7 ارب ڈالر کا پروگرام؛ آئی ایم ایف جائزہ مشن پاکستان پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن)عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کا جائزہ مشن 7 ارب ڈالر پروگرام پر مذاکرات کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف جائزہ مشن اسلام آباد کے بجائے کراچی پہنچا، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان آج سے تکنیکی مذاکرات شروع ہوں گے۔
آئی ایم ایف جائزہ مشن اسٹیٹ بینک میں تکنیکی مذاکرات شروع کرے گا، مشن دو ہفتے تک پاکستان کی معیشت کا تفصیلی جائزہ لے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت قسط کی ادائیگی مشن رپورٹ سے مشروط ہوگی۔
وزیراعظم شہباز شریف سے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کی ملاقات،دو طرفہ تعلقات کو مزید بہتر اور مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال
آئی ایم ایف جائزہ مشن سیلاب کے معیشت اور بجٹ اہداف پر اثرات کا بھی جائزہ لے گا۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: ایم ایف جائزہ مشن آئی ایم ایف
پڑھیں:
بلوچستان میں کوئلے کے کان کنوں کا معاشی استحصال: ایک تحقیقی جائزہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
-1تعارف:
بلوچستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود انسانی ترقی کے اشاریوں میں سب سے پسماندہ ہے۔ صوبے کے پہاڑوں کے نیچے چھپے کوئلے، تانبے، سونے اور گیس کے ذخائر پاکستان کی صنعتی و تجارتی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان وسائل کے دوہنے میں سب سے زیادہ حصہ کوئلے کی کان کنی کا ہے، جس نے ہزاروں مزدوروں کو روزگار فراہم کیا ہے۔ تاہم، یہی شعبہ مزدوروں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک اور غیر منصفانہ بھی ہے۔ بلوچستان کے کوئلہ کان کن نہ صرف غربت، بیماری اور سماجی محرومی کا شکار ہیں بلکہ ریاستی و نجی اداروں کی مجرمانہ غفلت کے باعث ان کی زندگیاں ہر لمحہ خطرے میں رہتی ہیں۔
بلوچستان کی کوئلہ کان کنی کا نظام روایتی، غیر منظم اور غیر انسانی اصولوں پر قائم ہے۔ کان کن عموماً ایسے افراد ہوتے ہیں جو تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات سے محروم پس ماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی اجرت معمولی ہے، مگر ان کا کام جسمانی طور پر انتہا درجے کا مشکل اور خطرناک ہے۔ ان مزدوروں کو نہ تو مستقل ملازمت ملتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی سماجی تحفظ کی ضمانت۔ اکثر اوقات کانوں میں کام کرنے والے مزدور ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جو انہیں حفاظتی سامان دینے کے بجائے پیداوار بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ نتیجتاً کوئلے کے دھوئیں، زہریلی گیسوں اور زمین دھنسنے کے حادثات روزمرہ کے معمول میں شامل ہو چکے ہیں۔
یہ تحقیق اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ بلوچستان میں کان کنوں کے استحصال کے معاشی، سماجی اور سیاسی عوامل کیا ہیں، اور ریاستی ادارے اس استحصال کو کم کرنے میں کس حد تک ناکام رہے ہیں۔ اس مطالعے میں کوئلہ کان کنی کے تاریخی پس منظر، مزدوروں کی موجودہ حالت، حکومتی پالیسیوں، حادثات کے تجزیے اور مزدور یونینز کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحقیق میں اس امر پر بھی بحث کی گئی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے فقدان اور ناقص حفاظتی انتظامات نے انسانی جانوں کو کس طرح کمزور معیشت کے ایندھن میں بدل دیا ہے۔
یہ مضمون تحقیقی اور تجزیاتی بنیادوں پر مرتب کیا گیا ہے، جس میں سرکاری اعداد و شمار، انسانی حقوق کی رپورٹس اور ذرائع ابلاغ کی معتبر دستاویزات کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ تحقیق کا مقصد صرف استحصال کی نشاندہی نہیں بلکہ ان ممکنہ پالیسی اصلاحات کی نشاندہی بھی ہے جن سے کان کنوں کی حالت بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ چونکہ بلوچستان کی کان کنی ملک کی توانائی کا اہم ذریعہ ہے، لہٰذا اس کے انسانی پہلو کو نظر انداز کرنا نہ صرف سماجی ناانصافی ہے بلکہ معاشی استحکام کے لیے بھی خطرناک ہے۔
-2 تاریخی پس منظر:
بلوچستان میں کوئلے کی کان کنی کا آغاز انیسویں صدی کے آخر میں برطانوی دورِ حکومت میں ہوا، جب انگریز حکام نے ہرنائی، مچ اور دکی کے علاقوں میں کوئلے کے ذخائر دریافت کیے۔ برطانوی سامراج نے اس خطے کے قدرتی وسائل کو اپنی ریلوے اور صنعتی ضروریات کے لیے استعمال کیا، مگر مقامی آبادی کو اس عمل سے کوئی فائدہ نہ پہنچا۔ کان کنی کے ابتدائی نظام میں مزدوروں کو نہ حفاظتی انتظامات میسر تھے، نہ اجرت کا باقاعدہ ڈھانچہ موجود تھا۔ یہ استحصال نوآبادیاتی دور میں شروع ہوا اور بدقسمتی سے آزادی کے بعد بھی جاری رہا۔
قیامِ پاکستان کے بعد، حکومتِ بلوچستان نے کوئلے کی کانوں کو منظم کرنے کی کوشش کی، مگر عملی سطح پر یہ نظام سرمایہ دارانہ ٹھیکیداری ڈھانچے میں جکڑا رہا۔ بیشتر کانیں نجی لیز پر مقامی یا غیر مقامی سرمایہ داروں کے حوالے کی گئیں۔ ان ٹھیکیداروں نے برطانوی نظامِ مزدوری کو برقرار رکھا جہاں محنت کش صرف ایک ’’پیداواری ذریعہ‘‘ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ 50 کی دہائی میں محکمہ مائنز اینڈ منرلز قائم ہوا، مگر اس کا کردار کاغذی حد تک محدود رہا۔
70 اور اسی کی دہائی میں کان کنی بلوچستان کی معیشت میں اہم کے دھماکوں سے ہلاکتیں عام ہیں۔ یہ استحصال اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب زخمی یا ہلاک مزدوروں کے اہلِ خانہ کو معاوضہ دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
(جاری )