کیا آپ جانتے ہیں، دنیا میں ایک شخصیت بغیر ویزے کے کسی بھی ملک کا دورہ کرسکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
ویٹی کن سٹی(انٹرنیشنل ڈیسک) دنیا کے کسی بھی ملک کے شہری کو دوسرے ملک کا سفر کرنے کے لیے متعلقہ ملک کا ویزا درکار ہوتا ہے اور یہ قانون تمام ممالک کے سربراہوں، بادشاہوں، سفارت کاروں اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پر بھی لاگو ہوتا ہے، لیکن دنیا میں ایک ایسی شخصیت بھی ہے، جنہیں کسی بھی ملک کا سفر کرنے کے لیے ویزا لینے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ ہی پاسپورٹ ضروری ہے۔
ویزے کے بغیر دنیا کے کسی بھی ملک کا سفر کرنے کی مجاز وہ شخصیت کیتھولک چرچ اور دنیا کے سب سے چھوٹے ملک ویٹی کن سٹی کے سربراہ پوپ ہیں۔
عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ کو دنیا کے کسی بھی ملک کے دورے کے لیے پاسپورٹ یا ویزے کے استثنیٰ کے علاوہ بھی خاص مراعات حاصل ہیں۔
اس حوالے سے دستیاب تفصیلات کے مطابق ویٹی سٹی کے سربراہ پوپ عالمی سطح پر تسلیم شدہ سفارت کار ہیں اور سفارتی پاسپورٹ رکھتے ہیں جو انہیں بغیر ویزے کے سفر کی اجازت دیتا ہے اور حال ہی میں انتقال کرجانے والے پوپ فرانسس نے ویزے کے بغیر 50 سے زائد ممالک کا دورہ کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق پوپ اپنے ساتھ سفارتی پاسپورٹ رکھتے ہیں جس کے تحت انہیں دنیا بھر میں مفت سفر کرنے کا موقع ملتا ہے اور کسی بھی ملک کا دورہ کرتے ہیں تو انہیں خصوصی مراعات دی جاتی ہیں، جس میں میزبان ملک کی جانب سے ویزا فری ٹریول بھی شامل ہے، اسی طرح چند ممالک اسپیشل سیکیورٹی یا سیاسی وجوہات کی وجہ سے کچھ ضابطے بروئے کار لاتے ہیں لیکن عام طور پر پوپ کے لیے ویزا ضروری نہیں ہے۔
پوپ دنیا بھر کے 1.
ویٹی کن کے سربراہ پوپ کو خصوصی حیثیت کی قانونی بنیاد 1929 کے لیٹرن معاہدے میں فراہم کی گئی ہے، جس کے تحت ویٹی کن کو خودمختاری دی گئی اور پوپ کو مکمل سفارتی استثنیٰ حاصل ہوا، اسی طرح پوپ کو 1961 کے ویانا کنونشن کے تحت طے پانے والے بین الاقوامی معاہدوں میں بھی خصوصی حیثیت حاصل ہے۔
چین اور روس سمیت دنیا کے چند ممالک بعض اوقات پوپ کے سفر پر سیاسی شرائط عائد کرتے ہیں، لیکن پھر بھی ویزا درکار نہیں ہوتا۔
دنیا میں برطانوی شاہی خاندان کو بھی متعدد خاص مراعات حاصل ہیں لیکن وہ پوپ کو دی جانے والی مراعات کے ہم پلہ نہیں ہیں، کنگ چارلس سوم کے پاس باضابطہ پاسپورٹ نہیں ہے کیونکہ برطانوی پاسپورٹ ان کے نام پر جاری ہوتے ہیں اور عام طور پر انہیں ویزا کی ضرورت نہیں پڑتی مگر یہ صورت حال پوپ کی طرح ہمہ گیر نہیں بلکہ دو طرفہ تعلقات اور شاہی پروٹوکول پر منحصر ہے۔
دوسری طرف جاپان کے شہنشاہ کو سرکاری دوروں کے لیے ویزا درکار ہوتا ہے حالانکہ ان کے پاس بھی باضابطہ پاسپورٹ نہیں ہوتا، جاپان کا آئین شہنشاہ کو ریاست کی علامت قرار دیتا ہے مگر حکمران نہیں۔
اسی طرح امریکا سمیت اکثر ممالک اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو ویزا سے استثنیٰ دیتے ہیں لیکن بعض ریاستیں مخصوص حالات میں دستاویزات کا تقاضا کرتی ہیں، اقوام متحدہ کے سربراہ سفر کے لیے لاسی پاسے استعمال کرتے ہیں جو دنیا کے بیشتر ممالک میں قابل قبول ہے۔
پوپ اپنے نجی طیارے شیفرڈ ون میں سفر کرتے ہیں، جس کا نام پوپ کے اس علامتی کردار سے ماخوذ ہے جو کیتھولک چرچ میں ان کے لیے کہا جاتا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کسی بھی ملک کا کے کسی بھی ملک کے سربراہ لیے ویزا کرتے ہیں ویزے کے دنیا کے ویٹی کن کے لیے کے تحت پوپ کو
پڑھیں:
میٹھا زہر،خاموش قاتل
