ویسر نے کہا کہ 2001 سے 2015 تک غربت میں اوسطاً سالانہ 3 فیصد کمی ہوئی، جو 2015-18 کے دوران کم ہو کر سالانہ صرف 1 فیصد رہ گئی۔
انہوں نے کہا کہ 2018 کے بعد مختلف دھچکوں، جن میں معاشی حالات کی خرابی شامل ہے، نے غربت میں اضافہ کیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2022 کے سیلاب سے غربت میں 5.1 فیصد اضافہ ہوا اور مزید 1.3 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ 2022-23 میں توانائی کی قیمتوں میں حکومتی اضافے کے باعث مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا جس نے گھرانوں کی قوتِ خرید اور حقیقی آمدنی کو شدید متاثر کیا۔
رپورٹ کے مطابق ترسیلاتِ زر اگرچہ گھرانوں کی فلاح میں مددگار ہیں لیکن یہ صرف آبادی کے ایک چھوٹے حصے تک پہنچتی ہیں۔ دیہی اور کم آمدنی والے گھرانے زیادہ تر اندرونِ ملک ترسیلات کے وصول کنندہ ہیں۔
مزدور منڈی میں زیادہ تر غیر رسمی اور کم اجرت والی ملازمتیں ہیں، جہاں 85 فیصد سے زیادہ روزگار غیر رسمی ہے۔ شہری مرد زیادہ تر تعمیرات، ٹرانسپورٹ یا تجارت میں کم اجرت والی ملازمتیں کرتے ہیں، جبکہ دیہی مرد جمود کا شکار زراعت چھوڑ کر کم پیداواری غیر زرعی کاموں کی طرف جاتے ہیں۔
عورتیں اور نوجوان بڑی حد تک مزدور منڈی سے باہر ہیں اور خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت صرف 25.4 فیصد ہے۔
حالات کیسے سدھر سکتے ہیں؟عالمی بینک نے کہا کہ زیادہ تر گھرانے نچلی سطح کی فلاح پر محدود ہیں، جس سے وہ دھچکوں کے لیے نہایت کمزور ہو جاتے ہیں۔ تاریخی طور پر پاکستان کا مالیاتی ڈھانچہ غربت اور عدم مساوات میں کمی کے لیے معاون نہیں رہا۔
پاکستان میں عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر بولورما آنگابازر نے کہا، ''یہ نہایت اہم ہے کہ پاکستان اپنی مشکل سے حاصل کردہ غربت میں کمی کے ثمرات کو محفوظ رکھے اور اصلاحات کو تیز کرے جو روزگار اور مواقع بڑھائے، بالخصوص خواتین اور نوجوانوں کے لیے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عالمی بینک کی پاکستان میں پاکستان کا کہ پاکستان نے کہا کہ زیادہ تر کے مطابق غربت کی کے لیے
پڑھیں:
دنیا عالمی درجہ حرارت میں اضافہ 1.5 ڈگری تک محدود رکھنے میں ناکام ، اقوام متحدہ
نیویارک (ویب ڈیسک) اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ دنیا اپنے اہم ماحولیاتی ہدف یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے میں ناکام ہوگئی ہے اور امکان ہے کہ آئندہ دہائی میں یہ حد عبور ہو جائے گی۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی سالانہ ’ایمی شنز گیپ رپورٹ‘ میں کہا گیا ہے کہ ممالک کی جانب سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سست اقدامات کے باعث اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ دنیا 2015 کے پیرس معاہدے کے بنیادی ہدف سے تجاوز کر جائے گی۔
یو این ای پی نے کہا کہ ’اس رجحان کو پلٹنا مشکل ہوگا، جس کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تیز تر اور بڑے پیمانے پر اضافی کمی درکار ہوگی تاکہ حد سے زیادہ درجہ حرارت میں اضافے کو کم سے کم کیا جا سکے۔‘
رپورٹ کی مرکزی مصنفہ این اولہوف نے کہا کہ اگر اب اخراج میں نمایاں کمی کی جائے تو درجہ حرارت کے حد سے تجاوز کرنے کا وقت مؤخر کیا جا سکتا ہے، لیکن اب ہم اس سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتے۔
2015 کے پیرس معاہدے میں ممالک نے عہد کیا تھا کہ صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت کے مقابلے میں عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھا جائے اور ہدف 1.5 ڈگری سیلسیس کا رکھا جائے، تاہم یو این ای پی نے کہا کہ حکومتوں کے تازہ ترین وعدوں کے مطابق اگر ان پر عمل کیا جائے تو دنیا کو 2.3 سے 2.5 ڈگری سیلسیس تک حرارت میں اضافہ برداشت کرنا پڑے گا۔
یہ اقوام متحدہ کی گزشتہ سال کی پیشگوئی کے مقابلے میں تقریباً 0.3 ڈگری کم ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ اس سال ممالک بشمول سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے ملک چین کی جانب سے کیے گئے نئے وعدے اس فرق کو کم کرنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں ہو سکے۔
چین نے ستمبر میں وعدہ کیا تھا کہ وہ 2035 تک اپنے اخراج کو عروج کے مقابلے میں 7 سے 10 فیصد تک کم کرے گا، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین عموماً محتاط اہداف طے کرتا ہے مگر اکثر انہیں عبور کر لیتا ہے۔
یہ نتائج اقوام متحدہ کے کوپ 30 ماحولیاتی اجلاس پر دباؤ بڑھا رہے ہیں، جو اس ماہ منعقد ہو رہا ہے، جہاں ممالک یہ بحث کریں گے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے تیز تر اور مالی اقدامات کیسے کیے جائیں۔
پیرس معاہدے کے درجہ حرارت سے متعلق اہداف سائنسی جائزوں پر مبنی تھے، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی حرارت کے ہر اضافی درجے سے ہیٹ ویوز، خشک سالی اور جنگلات میں آگ کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
مثلاً، 2 ڈگری حرارت میں اضافہ ہونے سے انتہائی گرمی کا سامنا کرنے والی آبادی کا تناسب 1.5 ڈگری کے مقابلے میں دوگنا سے زیادہ ہو جائے گا، 1.5 ڈگری کا اضافہ کم از کم 70 فیصد مرجان کی چٹانوں (کورل ریفس) کو تباہ کر دے گا، جبکہ 2 ڈگری پر یہ شرح 99 فیصد تک پہنچ جائے گی۔
دنیا نے کچھ پیش رفت ضرور کی ہے، ایک دہائی پہلے جب پیرس معاہدہ ہوا تھا تو زمین تقریباً 4 ڈگری درجہ حرارت کے اضافے کی راہ پر تھی، لیکن حرارت کا سبب والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ جاری ہے کیونکہ ممالک اپنی معیشتوں کو چلانے کے لیے کوئلہ، تیل اور گیس جلا رہے ہیں۔
یو این ای پی کے مطابق 2024 میں عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 2.3 فیصد اضافہ ہوا، جو 57.7 گیگاٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی ہے۔