مسئلہ فلسطین اور دو ریاستی حل
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
آج کل مسلم دنیا روزانہ یہ پڑھ کر یا سن کر نہال ہو رہی ہیں کہ فلاں مغربی ملک نے فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا ہے کہ یہ ممالک اتنی عجلت میں فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں؟
سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور دینے والا وہ ہے کہ جس کو امن کا نوبل انعام چاہیے۔
یہ تمام ممالک پہلے ہی اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرچکے ہیں اور اب فلسطین کو تسلیم کرنے کے بعد دو ریاستی حل مکمل ہوا اور اس کے بعد فلسطین اور غزہ میں امن ہوجانا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو فلسطینی بالعموم اور حماس بالخصوص اس کے ذمے دار ہوں گے۔
اب اس دو ریاستی حل کا تاریخ کے تناظر میں جائزہ لیتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے تو 1947 میں ہی فلسطین کو دو الگ الگ یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دے دی تھی اور بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیا تھا۔
اس منصوبے کو یہودی رہنماؤں نے تو قبول کرلیا تھا لیکن عربوں نے اس کو مسترد کردیا تھا اور یوں اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اس وقت تک فلسطینیوں کو یقین تھا کہ وہ اپنے دیگر عرب بھائیوں کے ساتھ مل کر بزور شمشیر صیہونیوں کو یہاں سے مار بھگائیں گے لیکن انھوں نے طاقت اور حوصلے کا غلط اندازہ لگایا تھا۔
اسرائیل ایک ایک کر کے عرب ممالک کو روندتا گیا،کچھ کو شکست دی،کچھ کو خرید لیا اور باقی کو حلیف بنا لیا۔
آج زمینی حقائق یہ ہے کہ فلسطینی اپنی جنگ میں بالکل اکیلے ہیں، تمام مسلمان ممالک نے خود کو اس جنگ سے علیحدہ کر لیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زیادہ تر مسلم ممالک درپردہ یا تو اسرائیل کے ساتھ ہے یا خود کو غیر جانبدار کرلیا ہے اور اب فلسطینیوں کو ایک ایسی بند گلی میں لے جایا گیا ہے کہ جس میں سوائے اس کے ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے کہ وہ دو ریاستی حل کو تسلیم کر لے، ہتھیار رکھ دے اور جو کچھ مل رہا ہے اس پر صبر شکر کے ساتھ قناعت کر لیں۔
یہ اس سے بہت کم ہے جو ان کو 1947 میں مل رہا تھا مگر اس وقت کی زمینی صورتحال اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق آچکا ہے۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ جو مل رہا ہے اس کو قبول کرلوں، ورنہ یہ بھی چلا جائے گا اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بتانے والے زیادہ تر اپنے ہیں جوکل تک اسرائیل سے لڑنے کو تیار تھے اور جن کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے صحرا کا سینہ تھر تھرکانپتا تھا مگر آج تیل کی دولت سے مالامال ہوکر آسائش کی علت انھیں اپنی ایئرکنڈیشنڈ رولز رویس سے اترنے نہیں دیتی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ 20 (بیس) نکاتی امن منصوبے کو آٹھ اسلامی ممالک کی تائید حاصل ہوچکی ہیں جس میں مملکت خداداد پاکستان بھی شامل ہے، اگر اسلامی ممالک فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کو تسلیم کرتے ہیں تو گویا بلواسطہ یا بلاواسطہ دونوں ریاستوں کو تسلیم کرتے ہیں۔
اس میں سے ایک تو فلسطین ہوئی، دوسری کا نام میں نہیں لینا چاہوں گا، ہاں اگر حکومت پاکستان اس پر اپنا موقف دے تو زیادہ بہتر ہے۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ ریاست کو عقائد کے تحت نہیں بلکہ مفادات کے تحت چلانا چاہیے لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ مسلمان ریاستوں کو ہی کیوں سو جوتے اور سو پیاز دونوں کھانے پڑتے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ اسرائیل عربوں سے اپنے تعلقات استوارکرنا چاہتا تھا ۔ آج پوری عرب دنیا نے رسمی یا غیر رسمی طور پر اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور یہ وہی ممالک ہے کہ جن کی وجہ سے ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آج کے حالات میں یہاں ماضی کا صیغہ ہی استعمال کرسکتے ہیں اور مستقبل تو ویسے بھی غیر یقینی ہوتا ہے۔
پوری مسلم اور عرب دنیا میں کوئی بھی معاہدہ امریکا کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ امریکا کو واضح طور پر نہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی صرف امریکی صدرکے چہرے سے مسکراہٹ غائب جائے تو معاہدہ منسوخ ہوجاتا ہے یا التوا میں چلا جاتا ہے۔
