غزہ: بچے خوراک اور پانی کی تلاش میں ہلاک ہو رہے ہیں، ٹام فلیچر
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 ستمبر 2025ء) غزہ شہر پر اسرائیل کے حملوں میں پناہ گزینوں کے خیموں، رہائشی عمارتوں اور تنصیبات سمیت ہر جگہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جہاں بڑے پیمانے پر انسانی نقصان کی اطلاعات ہیں۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ شہر میں متعدد طبی مراکز اور کمیونٹی کچن بھی حملوں کی زد میں آئے ہیں۔
لوگوں کی بڑی تعداد جنوبی علاقوں کی جانب نقل مکانی کر رہی ہے جہاں رہن سہن کے حالات انتہائی مخدوش ہیں اور پناہ گزینوں کی بڑی تعداد ملبے کے ڈھیروں پر مقیم ہے۔ Tweet URL'اوچا' کے سربراہ ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ جنگ سے بچوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے جو سوتے، کھیلتے، خوراک اور پانی تلاش کرتے اور طبی امداد کے انتظار میں ہلاک و زخمی ہو رہے ہیں۔
(جاری ہے)
بچوں کے لیے بدترین حالاتاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ٹام فلیچر نے کہا کہ دو سال سے جاری جنگ میں یہ بچے بمباری کا نشانہ بنتے رہے، اپاہج ہوتے رہے، انہوں نے بھوک کا سامنا کیا، انہیں زندہ جلایا گیا، وہ اپنے گھروں کے ملبے تلے دفن ہو گئے، انہیں والدین سے جدا کر دیا گیا، وہ ملبے اور کوڑاکرکٹ کے ڈھیر سے خوراک ڈھونڈتے ہیں اور زخمی ہونے کی صورت میں بیہوش کیے بغیر ان کے ناکارہ اعضا قطع کیے جاتے ہیں۔
ٹام فلیچر نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں ہلاک و زخمی ہونے اور یرغمال بنائے گئے اسرائیلی بچوں کا تذکرہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے عبوری اقدامات کا نفاذ عمل میں آنا چاہیے جن کے تحت اسرائیل کے لیے غزہ بھر میں انسانی امداد کی فراہمی میں سہولت دینا لازمی ہے۔
شمالی غزہ میں خوراک کی قلت12 ستمبر کو زکم کراسنگ بند ہونے کے بعد سے شمالی غزہ میں کوئی امداد نہیں پہنچائی گئی۔
اس صورت حال میں امدادی ادارے جنوبی غزہ سے رسد لانے پر مجبور ہیں تاہم شاہراہ الراشد پر نقل مکانی کرنے والوں کے رش اور سلامتی کے خدشات کے باعث اس میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔غزہ میں دو کلوگرام روٹی اب 9 امریکی ڈالر سے زیادہ قیمت میں فروخت ہو رہی ہے جبکہ 2025 کے اوائل میں اقوام متحدہ کی مدد سے چلنے والے تندوروں میں یہ صرف 30 سینٹ کے برابر قیمت میں دستیاب تھی۔
48 گھنٹے میں 51 ہلاکتیںغزہ شہر میں فلسطینی مسلح گروہوں اور اسرائیلی افواج کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ 21 ستمبر کو فلسطینی گروہوں کی طرف سے اسرائیل کی جانب راکٹ فائر کیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق، 19 سے 20 ستمبر کے درمیان 48 گھنٹوں کے دوران غزہ شہر میں رہائشی عمارتوں پر 18 حملوں میں کم از کم 51 فلسطینی شہری ہلاک ہوئے۔
غزہ کے طبی حکام کے مطابق، 17 سے 24 ستمبر تک غزہ میں 357 فلسطینی ہلاک اور 1,463 زخمی ہوئے۔ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک مجموعی طور پر 65,400 سے زیادہ شہری افراد ہلاک اور 167,160 زخمی ہو چکے ہیں۔
اوچا کے مطابق، امدادی سامان تک رسائی کی کوشش کے دوران ہلاکتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 27 مئی 2025 سے اب تک ایسے واقعات میں 2,531 افراد ہلاک اور 18,531 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں، 19 ستمبر تک غذائی قلت سے 440 اموات ہو چکی ہیں جن میں 147 بچے شامل ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ٹام فلیچر زخمی ہو کے لیے