14 نومبر کو دنیا بھر میں ذیابیطس کا عالمی دن منایا گیا۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں کئی سیمینار اور سمپوزیمز منعقد کیے گئے۔ اسلام آباد میں ہونے والے ایک سمپوزیم میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ اس موزی مرض کے حوالے سے جو معلومات حاصل ہوئی وہ انتہائی تشویش ناک اور پریشان کن تھیں۔
یہ مرض نام کے اعتبار سے بظاہر ’’میٹھا‘‘ مگر دراصل ’’خاموش قاتل‘‘ کہلاتا ہے۔ دنیا میں اس وقت تقریباً 54 کروڑ افراد ذیابیطس کے مریض ہیں اور اگر احتیاط نہ کی گئی تو اگلی دو دہائیوں میں یہ تعداد 70 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔
ایشیا سب سے زیادہ متاثرہ خطہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ذیابیطس کے مریض چین میں ہیں، جہاں مریضوں کی تعداد 14 کروڑ سے زائد ہے۔ بھارت دوسرے نمبر پر ہے جہاں مریضوں کی تعداد تقریباً 10 کروڑ ہے اور پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جہاں مریضوں کی تعداد 4 کروڑ سے زیادہ ہے۔
چند سال پہلے تک پاکستان دنیا بھر ذیابیطس کے اعتبار سے آٹھویں نمبر پر تھا لیکن اب پاکستان دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ یہ صورتحال ایک الارم سے کم نہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہماری حکومت اور طب کے شعبے سے وابستہ افراد اور میڈیا اس صورتحال کو کسی بھی طرح نظرانداز نہ کریں۔
ذیابیطس کا ذکر انسانیت کی تاریخ میں بہت پرانا ہے۔ 1500 قبل مسیح میں مصر کے ڈاکٹروں نے ایک ایسے مرض کا ذکر کیا جو کسی بھی انسان میں ’’زیادہ پیشاب اور کمزوری‘‘ پیدا کرتا تھا۔ یونانی معالج Aretaeus نے دوسری صدی عیسوی میں اسے ’’Diabetes‘‘ یعنی ’’بہاؤ‘‘ کا نام دیا۔
سترہویں صدی میں انگریز معالج تھامس ولس نے اس میں لفظ ’’Mellitus‘‘ شامل کیا، جس کا مطلب ہے ’’میٹھا‘‘ یعنی مریض کے پیشاب میں مٹھاس کا پایا جانا۔
انیسویں صدی میں سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ Dibaties کی بیماری لبلبے (Pancreas) کی خرابی سے پیدا ہوتی ہے۔ 1921ء میں کینیڈا کے دو سائنس دان فریڈرک بینٹنگ اور چارلس بیسٹ نے انسولین دریافت کی جس نے دنیا بھر میں لاکھوں زندگیاں بچائیں۔ بعد کے عشروں میں گولیوں، انسولین پمپ اور جدید علاج نے ذیابیطس کو ایک قابلِ کنٹرول مرض بنا دیا۔
آج ہم ڈیجیٹل اور مصنوعی ذہانت (AI) کے دور میں ہیں جہاں اسمارٹ واچ، موبائل ایپس اور ڈیٹا انیلیٹکس شوگر لیول کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ ذیابیطس کی ویسے تو کئی قسمیں ہیں لیکن ان میں تین قسم کی ذیابیطس سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔
ایک ہے ٹائپ ون اور دوسری ہے ٹائپ ٹو اور تیسری قسم زچگی کے دوران خواتین میں پائی جاتی ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس کا مرض انسانی جسم میں انسولین بنانا بند کر دیتا ہے۔ یہ مرض اکثر کم عمری میں شروع ہوتا ہے۔ ٹائپ ٹو، ذیابیطس دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔
اس مرض میں انسانی جسم انسولین کو مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کرتا۔ تیسری قسم کی ذیابیطس دوران حمل پیدا ہوتی ہے۔ یہ ذیابیطس اگرچہ عارضی ہے لیکن آیندہ زندگی میں خطرہ بڑھا سکتی ہے۔ طب کے شعبے میں اب اتنی ترقی ہو گئی ہے کہ کسی بھی انسان میں ذیابیطس کا مرض لاحق ہونے سے پہلے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پری ڈایابیٹس (Prediabetes) وہ مرحلہ ہے جب انسانی جسم میں شوگر تو نارمل ہوتی ہے لیکن ایسے شواہد موجود ہوتے ہیں کہ کسی بھی وقت یہ مرسلہ حق ہو سکتا ہے۔ غیرمتوازن خوراک، میٹھے مشروبات، فاسٹ فوڈ، سستی، ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی ایسے عوامل ہیں جو ہمارے اندر ’’میٹھا زہر‘‘ پھیلا رہے ہیں۔
