ٹرمپ کا امن منصوبہ یا امت ِ مسلمہ کے خلاف سازش؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا ایک بار پھر بڑے منظرناموں کے پیچھے چھپی حقیقت سے آنکھیں چرا رہی ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے غزہ کے حوالے سے وہ معاہدہ پیش کیا ہے جسے بڑے شوروغل کے ساتھ ’’امن منصوبہ‘‘ کہا جا رہا ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے: یہ امن نہیں، فریب اور سیاسی سودے بازی ہے جس کا نتیجہ فلسطینیوں کی مزید بے بسی اور اسرائیلی تسلط کی باضابطہ تقویت ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا گیا یہ منصوبہ دراصل غزہ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ایک ایسا سیاسی جال جس کا مقصد مظلوم کو جھٹلا کر مظالم کو جائز قرار دینا ہے۔ یہ بات کسی قسم کی مبالغہ آرائی نہیں؛ تاریخ بارہا بتا چکی ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے مفاد کے لیے وعدے کرتی ہیں اور معاہدے کرتی ہیں، مگر نتیجہ ہمیشہ کمزور طبقات کے نقصان میں نکلتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ ’’یہود و نصاریٰ تمہارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے‘‘۔ (البقرہ: 120) اور رسولِ مقبولؐ نے اسی حقیقت کی طرف خبردار کیا۔ آج جب ہم غزہ کی ویرانی، بے گھر خاندان، اور سسکتی ہوئی ماؤں کو دیکھتے ہیں تو یہ نصیحت حرفِ آخر کی طرح سچ معلوم ہوتی ہے۔ مزید افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت نے اس معاہدے کے متعلق جو ردِ عمل دکھایا یا جس پر خاموشی اختیار کی وہ امت ِ مسلمہ کی قلبی توقعات کے بالکل برعکس ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے ٹرمپ کو امن کا علمبردار قرار دینا اور اس کے لیے ایوارڈ کی بات کرنا — چاہے وہ محض ایک تجویز یا حمایت ہو!! دراصل فلسطینی شہداء کے خون کے ساتھ ایک ظالمانہ کھلواڑ ہے۔ ایسے شخص کو امن کا علم بردار کہنا، جس کے دورِ اقتدار میں لاکھوں مظلوموں کا خون بہا، اسپتال و اسکول ملبے میں تبدیل ہوئے اور بے گناہ بچے یتیم ہوئے، انسانیت کے منافی ہے۔
فلسطین کے محاذ پر جو قوتیں کھڑی ہیں، ان میں حماس ایک ایسا نام ہے جس نے عملی مزاحمت کے ذریعے امت ِ مسلمہ کے فرض کو ادا کرنے کی کوشش کی۔ حماس کے بانی اور قائدین نے اپنی اپنی جگہ پر قربانیاں دیں اور دین و وطن کے دفاع کی خاطر جدوجہد کی۔ حماس کی قیادت اور مجاہدین نے ہمیشہ یہ واضح کیا ہے کہ لہو کے آخری قطرے تک سرزمین ِ فلسطین کی حفاظت کریں گے۔ حماس کی لاتعداد قربانیوں کے بعد عالمی سطح پر بہت سے مسلم ممالک نے کھل کر اسرائیل کی پالیسیوں کی مخالفت کی ہے؛ احتجاج ہوئے، قراردادیں منظور ہوئیں، بعض حکومتوں نے سفارتی سطح پر اقدامات کیے۔ مگر پاکستان کی پالیسی، جو روایتی طور پر فلسطین کے حق میں مضبوط بیانیہ رکھتی آئی ہے، آج عملی موقف میں نمایاں طور پر کمزور دکھائی دیتی ہے۔ زبانی اظہارِ یکجہتی کافی نہیں؛ عملی قدم، واضح بیانیہ اور بین الاقوامی سطح پر مضبوط موقف درکار ہوتا ہے۔ افسوس کہ تاحال پاکستان کی جانب سے کھلے اور واضح الفاظ میں اسرائیل کی مخالفت یا اْس کے خلاف ٹھوس عملی اقدامات نظر نہیں آئے۔ بیانات بھی دیے گئے، مگر عملی سطح پر وہی ڈبل اسٹینڈرڈ دکھائی دیتا ہے جس نے ہماری خارجہ پالیسی کو کمزور کر دیا ہے۔
یہ دوغلی پالیسی صرف فلسطین تک محدود نہیں؛ یہ ہماری قومی خوداری، ہماری خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی شعبہ کو متاثر کرتی ہے۔ ماضی میں جب پاکستان نے اصولی موقف اپنایا تھا تو ہمیں اسلامی دنیا میں ایک وقار ملا کرتا تھا۔ مگر آج جو رویّہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ ہمیں اس عزت و وقار سے محروم کر رہا ہے۔ اب یہ بتانا ضروری ہے کہ ٹرمپ کا حالیہ معاہدہ محض ایک دستاویز نہیں؛ یہ ایک سیاسی عمل ہے جس کے اثرات آنے والے برسوں میں محسوس ہوں گے۔ یہ معاہدہ فلسطین کے حقوق پر سمجھوتا، اسرائیلی تسلط کو قانونی رنگ دینے اور خطے میں دہشت گردی کی فضا کو مزید گہرا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ایسے معاہدے کی حمایت خواہ وہ کسی حکومت کی جانب سے براہِ راست کی جائے یا خاموشی سے قبول کر لی جائے، بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی انصاف کے خلاف ایک اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔ اور جب ہمارے اعلیٰ حکومتی عہدے دار اِس پر نرم گوشہ دکھاتے ہیں یا ایوارڈ جیسی تجاویز سامنے آتی ہیں، تو یہ نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابل ِ فہم ہے بلکہ قوم کے نظریاتی بْنیادوں کے ساتھ بھی تضاد ہے۔
ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا: کیا ہم فلسطین پر ہوئے ظلم و ستم کی اس تاریخ کو فراموش کر دیں گے؟ کیا ہم اپنے مذہبی، اخلاقی اور انسانی تقاضوں کے برعکس رہ کر دنیا کی طاقتوں کے سودے بازی میں شریک ہو جائیں گے؟ حقیقی امن کا علمبردار تو وہ ہے جو مظلوم کا حق دے اور انصاف کو قائم کرے۔ پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ وہ فوری اور کھلے دل کے ساتھ اس معاہدے کی کھل کر مذمت کرے، فلسطینیوں کے حق ِ خودارادیت کے لیے عملی طور پر آواز اٹھائے، اور اپنے بیانات کو عمل سے بھی ثابت کرے۔ قوم کا صبر اٹل ہے مگر تاریخ کی نظر سخت ہے؛ جو اب خاموش رہتا ہے، کل اسے اپنی چپ پر جواب دینا ہوگا۔ آخر میں ایک کڑوی مگر سچ بات کے پاکستانی وزیر اعظم اور آرمی چیف کا امریکا کا کر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عالمی دہشت گرد کو امن کا ایوارڈ دینے کی سفارش کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ موجودہ حکمران کا قدر اپنے زمینی آقاؤں کی دہلیز پر سجدہ ریز ہیں اور مسلمانوں کے خون کا سودا کرنے کو تیار ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان کی کی جانب سے کے ساتھ امن کا
پڑھیں:
غزہ امن منصوبہ ، امریکی صدر کے20 نکات مسترد،ڈرافت میں تبدیلی کی گئی،نائب وزیراعظم
امن معاہدے کیلئیٹرمپ نے جو 20 نکات دیے وہ ہمارے نہیں،8 اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے اپنی تجاویز پیش کیں اور انہی نکات پر مشترکہ بیان جاری کیا ،اسحاق ڈار
فلسطین پر قائداعظم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، سینیٹر مشتاق کی رہائی کیلئے یورپی ممالک سے مدد لے لی، غزہ میں امن بیانات سے نہیں عملی اقدامات سے ممکن ہوگا ، قومی اسمبلی میں اظہار خیال
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ 20 نکات دراصل پاکستان کے پیش کردہ نکات نہیں ہیں بلکہ ان میں ترامیم کی گئی ہیں۔ 8 اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے اپنی تجاویز پیش کیں اور انہی نکات پر مشترکہ بیان جاری کیا گیا، جن میں سے بیشتر پاکستانی نکات کو تسلیم کر لیا گیا۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ مشترکہ بیان میں غزہ میں امن کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششوں کا خیر مقدم کیا گیا، یہ ہمارا ذاتی مسئلہ نہیں ہے، اسلامی ممالک کی ذمے داری ہے، 8 ممالک کے وزرائے خارجہ اور صدر ٹرمپ کی ٹیم کے درمیان ملاقات ہوئی، امریکی صدر نے ٹیم سے کھل کر بات کی۔فلسطین سے متعلق ہماری وہی پالیسی ہے جو قائد اعظم کی تھی۔انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے غزہ معاملے کے لیے اہم نکات پیش کیے، غزہ میں جنگ بندی کے لیے صدر ٹرمپ کی آرا کا خیر مقدم کیا گیا۔ صدر ٹرمپ سے غزہ میں جنگ بندی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر بات ہوئی، غزہ میں مکمل جنگ بندی ضروری ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے یو این ناکام ہو چکا، غزہ میں لوگ بھوک سے فوت ہو رہے ہیں، فلسطین اور غزہ کا مسئلہ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ جب بھی ضرورت پڑی چین ہمارے ساتھ کھڑا ہوا، چین کے ساتھ تعلق تھا، ہے اور رہے گا، سعودی عرب کے ساتھ جو دفاعی معاہدہ ہوا ہے وہ بہت اہم ہے، دہائیوں سے ہمارا سعودی عرب سے جو تعلق ہے وہ ڈھکا چھپا نہیں۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ ہم اسرائیل کا نام بھی نہیں سننا چاہتے، صمود فوٹیلا میں ہمارے ایک سینیٹر صاحب بھی تھے، ہمارے اسرائیل سے کوئی روابط نہیں، اسرائیل نے 22 کشتیاں تحویل میں لے کر لوگوں کو تحویل میں لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری اطلاع کے مطابق سابق سینیٹر مشتاق احمد بھی تحویل میں لیے جانے والوں میں شامل ہیں۔