پاکستان کیا تھا اور کیا بنادیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان کبھی ایک معجزہ تھا آج جادو بھی نہیں ہے۔ پاکستان کبھی اسلام کا قلعہ تھا آج اسلام کی جھگی بھی نہیں ہے۔ پاکستان کبھی ایک سمندر تھا آج ایک تالاب بھی نہیں ہے۔ کبھی پاکستان کی ہر چیز عظیم تھی آج کچھ بھی عظیم نہیں ہے۔
پاکستان کا نظریہ عظیم تھا۔ اس نظریے نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنا کر کھڑا کیا۔ قائداعظم صرف افراد کے وکیل تھے پاکستان کے نظریے نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بنادیا۔ برصغیر کی ملت اسلامیہ ایک بھیڑ تھی پاکستان کے نظریے نے بھیڑ کو قوم بنایا۔ پاکستان کا نظریہ اسلام تھا اور اسلام نے قوم پرست اقبال کو امت پرست اقبال میں ڈھالا۔ قوم پرست اقبال کے لبوں پر
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
کا نغمہ تھا۔ اسلام نے اقبال کی قلب ماہیت کردی اور وہ یہ گیت گاتے نظر آئے۔
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
اقبال کی قوم پرستی کے زمانے میں اقبال تقریباً ایک ہندو کے انداز میں سوچتے تھے۔ اس زمانے میں انہوں نے لکھا
پتھر کی مورتوں کو سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
لیکن اسلام نے جب اقبال کی قلب ماہیت کردی تو پھر اقبال وطن پرستی کی مذمت کرتے نظر آئے اور انہوں نے فرمایا۔
بازو ترا اسلام کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
٭٭
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
کبھی پاکستان کی تاریخ بھی عظیم تھی۔ جس وقت قیام پاکستان کا مطالبہ سامنے آیا اس وقت کی تاریخ انسانوں کو Dictate کررہی تھی کہ ہمارا تشخص نسل، زبان اور جغرافیے سے متعین ہوتا ہے مگر برصغیر کی ملت اسلامیہ نے تاریخ کے اس جبر پر تھوک دیا اور کہا کہ میرا اصل تشخص نسل ہے، نہ زبان ہے نہ جغرافیہ ہے۔ میرا اصل تشخص میرا مذہب ہے۔ مذہب سے برآمد ہونے والی میری تہذیب ہے، مذہب سے فراہم ہونے والے میرے مثالیے یا میرے Ideals ہیں۔ جس زمانے میں قیام پاکستان کا مطالبہ سامنے آیا اس زمانے کی تاریخ کا ایک اور بڑا جبر سوشلزم تھا۔ روس میں انقلاب آئے مدتیں گزر چکی تھیں آدھا یورپ سوشلسٹ ہوچکا تھا مگر پاکستان کے تاریخی تجربے نے سوشلزم کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کی قیادت بھی عظیم تھی۔ قائداعظم کہنے کو ایک فرد تھے مگر دراصل وہ ایک رکنی فوج یا one man army تھے۔ ان کو نہ کوئی خرید سکتا تھا نہ انہیں کوئی ڈرا سکتا تھا۔ ان کے سامنے ایک طرف وقت کی واحد سپر پاور یعنی سلطنت برطانیہ تھی اور دوسری طرف ہندو اکثریت تھی۔ مگر قائداعظم نہ وقت کی واحد سپر پاور سے مرعوب ہوئے نہ انہیں ہندو اکثریت کا خوف لاحق ہوا۔ قائداعظم سے ایک بار ایک ہندو صحافی نے کہا تھا کہ آپ کبھی کانگریس میں تھے قائداعظم یہ سن کر مسکرائے اور کہا کہ میں کبھی اسکول میں بھی تھا۔ قائداعظم کے اس جواب سے ظاہر ہے کہ کانگریس کا زمانہ قائداعظم کے اسکول کا زمانہ تھا اور دو قومی نظریے کی سیاست نے قائداعظم کو پی ایچ ڈی اسکالر میں تبدیل کردیا تھا۔
