پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی معاہدے کا عام آدمی کو کیا فائدہ ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہونے والے تاریخی معاہدے کو ناصرف سراہا جا رہا ہے بلکہ پاکستان میں عوام کے سعودی عرب سے توقعات بھی بڑھ گئی ہیں، کیوں کہ یہ معاہدہ اسلامی دنیا میں واحد ایٹمی طاقت پاکستان اور دنیا کے امیر ممالک کی فہرست میں شامل سعودی عرب کے مابین ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایک لاکھ 31 ہزار ملازمتیں، پاکستانی نوجوانوں کے لیے بڑی خوشخبری آگئی
عام پاکستانی سعودی عرب کے دفاع کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی معاشی اعتبار سے بھی اس معاہدے کو دیکھ رہے ہیں۔
سعودی عرب میں پاکستانی افرادی قوت
دنیا میں سب سے زیادہ پاکستانی افرادی قوت سعودی عرب میں ہے اور اسی وجہ سے سب سے زیادہ زرمبادلہ بھی برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے آتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس معاہدے کے بعد پاکستانی افرادی قوت میں اضافہ ہوگا اور زر مبادلہ بھی بڑھے گا؟ اگر ایسا ہے تو نوجوانوں کو کن شعبوں میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے؟
اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی رائے
اوور سیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر محمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہونے والا معاہدہ ایک اہم سنگ میل ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان میں موجود ہر فرد کے لیے بلکہ سعودی عرب میں موجود 24 لاکھ پاکستانیوں کے لیے بھی خوشی اور فخر کی بات ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے ہمارا سعودی عرب سے تعلق دفاعی، مذہبی اور معاشی اعتبار سے مضبوط ہوگا۔
افرادی قوت کے نئے مواقع
محمد عدنان پراچہ کے مطابق یہ معاہدہ ناصرف سعودی عرب میں موجود ہماری افرادی قوت کے لیے بلکہ پاکستان سے جانے والوں کے لیے بھی بہت اہم ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودیہ میں اقامہ اور ملازمت قوانین کی خلاف ورزی پر 14 ہزار 800 فیصلے
ان کا کہنا تھا کہ اب راستے کھلنے جا رہے ہیں۔ پہلے ہم زیادہ تر لیبر اور ڈرائیورز بھیجنے کے لیے مشہور تھے لیکن اب وہ چیز تبدیل ہو چکی ہے۔
وژن 2030 اور نئے شعبے
محمد عدنان پراچہ نے مزید کہا کہ وژن 2030 اور آنے والا فیفا ورلڈ کپ 2034 کی تعمیرات میں مواقع ہیں۔ ہاسپیٹیلٹی کی نوکریاں موجود ہیں، آئی ٹی پروفیشنلز، انجینئرز، پیرامیڈیکل اسٹاف اور ہیلتھ کیئر سیکٹر وہ شعبے ہیں جن میں پاکستانی جا سکتے ہیں۔
اس موقع پر سعودی عرب میں پاکستان کا کوٹہ باقی ممالک کے مقابلے بڑھ سکتا ہے جو اس وقت 5 لاکھ کے قریب ہے اور بڑھ کر 7 لاکھ تک ہو سکتا ہے۔
مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ سعودی عرب کی ترقی کے ساتھ پاکستان کو بھی زرمبادلہ حاصل ہو سکے۔
پاکستانی نوجوانوں کے لیے درخواست
محمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ میری درخواست ہے کہ پاکستان کی 52 فیصد یوتھ جو 20 سال یا اس سے زائد عمر کی ہے، اسے بہتر انداز میں سعودی عرب میں تعینات کرنے کے لیے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کو موقع دیا جائے۔
نوجوانوں کے مسائل
محمد عدنان پراچہ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر اور حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ اس وقت نوجوانوں کا ملک سے باہر جانے کا عمل مشکل بنا دیا گیا ہے اور خرچہ بڑھ چکا ہے۔
ٹیسٹنگ اور بائیومیٹرک کے مسائل
عدنان پراچہ نے کچھ مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ٹیسٹنگ سسٹم میں کرپشن ہو رہی ہے۔ بائیو میٹرک سسٹم کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں 5 بائیو میٹرک سینٹرز ہیں جو روزانہ 1800 یا 1900 بائیو میٹرک کرتے ہیں، لیکن گنجائش ناکافی ہے۔
ایک شخص کو شناختی کارڈ بناتے وقت، پاسپورٹ بنواتے وقت اور ملک سے باہر جانے کے لیے بار بار بائیو میٹرک کرانا پڑتا ہے۔
فیس 1500 روپے ہے لیکن لوگ 7 سے 10 ہزار روپے دینے پر مجبور ہیں کیوں کہ انہیں ویزا ایکسپائر ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔
میڈیکل رپورٹس اور تاخیر
عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ میڈیکل کراتے وقت ایک بڑا مسئلہ رپورٹس کے پینڈنگ ہونے کا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب میں ملازمت کے بڑے مواقع، پاکستانی کیسے فائدہ اٹھاسکتے ہیں؟
