اعتقادی اور عملی کفرو شرک
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کفرو ایمان، شرک و توحید، بدعت و سنت کا باہمی تعلق تو اضداد پر مبنی ہے۔ لیکن قرآن و سنت پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایک ہی شخص میں بعض اوقات توحید کے ساتھ شرک، سنت کے ساتھ بدعت، ایمان کے ساتھ کفر، فسق و معصیت کے ساتھ طاعت و تسلیم بیک وقت جمع ہوتے ہیں۔ ایک ہی شخص میں باہمی متضاد ان چیزوں کا اجتماع ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ خود رسولؐ کے دور میں ایسی شخصیات کا وجود پایا جاتا تھا، جن میں یہ تضادات جمع تھے اور آپؐ نے ایمان و توحید، سنت اور طاعت و تسلیم کو ان کے کفر وشرک، بدعت، فسق و معصیت پر ترجیح دی اور اس کی اصل وجہ اور بنیاد، دو باتیں تھیں:
اوّل یہ کہ ’کفر‘ کا لفظ کتاب و سنت میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے: 1-ایمان و توحید کی ضد و مقابل۔ عام طور پر قرآن و سنت میں اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ 2-کفرانِ نعمت، شکر کی ضد و مقابل۔ اس مفہوم میں بھی قرآن میں استعمال ہوا۔ 3-اعلان برأت و لاتعلقی،4-بمعنی انکار و جحود5-پردہ پوشی و ستر چھپانا۔ یہ کفر کا عربی زبان میں اصل اور بنیادی مفہوم ہے۔
دوم یہ کہ شرعی کفر جس سے آدمی دائرۂ ملّت سے خارج اور باہر ہوجاتا ہے وہ صرف کفر اکبر ہوتا ہے نہ کہ کفر اصغر۔ اور یہ بات ایک حقیقت ہے کہ آپؐ نے اعتقادی کفر وشرک، اور عملی کفر وشرک اور بدعت و معصیت میں فرق کیا۔ منافقین کے ساتھ آپؐ کا معاملہ اس کی واضح مثال ہے کہ ان میں کفروشرک اور معاصی کا وجود ایک حقیقت تھی، لیکن دوسری طرف وہ بیش تر ظاہری اعمال: نماز، روزہ، حج، جہاد وغیرہ میں عملی طور پر مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوتے تھے۔ اس لیے نبیؐ نے ان کو مسلمان شمار کر کے ان کے ساتھ مسلمانوں والا معاملہ کیا۔ آں حضوؐر کا یہ فرق ملحوظ رکھنا شریعت کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے:
”اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔ پھر ہم نے ان پیغمبروںؑ کے بعد مریمؑ کے بیٹے عیسٰی ؑ کو بھیجا۔ تورات میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا۔ اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی تورات میں سے جو کچھ اس وقت موجود تھا اُس کی تصدیق کرنے والی تھی اور خداترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔ ہمارا حکم تھا کہ اہلِ انجیل اُس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں“ (المائدہ: 45-47)۔
ان آیات میں، اپنے جھگڑوں کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام و قوانین کے مطابق نہ کرنے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق قرار دیا گیا ہے۔ اگر ظاہری مفہوم کو لیا جائے تو: ’’موجودہ زمانے میں اکثر مسلم ممالک کا عدالتی نظام اور قوانین نوآبادیاتی زمانے میں سامراجی حاکموں سے لیے گئے ہیں۔ اس لیے وہ دائرۂ ملّت سے خارج اور باہر ہوجاتے ہیں‘‘۔ اکثر تکفیریوں کا یہی موقف ہے کہ: ’’مسلم ممالک کے حکمران دائرۂ ملّت سے خارج ہیں، اسی لیے ان کے خلاف جہاد و لڑائی واجب ہے‘‘۔ لیکن ان کا یہ موقف اس لیے درست نہیں کہ انھوں نے عملی اور اعتقادی کفر میں فرق نہیں کیا، حالانکہ یہ فرق نصوص نے کیا اور صاحب ِوحیؐ نے قدم قدم پر اس کو ملحوظ رکھا۔