بلاشبہ قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والی برصغیر کی ملت اسلامیہ بھی عظیم تھی۔ اس کا ایک ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ پاکستان پنجاب، سندھ، بنگال، کے پی اور بلوچستان میں بن رہا تھا مگر تحریک پاکستان یوپی اور دلی میں چل رہی تھی، حالاں کہ یوپی اور دلی کے لوگ جانتے تھے کہ ان کے علاقے ہندو اکثریتی علاقے ہیں اور وہ کبھی پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے مگر اس کے باوجود یوپی اور دلی کے لوگوں نے قیام پاکستان کے لیے سردھڑ کی بازی لگادی۔ یہ حقیقت راز نہیں تھی کہ پاکستان ہندوستان کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک تھا مگر چوں کہ اس کا نظریہ، اس کی تاریخ، اس کی قیادت اور اس کی قوم عظیم تھی اسی لیے ان چیزوں کا اثر قیادت کے تناظر اور حوصلوں پر بھی مرتب ہوا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قائداعظم نے قیام پاکستان کے بعد ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے بے انتہا محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ہندوستان نے اپنی مسلم اقلیت کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا تو پاکستان بھارت میں مداخلت کرے گا۔ ظاہر ہے کہ مداخلت بیانات کے ذریعے نہیں ہوتی مداخلت فوج کے ذریعے ہوتی ہے۔ قائداعظم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ قیام اسرائیل کی پشت پر مغرب کی تمام بڑی قوتیں موجود ہیں اس کے باوجود قائداعظم نے کہا کہ اگر ہمیں فلسطینی بھائیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے تشدد کا سہارا لینا پڑا تو ہم ضرور لیں گے۔ یہ پاکستان کی عظمت کی چند جھلکیاں تھیں اور ان جھلکیوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کبھی پاکستان کیا تھا۔
بدقسمتی سے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کو جو قیادت فراہم ہوئی اس کا نہ کوئی خدا تھا نہ کوئی رسول تھا نہ کوئی کتاب تھی نہ اس کا کوئی نظریہ تھا۔ چونکہ پاکستان ابتدا ہی سے نظریاتی خلا سے دوچار ہوگیا بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے قوم کا نظریہ بدلنے کی سازش کی۔ جنرل ایوب سیکولر تھے اور انہوں نے سیکولر ازم کے زیر اثر سود کو حلال قرار دینے کی سازش کی انہوں نے وہ عائلی قوانین ملک پر مسلط کیے جو اسلامی تعلیمات سے متصادم تھے۔ جنرل ایوب کو اسلام سے اتنی چڑ تھی کہ انہوں نے آئین سے اسلام کا لفظ ہی نکال دیا۔ ایک وقت تھا کہ قائداعظم نے وقت کی واحد سپر پاور سلطنت برطانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستان حاصل کیا تھا اور ایک وقت وہ آیا جب جنرل ایوب نے پاکستان کو امریکا کی باج گزار اور طفیلی ریاست بنادیا۔ پاکستان کے نظریہ ساز اقبال نے کہا تھا۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی
مگر جنرل ایوب ہوں یا جنرل یحییٰ، جنرل ضیا الحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف، بے نظیر بھٹو ہوں یا میاں نواز شریف پاکستان کے کسی بھی حکمران نے پاکستان میں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے پاکستان میں وہ دنیا خلق کی جو امریکا اور یورپ کو درکار تھی۔