پڑھیں:
اسمگلنگ سے بچائے گئے اڑیال کے تین بچوں کی مصنوعی خوراک پر کامیاب پرورش
لاہور:پنجاب کے نایاب اور قومی جنگلی جانور اڑیال کی بقا کی ایک امید بھری کہانی لاہور سفاری پارک کے وائلڈ لائف اسپتال سے سامنے آئی ہے، جہاں تین ننھے اڑیال بچوں کی زندگی نہ صرف محفوظ بنائی گئی بلکہ انہیں ماں کے دودھ کے بغیر بھی کامیابی سے پروان چڑھایا گیا۔
یہ تینوں بچے چند ماہ قبل جہلم میں اس وقت بازیاب کیے گئے تھے جب ایک شخص انہیں غیر قانونی طور پر اسمگل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بروقت کارروائی کے دوران ملزم کو گرفتار کر لیا گیا اور ننھے اڑیال لاہور منتقل کر دیے گئے، جہاں ان کی نگہداشت، علاج اور خوراک کے خصوصی انتظامات کیے گئے۔
سفاری پارک کے وائلڈ لائف اسپتال میں جب یہ تینوں اڑیال لائے گئے تو وہ کمزور اور خوف زدہ تھے۔ ان کے لیے زندگی ایک نیا تجربہ تھی، ماں کے دودھ کی جگہ انسانوں کے ہاتھوں سے دی جانے والی مصنوعی خوراک، اور جنگل کی آزادی کے بجائے ایک محفوظ مگر محدود ماحول۔ مگر وائلڈ لائف کے ماہرین نے ان کے لیے وہ سب کیا جو فطرت شاید نہ کر پاتی۔ چوبیس گھنٹے نگرانی، ہر چند گھنٹے بعد خوراک، باقاعدہ وزن چیک کرنا، اور ان کی طبی حالت پر مسلسل نظر رکھنا—یہ سب اس داستان کے اہم کردار بن گئے۔
ڈائریکٹر وائلڈ لائف اسپتال، ڈاکٹر محمد رضوان خان کے مطابق پنجاب کی سالٹ رینج اڑیال کا قدرتی مسکن ہے، مگر بریڈنگ سیزن میں شکاری اکثر ان کے بچوں کو پکڑ کر فروخت یا اسمگل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کے بقول، ماضی میں ماں سے جدا ہونے والے اڑیال بچوں کو جب ہاتھ سے دودھ پلا کر پالنے کی کوشش کی گئی تو اکثر ان میں ہاضمے کے مسائل اور اموات کی شرح زیادہ تھی۔ اس بار ہم نے سائنسی طریقہ اپنایا۔ ان کی خوراک میں جدید تبدیلیاں کیں، حفاظتی ادویات کا شیڈول بنایا، اور روزانہ ان کے وزن کی نگرانی کی۔ نتیجہ حیران کن تھا، تینوں بچے تیزی سے صحت یاب ہوئے، ان کا وزن بڑھا، اور وہ بیماریوں سے محفوظ رہے۔
ویٹرنری ماہر ڈاکٹر عبدالرحمٰن نے بتایا کہ ان کے لیے خصوصی خوراک تیار کی گئی جس میں دودھ کے ساتھ ساتھ ٹوٹل مکسڈ ریشن (ٹی ایم آر) شامل تھی تاکہ انہیں تمام غذائی اجزاء متوازن طور پر مل سکیں۔ ان کے خون اور فضلے کے نمونوں کی جانچ باقاعدگی سے کی جاتی رہی تاکہ پرجیوی یا دیگر امراض کی بروقت شناخت ممکن ہو۔
سفاری زو کے کیئر ٹیکر کے مطابق جب یہ اڑیال کے بچے پہلی بار اسپتال لائے گئے تو عملہ ان سے اس طرح مانوس تھا جیسے اپنے بچوں سے۔ جب ان میں سے کوئی ایک خوراک کم کھاتا یا وزن میں کمی محسوس ہوتی، تو پورا عملہ فکر میں پڑ جاتا۔ ان کے لیے ہر لمحہ ایک ذمہ داری تھی، اور اب جب وہ دوڑتے ہیں، اچھلتے ہیں، تو یوں لگتا ہے جیسے قدرت نے مسکرا کر اس محنت کو قبول کر لیا ہو۔
وائلڈ لائف ماہرین کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب پنجاب اڑیال کے بچوں کو سائنسی بنیادوں پر مصنوعی خوراک کے ذریعے کامیابی سے پروان چڑھایا گیا ہے۔ ان کی صحت مند حالت اب نہ صرف ایک سائنسی کامیابی ہے بلکہ جنگلی حیات کے تحفظ کے سفر میں ایک اہم سنگ میل بھی ہے، ایک ایسی کہانی جس میں انسان اور فطرت کے درمیان ہمدردی کا وہ رشتہ جھلکتا ہے جو دونوں کو زندہ رکھتا ہے۔