اس آیت کی تفسیر میں مفتی مکہ مکرمہ اور مشہور مفسر تابعی حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
ان آیات میں وہ کفر مراد نہیں، جس کی طرف عام طور پر لوگوں کا ذہن جاتا ہے، اور اس سے وہ کفر بھی مراد نہیں جو دائرۂ ملّت سے خارج کردیتا ہے، بلکہ بڑے کفر سے کم درجے کا کفر، ظلم اور فسق مراد ہے۔
ڈاکٹر عصمت اللہ
گلزار
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سیدنا ابوبکرؓ کا خطبہؐ خلافت
حضرت ابوبکرؓ کی پہلی تقریر جو انھوں نے مسجد نبویؐ میں عام بیعت کے بعد کی، اس میں وہ کہتے ہیں: ”میں آپ لوگوں پر حکمران بنایا گیا ہوں حالانکہ میں آپ کا سب سے بہتر آدمی نہیں ہوں۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا ہے۔ نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ مجھے ملے۔ نہ میں نے کبھی خدا سے اس کے لیے دعا کی نہ میرے دل میں کبھی اس کی حرص پیدا ہوئی۔ میں نے تو اسے بادلِ ناخواستہ اس لیے قبول کیا کہ مجھے مسلمانوں میں فتنہ اختلاف اور عرب میں فتنہ ارتداد برپا ہوجائے کا اندیشہ تھا۔ میرے لیے اس منصب میں کوئی راحت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بار ِعظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے، جس کے اٹھانے کی طاقت مجھ میں نہیں ہے، الا یہ کہ اللہ ہی میری مدد فرمائے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ میرے بجائے کوئی اور یہ بار اٹھالے۔ اب بھی اگر آپ لوگ چاہیں تو اصحاب رسولؐ میں سے کسی اور کو اس کام کے لیے چن لیں، میری بیعت آپ کے راستے میں حائل نہ ہوگی۔ آپ لوگ اگر مجھے رسولؐ کے معیار پر چانچیں گے اور مجھ سے وہ توقعات رکھیں گے جو حضورؐ سے آپ رکھتے تھے تو میں اس کی طاقت نہیں رکھتا، کیونکہ وہ شیطان سے محفوظ تھے اور ان پر آسمان سے وحی نازل ہوتی تھی۔ اگر میں ٹھیک کام کروں تو میری مدد کیجیے، اگر غلط کام کروں تو مجھے سیدھا کردیجیے۔ سچائی امانت سے اور جھوٹ خیانت۔ تمہارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق اسے دلواؤں اگر خدا چاہے ۔ اور تم میں سے جو طاقت ور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول کروں اگر خدا چاہے ۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی قوم اللہ کی راہ میں جدو جہد چھوڑ دے اور اللہ اس پر ذلت مسلط نہ کردے ، اور کسی قوم میں فواحش پھیلیں اور اللہ اس کو عام مصیبت میں مبتلا نہ کردے ۔ میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور رسولؐ کا مطیع ہوں ۔ اور اگر میں اللہ اور رسولؐ کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے۔ میں پیروی کرنے والا ہوں۔ نئی راہ نکالنے والا نہیں ہوں۔
سیدنا عثمانؓ کا خطبہؐ خلافت
حضرت عثمانؓ نے بیعت کے بعد جو پہلا خطبہ دیا اس میں انھوں نے فرمایا: ”سنو ! میں پیروی کرنے والا ہوں، میں نئی راہ نکالنے والا نہیں ہوں۔ جان لو کہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کی پیروی کرنے کے بعد تین باتیں ہیں جن کی پابندی کا میں تم سے عہد کرتا ہوں۔ ایک یہ کہ میری خلافت سے پہلے تم نے باہمی اتفاق سے جو قاعدے اور طریقے مقرر کیے تھے ان کی پیروی کروں گا۔ دوسرے یہ کہ جن معاملات میں پہلے کوئی قاعدہ مقرر نہیں ہوا ہے ان میں سب کے مشورے سے اہل خیر کا طریقہ مقرر کروں گا۔ تیسرے یہ کہ تم سے اپنے ہاتھ روکے رکھوں گا جب تک تمہارے خلاف کوئی کاروائی کرنا قانون کی رو سے واجب نہ ہوجائے۔ (خلافت و ملوکیت)