پاکستان کی تاریخ میں سقوسط ڈھاکا کی اہمیت بنیادی ہے۔ سقط ڈھاکا سے پہلے ہر پاکستانی کا یہ سیاسی عقیدہ تھا کہ پاکستان ہمیشہ رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے لیکن سقوط ڈھاکا اور مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی نے اس عقیدے کے پرخچے اُڑا دیے اور سقوط ڈھاکا ہماری اجتماعی قومی نفسیات میں ایک زلزلہ بن کر بیٹھ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں کہیں بھی حالات خراب ہوتے ہیں تو ہمیں یہ اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ پاکستان کی بقا و سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 1980ء کی دہائی میں جب سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک چل رہی تھی اور جنرل ضیا الحق اس تحریک کو کچلنے کے لیے اندھا دھند طاقت استعمال کررہے تھے تو پروفیسر غفور اور مولانا نورانی جیسے قدآور سیاست دان اپنے بیانات میں کہہ رہے تھے کہ دیہی سندھ میں مشرقی پاکستان جیسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ 1992ء میں جب کراچی میں ایم کیو ایم اور الطاف حسین نے بدامنی کی انتہا کردی تھی اور ان کے خلاف فوجی آپریشن ہورہا تھا تو ایسا لگ رہا تھا کہ کراچی کسی بھی وقت پاکستان سے الگ ہوسکتا ہے۔ اس زمانے میں حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قاضی حسین احمد جیسے سیاسی رہنما کا یہ بیان روزنامہ جنگ میں شائع ہوا کہ کراچی میں اقوام متحدہ کی فوج اتر چکی ہے۔
قاضی صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی تو ہم نے اس بیان کا پس منظر معلوم کیا۔ کہنے لگے کہ مجھے کراچی کی بندرگاہ سے ایک ذریعے نے فون کرکے بتایا کہ اقوام متحدہ کی فوج کراچی میں اتر رہی ہے۔ اصل قصہ یہ تھا کہ بوسنیا میں پاک فوج کے جو دستے اقوام متحدہ کی امن فوج کے طور پر کام کررہے تھے وہ کراچی واپس آئے تھے اور ان کے سامان پر اقوام متحدہ کے پرچم لہرا رہے تھے۔ چنانچہ کسی صاحب نے یہ سمجھا کہ کراچی میں اقوام متحدہ کی فوج اتر چکی ہے۔
اس وقت ملک کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ پاکستان کی معیشت تباہ ہوچکی ہے اور دیوالیہ پن ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ ملک میں سیاسی انتشار کی آندھیاں چل رہی ہیں۔ چنانچہ ہمارے ایک دوست چند روز پیش تر ہمارے پاس آئے تو کہنے لگے کہ خاکم بدھن اب تو ملک کے ٹکڑے ہوں گے۔ دراصل ان کا یہ بیان ایک بھارتی صحافی کے بیان کا نتیجہ تھا۔ بھارتی صحافی نے اپنے بیان میں یہ کہا ہے کہ اگر پاکستان دیوالیہ ہوگیا تو پورا ملک انارکی کی زد میں آجائے گا۔ ایسی صورت حال میں ہندوستان سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کے حصے بخرے کرنے کی جانب مائل ہوسکتی ہیں۔ بلوچستان آزاد ریاست بن کر ابھر سکتا ہے اور سندھ اور گلگت بلتستان پر ہندوستان قابض ہوسکتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کا مقدر ایک عظیم ریاست بن کر ابھرنا ہے مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے قائداعظم کا آدھا اوریجنل پاکستان گنوادیا ہے اور باقی پاکستان سیاسی اور معاشی آندھیوں کی زد پر رکھا ہوا ہے۔ اور ہماری اجتماعی نفسیات میں موجود سقوط ڈھاکا کا زلزلہ ہمیں ہمارے مستقبل کے حوالے سے اندیشوں میں مبتلا کررہا ہے۔ ذرا سوچیے تو پاکستان کبھی کیا تھا اور اسے ہمارے حکمرانوں نے کیا بنادیا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی ہے کہ پاکستان قیام پاکستان پاکستان کبھی کبھی پاکستان پاکستان کی پاکستان کا پاکستان کے جنرل ایوب کراچی میں عظیم تھی انہوں نے کی تاریخ کا نظریہ بھی عظیم نہیں ہے کیا تھا تھا اور نہ کوئی وقت کی اور ان کے لیے تھا کہ بھی نہ
پڑھیں:
پاکستان اور چین کا نیا سنگِ میل ، خلائی تعاون میں تاریخی پیش رفت
اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان دوستی کا نیا باب رقم ہوگیا ہے۔ چین نے باضابطہ اعلان کیا ہے کہ پاکستانی خلا باز اب چینی خلائی مشن میں پے لوڈ ماہر کے طور پر حصہ لیں گے۔ یہ فیصلہ دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے سائنسی و خلائی تعاون کی تاریخی علامت قرار دیا جا رہا ہے، جو پاکستان کی خلائی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگا۔
چینی سرکاری میڈیا کے مطابق پاکستانی خلاباز چینی خلابازوں کے ساتھ مشترکہ تربیت حاصل کریں گے اور چین کے خلائی اسٹیشن پروگرام کے درمیانی مدتی منصوبے کا حصہ ہوں گے۔ اس اقدام سے پاکستان کی تکنیکی استعداد میں اضافہ اور دونوں ممالک کے سائنسی روابط مزید مضبوط ہوں گے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کا کوئی خلا باز کسی دوسرے ملک کے سرکاری خلائی مشن میں عملی طور پر شامل ہوگا، جس سے سُپارکو (خلائی و بالائی فضائی تحقیقاتی کمیشن) کی بین الاقوامی ساکھ میں نمایاں بہتری متوقع ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان خلائی تعاون کئی برسوں سے جاری ہے، تاہم خلا باز کی براہِ راست شمولیت اس تعلق کو ایک نئی بلندی پر لے جائے گی۔ بیجنگ کے مطابق یہ اشتراک مستقبل میں خلائی ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ اعدادوشمار کے تبادلے اور خلائی سلامتی جیسے شعبوں میں بھی نئے مواقع پیدا کرے گا۔ چینی ماہرین کے بقول، پاکستانی خلا باز کی شمولیت اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ چین اپنے دوست ممالک کو سائنسی ترقی میں برابر کا شریک دیکھنا چاہتا ہے۔
مزید برآں گذشتہ چند برسوں میں، ٹیکنالوجی اور خلائی تحقیق نے عالمی سطح پر ترقی کی ایک نئی راہ پر قدم رکھا ہے۔ مصنوعی سیارچے، زمین کی سطح کے نگرانی نظام، ماحولیاتی تبدیلیوں کا تجزیہ، زرعی پیداوار کی پیش گوئی، شہری ترقی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی حکمتِ عملی سب اجزاء اس نئی راہ کے حصہ ہیں۔ ایسے موقع پر پاکستان نے اپنی خلائی تحقیقاتی صلاحیتوں میں ایک سنگِ میل عبور کیا ہے جب خلائی و بالائی فضائی تحقیقاتی کمیشن (سُپارکو) نے اپنے پہلے کثیر طیفی سیٹلائٹ ’’ایچ ایس۔1‘‘ کو کام یابی سے چین کے خلائی مرکز سے مدار میں بھیج دیا ہے۔
یہ صرف ٹیکنالوجی کا حصول نہیں، بلکہ ملک کی معیشت، ماحول، شہری ترقی، خارجہ و داخلہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں بھی متعدد نئے راستے کھولنے والا اقدام ہے۔