ذیابیطس کی بیماری صرف خون میں شوگر بڑھانے کا نام نہیں، بلکہ یہ دل، گردوں، آنکھوں ، اعصاب، اور ذہنی سکون۔ سب پر حملہ کرتی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے ہزاروں لوگ اپنی بینائی اور گردے کھو چکے ہیں۔ یہ سب کچھ اسی وقت ہوتا ہے جب لوگ وقت پر چیک اپ نہیں کرواتے۔
آج کے دور میں ذیابیطس کے علاج کے لیے بڑی مؤثر ادویات آ چکی ہیں۔ مختلف اقسام کی تیز اثر اور طویل اثر انسولین تھراپی کے ذریعے بھی علاج ممکن ہے۔ یہ طریقہ علاج پمپ سسٹم ( انجیکشن) کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
گولیاں (Oral Drugs) اور دوسری ادویات بھی موجود ہیں۔ طبی تحقیق اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ آپ اس کے علاج کے لیے کتنی بھی دوائیں استعمال کر لیں لیکن طرز زندگی تبدیل کیے بغیر اپ اس مرض کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔
اب تک ایسی کوئی دریافت نہیں ہوئی جو اس مرض کو مکمل طور پر ختم کر سکے تا ہم طرز زندگی میں تبدیلی سے اس کو بہت حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور ایک انسان نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔
طرززندگی میں تبدیلی کے لیے جو اقدامات ضروری ہیں ان میں متوازن غذا، روزانہ ورزش، پرسکون نیند اور ذہنی سکون حاصل ہو تو یہ بیماری بڑھتی نہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی اور AI اسمارٹ سینسر، ڈیجیٹل شوگر مانیٹرنگ اور ڈیٹا پر مبنی علاج علاج بھی مددگار ہے۔
نئی تحقیقی جہتیں، اسٹیم سیل تھراپی، جین ایڈیٹنگ اور لبلبے کی پیوند کاری، جو مستقبل میں ممکنہ علاج کے دروازے کھول رہی ہیں۔ جدید تحقیق بتاتی ہے کہ مصنوعی ذہانت یا اے ائی کے ذریعے شوگر لیول کی پیش گوئی پہلے سے ممکن ہے۔
موبائل ایپس فوری وارننگ دیتی ہیں، مریضوں کا ڈیٹا خودکار طور پر ڈاکٹرز تک پہنچتا ہے۔ یہی وہ انقلاب ہے جو علاج کو شخصی (Personalized Medicine) کی طرف لے جا رہا ہے۔
ذیابیطس کے خاتمے یا کنٹرول کرنے کے لیے میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ میں بحیثیت میڈیا پروفیشنل یہ سمجھتا ہوں کہ ذیابیطس کے خلاف سب سے طاقتور ہتھیار میڈیا ہے۔میڈیا عوامی آگاہی مہمات، ٹی وی، ریڈیو، سوشل میڈیا پر چھوٹے مگر مؤثر پیغامات کے ذریعے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ہیلتھ جرنلزم کی تربیت کا اہتمام کر کے اینکرز اور رپورٹرز کو اس مرض کی اہمیت اور خطرات سیآگاہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسی ڈاکومنٹریز اور ٹاک شوز ڈیزائن کیے جا سکتے ہیں جن میں کامیاب علاج اور احتیاطی تدابیر دکھائی جائیں۔
ڈیجیٹل میڈیا کمپینز، نوجوان نسل کے لیے انٹرایکٹو ویڈیوز اور گیمز اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ حکومت، میڈیا اور ہیلتھ سیکٹر مل کر ’’Diabetes Awareness Drive‘‘ شروع کریں۔اگر میڈیا اپنی طاقت صحت کے لیے استعمال کرے تو معاشرہ صرف باخبر نہیں بلکہ محفوظ بھی ہو سکتا ہے۔
احتیاطی تدابیر کرکے بھی اس مرض کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے اور ایک نارمل لائف گزاری جاسکتی ہے۔ ان تدابیر میںروزانہ کم از کم 30 منٹ پیدل چلنا۔تازہ سبزیاں اور پھل زیادہ کھانا۔ نیند پوری کرنا اور ذہنی دباؤ کم کرنا۔
بلڈ شوگر ٹیسٹ کروانا وغیرہ شامل ہے۔ سوچئے! اگر ہم اپنی صحت کا خیال نہیں رکھیں گے تو اپنی فیملی اور قوم کے لیے کیا پیغام چھوڑیں گے؟ صحت مند انسان ہی کامیاب معاشرہ بناتا ہے۔ ذیابیطس کا علاج صرف دوا میں نہیں بلکہ شعور میں ہے۔ اسی شعور کی بنیاد پر ہم ’’میٹھے زہر‘‘ کو شکست دے سکتے ہیں۔