ان کا کہنا ہے کہ میڈیکل کے بعد سعودی کمپنیاں 25 روز میں ہائرنگ مکمل چاہتی ہیں لیکن یہاں کرپشن کی وجہ سے رپورٹس میں جان بوجھ کر تاخیر کی جاتی ہے۔ ان مشکلات کو دور کیا جائے تاکہ باہر جانے والے پاکستانی آسانی سے ملک سے جائیں اور جا کر پاکستان کا نام روشن کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افرادی قوت اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز سعودیہ ملازمت عدنان پراچہ میڈیکل ویژن 2030.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افرادی قوت سعودیہ ملازمت عدنان پراچہ میڈیکل ویژن 2030 سعودی عرب کے مابین محمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بائیو میٹرک کہ پاکستان افرادی قوت کے لیے
پڑھیں:
خطے کی نئی کروٹ
خطے نے ایک نئی کروٹ لی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ہو گیا ہے۔ اس طرح خطے میں پاکستان کا کردار ایک مضبوط عسکری طاقت کی حیثیت سے مستحکم ہوا ہے جو اپنے اس تازہ تعارف کے بعد بین الاقوامی کھلاڑی کی حیثیت سے اپنا کردار مستحکم کر سکے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مئی کی مختصر پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے حریف کو جس انداز میں شکست سے دوچار کیا ہے، دنیا نہ صرف اسے تسلیم کر رہی ہے بلکہ اس کے علاقائی اور عالمی کردار کا انتظار بھی کر رہی ہے۔ پاکستان ایک طویل عرصے کے بعد عالمی منظرنامے پر اس انداز میں نمایاں ہوا ہے۔
پاکستان کے نئے ممکنہ کردار سے جو امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں، کیا وہ قرینِ حقیقت ہیں؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی ملک اس وقت تک کوئی عالمی کردار ادا نہیں کر سکتا جب تک اس کے داخلی حالات مستحکم نہ ہوں اور حکومت کو حزبِ اختلاف کی طرف سے کوئی خطرہ نہ ہو۔
اس حقیقت میں تو کوئی کلام نہیں ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف وسیع عوامی حمایت رکھنے کے باوجود حکومت کے لیے چیلنج نہیں بن سکی۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ یہ جماعت اور اس کے بانی عوامی حمایت رکھتے ہیں لیکن بعض وجوہ سے وہ بے اثر رہے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت اور ریاست کی مخالفت کے درمیان کوئی حدِ فاصل قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ملک نے جب بھی اقتصادی استحکام کے لیے کوئی سرگرمی کی، اس جماعت نے اسے ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ پھر نو مئی کا واقعہ تو ایسا ہے جس کے بارے میں خود بھارتی تجزیہ کار یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ بھارت پاکستان کو اتنا نقصان پہنچانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکا، جتنا نقصان پاکستان تحریکِ انصاف نے پہنچا دیا۔
اس جماعت کی تیسری ناکامی یہ ہے کہ وہ غزہ، ایران اور قطر پر اسرائیلی حملے کے مواقع پر اسرائیل کی مذمت کرنے میں قوم کی آواز میں اپنی آواز شامل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کا سبب کیا اس جماعت کے نظریات ہیں، بیرونِ ملک اس کے نظریاتی اتحادی ہیں یا کچھ اور؟ پاکستانی عوام اس انداز میں سوچنے لگے ہیں۔ یہ صورتِ حال پی ٹی آئی کے لیے خوش گوار نہیں ہے۔
مئی کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر پی ٹی آئی کے لیڈروں یعنی عمر ایوب وغیرہ نے ایسا طرزِ عمل اختیار کیا تھا جس کے بارے میں ان کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ یہ ملک اور قوم کا مورال ڈاؤن کرنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی۔ اس مرحلے پر جب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدہ ہوا ہے، یہ جماعت اس پر تنقید کرتی ہے تو اسے اسی پس منظر میں دیکھا جائے گا جس کے نتائج اس جماعت کے لیے خوش گوار نہیں ہوں گے۔
اس تجزیے کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ جماعت اس معاہدے کی مخالفت کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ ویسے بھی اس کے حامی حلقے اس معاہدے کے بارے میں سوشل میڈیا پر جو انداز اختیار کر رہے ہیں، وہ پاکستانی مزاج سے زیادہ بھارتی مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ اس طرح اس جماعت کے بے لگام کی بورڈ وارئیرز نے اپنی جماعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ اس صورتِ حال میں حکومت کو پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے۔
اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کو ممکنہ طور پر جو اقتصادی فوائد مل سکتے ہیں، ان کے بعد تو حکومت زیادہ آسانی محسوس کرے گی۔خبریں ہیں کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جلد پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس موقع پر وہ یہاں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا آغاز کریں گے۔
اس رقم میں اضافے کے امکانات بھی ہیں۔ اس اقتصادی پیش رفت کے بعد حکومت اگر عوام کو اقتصادی دبا ؤسے نکالنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور انھیں بجلی اور دیگر ضروریاتِ زندگی سمیت کچھ دیگر شعبوں میں کوئی بڑا ریلیف دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اب داخلی سیاسی استحکام کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔ پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدے کی کامیابی کے لیے یہ بڑی مضبوط بنیاد ہ ے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی دنیا میں اس معاہدے کو کوئی چیلنج درپیش ہو گا؟ بعض حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس معاہدے سے پاکستان کا پڑوسی ایران اور سعودی عرب کا پڑوسی یمن بے چین ہو سکتے ہیں۔ اس معاہدے کے خلاف یہ دلیل پیش کرتے ہوئے یہ حقیقت ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ایران و سعودی عرب کے تعلقات ان دنوں ماضی کی طرح معاندانہ نہیں بلکہ خوش گوار ہیں۔ اس کے علاوہ معاہدے سے قبل سعودی عرب نے ایران کو انتہائی اعلیٰ یعنی وزیرِ خارجہ کی سطح پر اعتماد میں لیا ہے۔
اس ضمن میں پاکستان کا معاملہ تو ویسے ہی بہت بہتر ہے۔ حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں پاکستان ایران کی پشت پر کھڑا رہا جس کے لیے ایران کے صدر نے پاکستان کا دورہ کر کے اس کا شکریہ ادا کیا۔ اس پس منظر میں ایرانی تحفظات والا اعتراض وزن کھو دیتا ہے، خاص طور پر اس وضاحت کے بعد کہ یہ معاہدہ کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ معاہدہ صرف اس ملک کے خلاف ہے جو سعودی عرب پر حملہ آور ہو گا۔ کیا ایران ایسا ارادہ رکھتا ہے؟ اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاک بھارت جنگ کے موقع پر پی ٹی آئی کے کی بورڈ وارئیرز نے جس طرح اپنی جماعت کو نقصان پہنچایا۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ عالمی قوتیں، خاص طور پر چین، اس معاہدے کی حمایت کرتا ہے۔ اگر چین اس معاہدے کے ساتھ کھڑا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کے مفادات محفوظ ہیں۔
کیا اس معاہدے سے یمن کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے؟ پاکستان کے ماضی کے طرزِ عمل اور معاہدے کے بارے میں دونوں ملکوں کی وضاحت کے بعد اس کا امکان بھی بہ ظاہر دکھائی نہیں دیتا۔
آپھر یہ معاہدہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ پاکستان کی اہمیت اور قوت کا اعتراف ہے۔ اس معاہدے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ حالیہ عالمی بحرانوں، خاص طور پر اسرائیلی عزائم کے ضمن میں بھارت کی مکاری اور منافقت بے نقاب ہو گئی ہے۔ اس لیے مسلم دنیا اب بھارت پر اعتماد کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ اس وجہ سے اگر مزید عرب ملک پاکستان کے ساتھ سعودی عرب جیسا معاہدہ کرتے ہیں ہیں تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
بعض لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا سعودی عرب بھارت سے تعلقات ختم کر دے گا اور وہ اب بھارت میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا؟ یہ سوال عالمی سیاست اور اس کے مزاج سے بے خبری ظاہر کرتا ہے۔ سعودی عرب بھارت سے فاصلہ اختیار کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اسے انگیج نہیں رکھے گا اور علانیہ دشمنوں کی صف میں دھکیل دے گا۔ سمجھ دار لوگ ایسا نہیں کرتے۔
حرفِ آخر یہ کہ اس معاہدے کے ذریعے تاریخ نے ایک نئی کروٹ لی ہے جس میں پاکستان ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ یہ پیش رفت پاکستان میں داخلی، سیاسی اور اقتصادی استحکام کا بھی ذریعہ بنے گی۔ پاکستان کی قسمت کا ستارہ عروج پر ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنے پتے بڑی مہارت سے کھیلے ہیں جس کے ثمرات سامنے آنے لگے ہیں۔ پاکستان کی ان کامیابیوں سے جو حلقے خوش نہیں ہیں، وہ اپنے دھڑے کا تعین خود کر لیں۔