پہلے یہ سمجھنا اہم ہے کہ کثیر طیفی (ہائپر اسپیکٹرل) ٹیکنالوجی کیا ہے اور کس طرح یہ روایتی سیٹلائٹ کیمرے سے مختلف ہے۔ ہائپر اسپیکٹرل تصویربندی کا مطلب یہ ہے کہ سیارچہ سطحِ زمین سے واپس آنے والی روشنی کو سینکڑوں باریک طیفی خطوں میں تقسیم کر کے تسلیم کرتا ہے۔ ایسی باریک تبدیلیاں جنہیں انسانی آنکھ یا محدود طیفی خطوں والی روایتی کثیر رنگی سیٹلائٹس نہیں دیکھ سکتیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کسی فصل کی صحت، مٹی کی نمی، پانی کی مقدار، زمین کی ساخت، شہری علاقے یا ماحولیاتی تبدیلیوں کی تشخیص پہلے سے کہیں زیادہ درست اور تفصیل کے ساتھ ممکن ہوجائے گی۔
ایچ ایس۔1 کا حفاظتی اور ترقیاتی پس منظر بھی مختصر نہیں۔ پاکستان نے اپنی خلائی مہم کو مرحلہ وار آگے بڑھایا ہے، مثلاً ’’پی آر ایس ایس۔1‘‘ (جولائی 2018ء ) کے بعد، حال ہی میں ’’ای۔او۔1‘‘ (جنوری 2025ء ) اور ’’کے۔ایس۔1‘‘ (جولائی 2025ء ) جیسے مشن روانہ کیے گئے تھے۔ ’’ایچ ایس۔1‘‘ اس تسلسل کا ایک نیا باب ہے، جو پاکستان کو روایتی مشاہداتی مرحلے سے کثیر طیفی نقطۂ نظر تک لے جاتا ہے، اور یہ تبدیلی محض تیکنیکی نہیں بلکہ حکمتِ عملی اور نظریاتی سطح پر بھی معنی خیز ہے۔
قومی اور عالمی منظرنامہ
آج جب دنیا موسمیاتی بحران، غذائی تحفظ کے مسائل، شہری بکھراؤ، پانی کی قلت، گلیشیئر کے پگھلنے، ماحولیاتی آلودگی اور قدرتی آفات جیسے چیلنجز سے دوچار ہے، ٹیکنالوجی نے ان مسائل کے حل کے لیے اہم کردار ادا کرنا شروع کیا ہے۔ کثیر طیفی تصویربندی اسی ارتقاء کی علامت ہے۔ ایسے میں ’’ایچ ایس۔1‘‘ کا لانچ نہ صرف قومی سطح پر اہم ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی موجودگی کو مضبوط بناتا ہے۔ علاوہ ازیں، یہ ٹیکنالوجی ملکی سطح پر زرعی پیداوار، ماحول، شہری منصوبہ بندی اور ترقیاتی منصوبوں جیسے چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری کی نگرانی کے لیے اہم سمت فراہم کر سکتی ہے۔
مکمل اثرات کا جائزہ
1۔ زرعی شعبہ و غذائی تحفظ: پاکستان کی معیشت میں زراعت ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ ہزارہ، ہاڑ، سندھ، پنجاب، خیبرپختونخواہ سمیت مختلف علاقوں میں فصلوں، مٹی، آبپاشی، بارش و موسم کی تبدیلیاں مستقل چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ ’’ایچ ایس۔1‘‘ کے ذریعے حاصل کی جانے والی تصویریں فصلوں کی صحت، مٹی کی نمی، آبپاشی کے نمونے، پانی کے ذخائر اور حتیٰ کہ پودوں کی تغذیہ کی کمی کا جلد پتہ دے سکتی ہیں۔ سُپارکو کا بیان ہے کہ اس سے پیداوار کے تخمینے میں 15 تا 20 فیصد تک بہتری ممکن ہے۔ یہ معنی خیز ہے کیوںکہ پیداوار میں بہتری، غذائی خود کفالت، برآمدی صلاحیت اور دیہی معیشت کی مضبوطی کے لیے یہ ٹیکنالوجی ایک نیا آئینہ مہیا کرتی ہے۔
2۔ ماحولیاتی نگرانی اور آفات کا مقابلہ: پاکستان شمالی علاقہ جات، برفانی خطوں، سیلابی علاقوں اور زمین سرکنے کے خدشات سے دوچار ہے۔ ’’ایچ ایس۔1‘‘ کی کثیرطیفی تصویربندی سے گلیشیئر پگھلنے کی شرح، جنگلات کی کٹائی، زمین کے کھسکنے کے خطرات، سیلاب کے بعد نقصان، آلودگی و دھند کی تفصیلات اور پانی کی معیار جیسے اشاریے پہلے سے بہتر انداز میں نگرانی کے قابل ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ردِعملی اقدامات کی بجائے پہلے سے تیاری ممکن ہوگی یعنی خطرات میں کمی کا مرحلہ مضبوط ہوگا۔
