عرب حکمرانوں کی امریکی فتنے سے اظہار یکجہتی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اسلامی دنیا میں اب تک سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، قطر اور مصر اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ مبصرین کے لیے اہم بات اس منصوبے کے نکات کم ہو کر 20 رہ جانا ہے۔ دراصل ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل سے متعلق شق کو تبدیل کر کے "سیاسی منظرنامے" کے حصول کے لیے گفتگو انجام دینا کر دیا گیا ہے۔ صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنے سے گریز کی خاطر ٹرمپ اور نیتن یاہو نے اپنی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس منعقد نہیں کی جس کی وجہ سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے پر مبنی شق ختم ہو جانے کے بارے میں مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔ خطے کی جن حکومتوں نے ٹرمپ منصوبے کی حمایت کی ہے وہ عملی طور پر خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل سے چشم پوشی کرتی آئی ہیں اور انہوں نے زیادہ تر اسرائیل کے سیاسی اہداف آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔ تحریر: سید رضا حسینی
واشنگٹن میں ایک ملاقات کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ جنگ کے 23 ماہ اور 23 دن اور 65 ہزار فلسطینیوں کے قتل عام کے بعد جنگ بندی کا ایک نیا منصوبہ تیار کیا ہے۔ دائیں بازو کی انتہاپسند جماعت لیکود پارٹی کے سربراہ نیتن یاہو نے وائٹ ہاوس کے دباو پر قطر کے امیر تمیم بن حمد آل ثانی سے دوحا پر حملے کے دوران ایک قطری شہری کی ہلاکت پر معافی بھی مانگی۔ اس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں غزہ میں امن کی بحالی کے لیے ایک 21 نکاتی منصوبہ پیش کیا تھا جو اکثر عرب اور اسلامی ممالک کی توجہ کا بھی مرکز بن گیا تھا۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق اس منصوبے میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کی کم از کم پانچ سالہ نگران انتظامیہ کے بعد متحدہ فلسطینی ریاست تشکیل پانے کا تصور پیش کیا گیا ہے۔
اسلامی دنیا میں اب تک سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، قطر اور مصر اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ مبصرین کے لیے اہم بات اس منصوبے کے نکات کم ہو کر 20 رہ جانا ہے۔ دراصل ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل سے متعلق شق کو تبدیل کر کے "سیاسی منظرنامے" کے حصول کے لیے گفتگو انجام دینا کر دیا گیا ہے۔ صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنے سے گریز کی خاطر ٹرمپ اور نیتن یاہو نے اپنی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس منعقد نہیں کی جس کی وجہ سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے پر مبنی شق ختم ہو جانے کے بارے میں مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔ خطے کی جن حکومتوں نے ٹرمپ منصوبے کی حمایت کی ہے وہ عملی طور پر خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل سے چشم پوشی کرتی آئی ہیں اور انہوں نے زیادہ تر اسرائیل کے سیاسی اہداف آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔
ان حکومتوں نے مختلف قسم کے اقتصادی اور سیکورٹی بہانوں کے ذریعے فلسطینی قوم کے مفادات کو نظرانداز کیا ہے اور غاصبانہ قبضے کو قانونی جواز فراہم کیا ہے۔ یہ انداز نہ صرف فلسطین کاز سے غداری ہے بلکہ ایسی رژیم سے واضح اظہار یکجہتی بھی ہے جو اپنی بقا کو بحران اور جارحیت جاری رکھنے میں دیکھتی ہے۔ صیہونی وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان ملاقات ختم ہوتے ہی نیتن یاہو نے وضاحت دیتے ہوئے کہا: "میں نے فلسطینی ریاست کی تشکیل کی بالکل اجازت نہیں دی اور اس معاہدے میں بھی ٹرمپ نے فلسطینی ریاست کی تشکیل کی سخت مخالفت کی ہے اور امریکی صدر اس مسئلے کو سمجھتا ہے۔" صیہونی اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق امریکہ نے دونوں بنیادی ایشوز یعنی غزہ سے اسرائیل کا فوجی انخلاء اور حماس کے غیر مسلح ہونے کو کاغذ پر لانے کی کوشش کی ہے لیکن جو نسخہ گذشتہ ہفتے شریک عرب اور اسلامی ممالک کو دیا گیا ہے اس میں ان ایشوز کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔
البتہ پیر کے دن اس معاہدے کا نیا نسخہ وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے: "اسرائیلی فوجیں طے شدہ لائن تک پیچھے ہٹ جائیں گی۔" نیتن یاہو نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ اس معاہدے میں جو نقشہ جاری کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج پیچھے ہٹ جانے کے باوجود تمام یرغمالیوں کو آزاد کروانے کی خاطر غزہ کے وسیع علاقے میں جہاں بھی چاہیں موجود رہ سکتی ہیں۔ اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ جب تک عرب اور اسلامی ممالک پر مشتمل "بین الاقوامی فوج" غزہ میں تعیینات ہونے کے لیے تیار نہیں ہو جاتی اسرائیلی فوج جہاں ہے وہاں موجود رہے گی۔ اسی طرح تل ابیب کے مدنظر نقشے سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی پوری پٹی کے اردگرد ایک سیکورٹی بفر زون قائم کیا جائے گا۔ یہ بھی دراصل اسرائیل کا مطالبہ تھا جس کا مقصد طوفان الاقصی جیسا آپریشن دوبارہ دہرائے جانے سے روکنا ہے۔
اس معاہدے کا اہم حصہ جنگ بندی کے بعد برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کی سربراہی میں غزہ پر نگران انتظامیہ کا کنٹرول قائم ہونا ہے۔ اس منصوبے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ٹونی بلیئر نے 2001ء میں افغانستان اور 2003ء میں عراق کی لاحاصل جنگوں کے لیے فوج بھیجی تھی لہذا وہ غزہ میں امن منصوبے کے اجرا کے لیے مناسب شخص نہیں ہے۔ برطانوی اخبار گارجین اور صیہونی اخبار ہارٹز کی جانب سے 21 صفحات پر مشتمل اس معاہدے کی دستاویز شائع ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کا انتظام بین الاقوامی عہدیداروں کے سپرد کیا جائے گا اور فلسطینیوں کو بنیادی عہدے نہیں دیے جائیں گے۔ اس دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ انتظامیہ غزہ کی تعمیر نو کی بھی ذمہ دار ہو گی اور اس کام کے لیے وہ بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
اخبار اکونومسٹ کے مطابق اس منصوبے میں اصل رکاوٹ حماس کا موقف ہے۔ حماس کے لیے ابتدائی طور پر یرغمالیوں کو آزاد کر دینا ایک مشکل فیصلہ ہے کیونکہ اس کے پاس اپنے مطالبات منوانے کا واحد ہتھکنڈہ یہی یرغمالی ہیں۔ حماس نے یہ بھی کہا ہے کہ غزہ میں جنگ شدت اختیار کر جانے کے باعث اس کا تمام یرغمالیوں سے رابطہ بھی برقرار نہیں ہے۔ اسی طرح اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں پائی جاتی کہ اسرائیل جنگ بندی کے بعد دوبارہ حملہ نہیں کرے گا۔ حماس اپنے ہتھیاروں کو "مزاحمت" پر مبنی اپنے تشخص کا اٹوٹ انگ قرار دیتی ہے اور غیر مسلح ہونے پر تیار نہیں ہے۔ مزید برآں، اب تک کسی ملک نے غزہ کے لیے بین الاقوامی فوج کا حصہ بننے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ لہذا اس منصوبے پر عملدرآمد فی الحال دور از امکان دکھائی دیتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست کی تشکیل سے منصوبے کی حمایت نیتن یاہو نے منصوبے کے اس معاہدے جانے کے اور اس کیا ہے کے بعد گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