ہمسایہ مسلم ممالک نے اپنی فضائی حدود ہمیشہ اسرائیل کے لیے کھلی رکھی ہیں، چاہے وہ عراق کے ایٹمی ریکٹر پر حملہ کا وقت ہوں یا قطر میں حماس پر حملہ ہوں، تو پھر ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرق وسطی کے ممالک کو آخرکس سے خطرہ لاحق ہے؟
اس کا جواب بھی بہت آسان ہے، آپ بس یہ دیکھ لیجیے کہ ماضی قریب میں ان پر حملہ کس نے کیا ہے؟ اور کیا دیگر مسلم ممالک ان سے لڑنے کے لیے تیار ہے جب کہ ماضی میں ہم نے بھی اس لڑائی کا حصہ بننے سے انکارکردیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطی میں حکمرانوں کے لیے سب سے اہم چیز ان کا اپنا اقتدار ہے۔
لیکن اب صورتحال بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ عرب حکمرانوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ امریکا پر اندھا دھند اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ امریکا اب قابل اعتماد اتحادی نہیں رہا۔ وہ مشکل وقت میں عربو ں کی کہاں تک مدد کرے گا۔ یہ وہ سوال ہے جو بار بار اٹھایا جا رہا ہے۔
دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں نئی صف بندی ہونے جا رہی ہے۔ اس دفعہ ہوسکتا ہے کہ کسی ایک صف میں اسرائیل اور کچھ اسلامی ممالک اکٹھے ہوں۔ بل کلنٹن نے تو پہلے بھی کہا تھا کہ بھئی آپ لوگ کیوں لڑتے ہوں؟ آپ لوگ تو آپس میں کزن ہے۔
دنیا ان کزن کو ملانا چاہتی ہے تاکہ ابراہیمی معاہدے کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ ایسے کام کروانے کے عوض جب امریکا کسی کو نوازنا چاہتا ہے تو کسی کو یونیورسٹی میں لیکچرکے ذریعے معاوضہ دلواتا ہے اور کسی کو غزہ کے بورڈ آف پیس کا سربراہ بنا کر نوازتا ہے۔
اس دفعہ قرعہ 10 ڈاوئنگ اسٹریٹ کے سابقہ مکین کا نکلا ہے کہ جس کو بورڈ آف پیس کی سربراہی دینے کی تیاری تقریباً مکمل کر لی گئی ہے۔
عراق کے ساتھ جنگ میں بھی انھوں نے بہت وفاداری دکھائی تھی اور اس فدویانہ کردار کے معاوضے کی ادائیگی کا وقت آگیا ہے اور امید کی جائے گی کہ وہ مستقبل میں بھی اپنی تابعداری سے امریکا اور اسرائیل کو مایوس نہیں کریں گے۔ دنیا کو ایک نئے لارنس آف عربیہ کے لیے تیار کیا جارہا ہے، اگر آپ نے پرانی لارنس آف عربیہ نہیں دیکھی تو جلدی سے دیکھ لیجیے کیونکہ آپ جلد ہی دنیا کے اسٹیج پر اس کو دوبارہ چلتا ہوا دیکھیں گے اور اس دفعہ تو لارنس کو عربی لباس پہنے کا بھی تکلف نہیں کرنا ہوں گا، سوٹ سے ہی کام چل جائے گا بلکہ دوڑے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دو ریاستی حل کو تسلیم کر اسرائیل کو فلسطین کو یہ ہے کہ کے ساتھ کے لیے لیا ہے کو ایک رہا ہے گیا ہے اور اس میں یہ ہے اور
پڑھیں:
حماس نے دنیا کو فلسطین کو تسلیم کرنے پر قائل کردیا، ڈاکٹر واسع شاکر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر واسع شاکر نے کہا ہے کہ حماس نے اپنے مزاحمتی رویے سے دنیا کو فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے پر قائل کردیا، دعوت کا مطلب صرف تقریریں یا اجتماعات کرنا نہیں بلکہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور مظلوم کی داد رسی کرنے کا نام دعوت ہے، اس راہ میں بہت ساری آزمائشیں آئیں گی، دعوت کا صلہ قربانیوں کے بعد ملتا ہے۔ غزہ میں جاری ظلم کے خلاف بھرپور طریقے سے آواز اٹھانا ہماری ذمے داری ہے، ہم سب ملکر ظالموں اور ظلم کی مذمت کریں اور مظلومین کی حق المقدور مدد کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی ضلع سائٹ غربی کے تحت منعقدہ اجتماع کارکنان بسلسلہ تیاری اجتماع عام کل پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے کیا، شرکا سے امیر ضلع ڈاکٹر نورالحق اور قیم ضلع راشد خان نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکٹر واسع شاکر نے کہا کہ دعوت کیلیے تزکیہ نفس کا ہونا ضروری ہے اپنی شخصیت اور اخلاق کو سنوارنا لازم ہے، لوگ نبی کریمؐ کی شخصیت اور اخلاق سے متاثر ہوتے تھے اور ان کی دعوت کو سنتے اور اسلام کی جانب راغب ہوتے، لوگوں کی مدد کے ذریعے خود کو اللہ کے قریب کریں، آپ کا رویہ آپ کی دعوت ہے اور پھر اس دعوت پر ڈٹ جائیں، حماس کی مثال ہمارے سامنے ہے انہوں نے تقریریں نہیں کیں بلکہ اپنے مزاحمتی رویے سے دنیا کو قائل کردیا اور آج دنیا کے بیشتر ممالک جہاں فلسطین کو تسلیم کرنے کا تصور تک نہیں آج وہ ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کررہے ہیں، دعوت کا مطلب صر ف تقریر یا اجتماع کرنا نہیں۔ ڈاکٹر نورالحق نے کہا کہ 21 تا 23 نومبر کل پاکستان اجتماع عام کی دعوت ہر گھر تک پہنچائیں ۔ انہوں نے کارکنان پر زور دیا کہ 5 اکتوبر کو ہونے والے غزہ مارچ کیلیے تیاریاں تیز کریں اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی آواز بن جائیں۔