3۔ شہری منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کا جائزہ: شہری نشوونما، بے ترتیبی، زمین کے غلط استعمال، پانی اور ماحولیاتی وسائل کی کمی جیسے مسائل کا سامنا پاکستان کے بڑے شہروں کو ہے۔ ’’ایچ ایس۔1‘‘ کی تصویریں شہری علاقوں کی نقشہ بندی، نئی عمارتوں کی نگرانی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، زمینی استعمال میں تبدیلیوں اور شہری وسائل کی تقسیم کے تجزیے میں مددگار ہوں گی۔ یہ ٹیکنالوجی چین۔ پاکستان اقتصادی راہ داری کے تحت ترقیاتی راستوں، شاہراہوں، گوادر بندرگاہ سے منسلک بنیادی ڈھانچے کی نگرانی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
4۔ معاشی اور معاشرتی پہلو: اگرچہ خلائی مشن کی کام یابی بذاتِ خود براہِ راست مالی منافع نہیں لاتی، لیکن یہ ایک علمی سرمایہ کاری ہے۔ ’’ایچ ایس۔1‘‘ سے حاصل شدہ اعدادوشمار فصلوں کی حالت، ماحولیاتی حالات، شہری منصوبہ بندی اور خطرے کی نشان دہی کے لیے نجی شعبے، تحقیقاتی اداروں اور سرکاری منصوبوں کے لیے موزوں ہوسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو صرف سیٹلائٹ کے اجرا پر نہیں بلکہ اعدادوشمار کے تجزیے، انجنیئرنگ اور اطلاق پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ اس کے لیے تحقیقی اہلکار، جامعات، نجی کمپنیوں، اعدادوشمار کے ماہرین اور حکومتی ادارے مل کر کام کریں گے۔ بصورتِ دیگر یہ تصویریں صرف شاندار مظاہرہ ہی رہ جائیں گی۔
5۔ سفارتی اور تزویراتی جہت: ’’ایچ ایس۔1‘‘ کی لانچ میں چین کے تعاون نے یہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان ٹیکنالوجی، تحقیق اور خلائی شعبے میں چین کے ساتھ شراکت داری کو مضبوط کر رہا ہے۔ یہ نہ صرف ٹیکنالوجی کی منتقلی کا معاملہ ہے بلکہ ایک تزویراتی علامت بھی ہے کہ پاکستان ترقی یافتہ خلائی ٹیکنالوجی کی جانب قدم بڑھا رہا ہے۔ یہ دوسرے ممالک کو بھی یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان جدید سائنسی اطلاقات کے لحاظ سے سرگرم ملک ہے۔
چیلینجز اور انتباہات
ہر اہم ٹیکنالوجی کے حصول کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی وابستہ ہوتے ہیں۔ ’’ایچ ایس۔1‘‘ کے معاملے میں یہ چند نکات قابلِ ذکر ہیں:
سب سے اہم مسئلہ اعدادوشمار کا مؤثر استعمال ہے۔ تصویریں اور طیفی خط حاصل کرنا پہلا مرحلہ ہے، لیکن اس ڈیٹا کو عملی پالیسی، پروگرام اور نجی شعبے کی سمت میں بدلنا اگلا اور زیادہ اہم مرحلہ ہے۔ اگر یہ مؤثر نہ ہوا تو یہ سیٹلائٹ صرف ایک علامتی کام یابی رہے گی۔
مسلسل سرمایہ کاری، دیکھ بھال اور درجہ افزونی کا نظام قائم رکھنا ضروری ہے۔ صرف سیٹلائٹ بھیج دینا کافی نہیں، اسے جاری رکھنا اور آئندہ نسلوں کے لیے نئی سیارچے تیار کرنا لازمی ہوگا۔ پاکستان کو اپنے خلائی پروگرام کی پائیداری کے لیے حکمتِ عملی مرتب کرنی ہوگی۔
ماہر افرادی قوت کی تربیت بھی لازمی ہے۔ کثیر طیفی تصویربندی، اعدادوشمار کے تجزیے، تحقیق اور اطلاق میں مضبوطی لانا ہوگی۔ تعلیمی ادارے، نجی تحقیقی مراکز اور حکومتی معلوماتی نظام آپس میں مربوط کیے جائیں۔