ہم نے حکمرانوں کے شعور اور ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے،فضل الرحمان
مسئلہ فلسطین پر پاکستان اور بنگلا دیش کے مسلمانوں کے جذبات ایک جیسے ہیں
مسئلہ فلسطین پر امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق ہے، فلسطین کانفرنس سے خطاب
امیر جے یوآئی مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم نے حکمرانوں کے شعور اور ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے۔مسئلہ فلسطین پر امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق ہے۔بنگلا دیش میں فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ بنگلا دیش کے مسلمانوں کا ختمِ نبوت کے عقیدے پر وحدت اور یکجہتی کا مظاہرہ انشاء اللہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔اُنہوں نے کہا کہ آج یہاں کانفرنس ہمارے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہے، مسئلہ فلسطین پر امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق ہے، امت مسلمہ امتِ واحدہ ہے،اسلام امت مسلمہ کو جسد واحد قرار دیتا ہے ۔امیر جے یو آئی کا کہنا تھا کہ اسلامی اخوت آج بھی زندہ ہے، مسئلہ فلسطین پر پاکستان اور بنگلا دیش کے مسلمانوں کے جذبات ایک جیسے ہیں، ایمانی رشتے کی بنیاد پر ہر مظلوم مسلمان کویہ اطمینان دلاتے ہیں کہ ہمارے دل آپ کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ہمارے جذبات آپ کے ساتھ ہیں، ہم آپ کے شانہ بشانہ ہیں۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ صہیونیوں نے مسلمانوں کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے یہی قبضہ کبھی برطانیہ نے برصغیر پر کیا تھا، ہمارے اکابر نے طویل جدوجہد کے بعد فرنگی کو یہاں سے نکالا، انگریز نے پہلے فلسطین پر قبضہ کیا اور پھر وہی سرزمین یہودیوں کے حوالے کر دی، نیتن یاہو انسانیت کا قاتل ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ اسرائیل فورسز نے ستر ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا گیا، لاکھوں لوگ بھوک اور دوائی نہ ملنے سے شہید ہوئے، عالمی عدالتِ انصاف نے نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دیا ہے، لیکن امریکہ اسے گرفتار کرنے کے بجائے اسے اپنے ساتھ بٹھاتا ہے اور پریس کانفرنس کرتا ہے۔امیر جے یو آئی کا کہنا تھا کہ عجیب بات ہے! چند افراد کے قتل کیالزام پر تو صدام حسین کو سزائے موت دے دی جاتی ہے، مگر لاکھوں انسانوں کا قاتل دنیا میں آزاد پھرتا ہے،کیا انسانی حقوق کے دعوے دار امریکہ اور یورپ کا کردار ان کے انسانی حقوق کے دعوے کو جھوٹا ثابت نہیں کر رہے؟مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل تم جنگ بندی کا اعلان کرتے ہو، مگر بمباریاں جاری ہیں، شہادتوں کا سلسلہ رکتا نہیں، کون ظالم کا ہاتھ روکے گا؟ امتِ مسلمہ بیدار ہے، پاکستان میں جب ہم نے آواز اٹھائی تو لاکھوں لوگ گھروں سے نکل آئے، وہی جذبات میں نے ڈھاکہ میں بھی دیکھے اور آج سلہٹ میں بھی وہی منظر دیکھ رہا ہوں۔اُنہوں نے کہا کہ آج بھی بنگلا دیش اور پاکستان کے درمیان بھائی چارے اور خیرسگالی کے رشتے کا اعادہ کرتا ہوں، ہم نے ایک دوسرے کے لیے سہارا بننا ہے، امتِ مسلمہ کے جذبات کو بیدار رکھنا ہے۔امیر جے یو آئی کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے حکمرانوں کے شعور اور ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے، ہم نے کلمہ حق کہنا ہے، اللہ تعالیٰ ہمارا یہ کلمہ حق قبول فرمائے اور ہمیں ظالم قوتوں کے خلاف ایک صف میں کھڑے ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