خارجہ و داخلی پالیسی کی ہم آہنگی بھی ضروری ہے۔ ٹیکنالوجی اور اعدادوشمار کو صرف سائنسی حدود میں محدود نہ رکھا جائے بلکہ انہیں قومی منصوبہ بندی، ماحولیاتی پالیسی، زرعی اصلاحات، شہری ترقی اور آفات سے نمٹنے کی حکمتِ عملیوں میں شامل کیا جائے۔
مستقبل کے امکانات و تجاویز
آئندہ کے خدوخال میں ’’ایچ ایس۔1‘‘ کے اثرات مندرجہ ذیل سمتوں میں بڑھ سکتے ہیں:
1۔ اعدادوشمار فراہم کرنے کے بعد انہیں کھلی رسائی کی بنیاد پر حکومتی و نجی شعبے کے لیے دست یاب کیا جائے تاکہ چھوٹے کاشتکار، جامعات، نجی کاروبار اور تحقیقی ادارے اس سے استفادہ کر سکیں۔ اس سے ٹیکنالوجی کا معاشرتی اثر بڑھے گا۔
2۔ بین الاقوامی تعاون: پاکستان ’’ایچ ایس۔1‘‘ کے اعدادوشمار اور ماڈلز کو خطے کے دیگر ممالک مثلاً وسطی ایشیا، افریقہ اور مسلم ممالک کے ساتھ بانٹ سکتا ہے۔ اس سے علاقائی سطح پر تعاون بڑھے گا اور پاکستان علمِ فضائی میں نمایاں مقام حاصل کرے گا۔
3۔ نجی شعبہ اور نئی اختراعات: کثیر طیفی اعدادوشمار کی بنیاد پر زرعی منصوبے، ماحول دوست ٹیکنالوجی کمپنیاں، شہری منصوبہ بندی کے اطلاقات، آفات سے آگاہی خدمات وغیرہ فروغ پائیں گی، جس سے معیشت کو نئی تحریک ملے گی۔
4۔ پالیسی اور حکمتِ عملی: حکومت کو چاہیے کہ ’’ایچ ایس۔1‘‘ کے اعدادوشمار کو قومی زرعی منصوبہ بندی، موسمیاتی تبدیلی، شہری پھیلاؤ، پانی کے وسائل کی نگرانی اور قدرتی آفات کی تیاری کے لیے مربوط بنائے۔ مثلاً اقتصادی راہداری کے راستے، گوادر بندرگاہ، شمالی شاہراہوں اور برفانی خطوں کی نگرانی اس ڈیٹا کے ذریعے ممکن ہو سکتی ہے۔
5۔ تعلیمی نصاب اور تحقیق: جامعات اور تحقیقی ادارے کثیرطیفی تصویربندی، اعداد و شمار کے تجزیے، ارضی معلوماتی نظام (جی۔آئی۔ایس) اور ویب سائٹ کی تیاری کے شعبوں میں خود کو مربوط کریں، تاکہ آئندہ نسلیں تیار ہوں اور ملک کی تحقیقی بنیاد مستحکم ہو۔
آخرکار، ’’ایچ ایس۔1‘‘ کا اجرا پاکستان کے خلائی سفر میں ایک قابلِ ذکر پیش رفت ہے نہ صرف بطور تکنیکی کامیابی بلکہ بطور حکمتِ عملی، معاشی، ماحولیاتی اور معاشرتی تبدیلی کے محرک کے طور پر بھی۔ یہ قوم کو ٹیکنالوجی، تحقیق، معلومات اور عمل کے سنگم کی جانب لے جا سکتا ہے۔ مگر یہ کام یابی تب تک مکمل نہیں ہوگی جب تک یہ ’’تصویر‘‘ سے ’’عمل‘‘ کی طرف نہ بڑھے، جب تک یہ معلومات صرف محفوظ نہ رہیں بلکہ استعمال بھی ہوں، جب تک تعلیمی، نجی اور سرکاری شعبے مل کر اس ٹیکنالوجی کو عملی جامہ نہ پہنائیں۔
پاکستان کے مستقبل کے نقشے میں ’’ایچ ایس۔1‘‘ ایک روشن نکتہ ہے، مگر اسے منظم، مربوط اور مستقل سمت دینے کی ذمہ داری بھی اُسی اعتبار سے اہم ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان نہ صرف اپنے زمینی وسائل، زرعی پیداوار، ماحولیاتی پالیسی، شہری منصوبہ بندی اور آفات سے نمٹنے کی حکمتِ عملی کو بہتر بنا سکے گا بلکہ خطے میں خلائی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے خود کو مؤثر اور نمایاں مقام پر کھڑا کر سکے گا۔ یہی وہ منظر عام ہے جو اس اقدام سے جنم لے سکتا ہے، اور یہی وہ چیلینجز ہیں جن کا سدِباب ابھی باقی ہے۔