اسرائیلی فوجیوں کی غزہ میں فلسطینیوں کو ڈھال بنانے کی منصوبہ بندی کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
واشنگٹن:
امریکی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام جنگ کے دوران غزہ میں اپنے فوجیوں کی حفاظت کے لیے فلسطینیوں کوڈھال کے طور استعمال کرنے کے لیے بارودی سرنگوں میں بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے بتایا کہ گزشتہ سال امریکا کو ایسی خفیہ معلومات ملی تھیں، جن میں اسرائیلی حکام اس بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ ان کے فوجیوں نے فلسطینیوں کو غزہ کی ان سرنگوں میں بھیجا جن کے بارے میں اسرائیلیوں کا خیال تھا کہ ان میں ممکنہ طور پر بارودی مواد موجود ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی حکام کو ملنے والی یہ خفیہ معلومات وائٹ ہاؤس کو بھیج دی گئی تھیں اور سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے آخری ہفتوں کے دوران امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مذکورہ معلومات کا تجزیہ کیا۔
بین الاقوامی قانون فوجی کارروائی کے دوران شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کے عہدیدار طویل عرصے سے ان خبروں پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی فوجی ممکنہ طور پر غزہ میں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے فلسطینیوں کو استعمال کر رہے ہیں۔
امریکی حکام نے بتایا کہ 2024 کے آخری مہینوں میں جمع کی گئی امریکی انٹیلی جنس نے وائٹ ہاؤس اور انٹیلی جنس اداروں کے اندر یہ سوالات اٹھائے کہ یہ حربہ کتنے وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا تھا اور کیا اسرائیلی فوجی اپنے سینیئرز کی ہدایات پر عمل کر رہے تھے۔
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے یا انہیں کسی بھی طرح فوجی کارروائیوں میں شامل کرنے پر پابندی عائد کرتی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ فوج کے فوجداری تحقیقاتی شعبے نے فلسطینیوں کو کارورائیوں میں ڈھال بنانے سے متعلق شبہات کی تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے 7 اکتوبر کو شروع کی گئیں وحشیانہ کارروائیوں میں غزہ میں اب تک 69,000 فلسطینیوں کو شہید اور ایک لاکھ سے زائد افراد کو زخمی اور لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کردیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی فوج کے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے سے متعلق انٹیلی جنس ان کئی معلومات کا حصہ تھی جو بائیڈن انتظامیہ کے آخری مراحل کے دوران حکومتی حلقوں میں گردش کر رہی تھیں اور یہ معلومات اس وقت سامنے آئیں جب امریکی انٹیلی جنس اسرائیلی فوجی طرز عمل سے متعلق اندرونی مشاورت پر مبنی نئی معلومات کا تجزیہ تیزی سے کر رہی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسی عرصے میں بائیڈن انتظامیہ نے یہ انٹیلی جنس بھی حاصل کی تھی کہ اسرائیلی فوجی وکلا نے خبردار کیا تھا کہ ایسے شواہد موجود ہیں جو غزہ میں اسرائیلی فوجی مہم کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کو تقویت دے سکتے ہیں۔
سابق امریکی حکام نے کہا کہ اسرائیل کے اندر سے موصول ہونے والی نئی انٹیلی جنس نے اعلیٰ حکام کو سنگین تشویش میں مبتلا کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ معلومات امریکی حکومت کے اندر بعض افراد کے ان الزامات کی تائید کرتی ہیں کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگر اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قراردیا جاتا تو امریکا کو اسرائیلی فوج کو ہتھیار فراہم کرنے پر ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا تھا اور اس صورت میں امریکا کو اسرائیل کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ روکنا بھی پڑسکتا تھا۔
سابق امریکی حکام کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کے آخری دنوں میں موصول ہونے والی مجموعی انٹیلی جنس صرف غزہ میں انفرادی واقعات کی نشان دہی کررہی تھی اور یہ اسرائیلی پالیسی یا عمومی طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بائیڈن انتظامیہ اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کو استعمال کرنے اسرائیلی فوج انتظامیہ کے امریکی حکام کہ اسرائیلی ڈھال کے طور انٹیلی جنس پر استعمال استعمال کر کہ اسرائیل یہ معلومات معلومات کا رپورٹ میں کے دوران کے آخری گیا کہ کر رہے تھا کہ
پڑھیں:
برطانیہ اور کینیڈا نے امریکی جہازوں پر حملوں کیلیے انٹیلی جنس فراہم کرنا بند کر دی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن اور اوٹاوا نے امریکی فوج کو کیریبین میں مشتبہ منشیات بردار جہازوں کے بارے میں انٹیلی جنس فراہم کرنا روک دیا ہے کیونکہ وہ امریکی ہلاکت خیز حملوں میں شامل ہونا نہیں چاہتے اور ان حملوں کو غیر قانونی سمجھتے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانیہ نے امریکی کو کئی سالوں تک مشتبہ جہازوں کی معلومات فراہم کی تاکہ امریکا کوسٹ گارڈ انہیں روک سکے، عملے کو حراست میں لے سکے اور منشیات ضبط کر سکے ، ستمبر سے امریکی فوج نے جہازوں پر ہلاکت خیز حملے شروع کیے، جس کے بعد برطانیہ کو خدشہ ہوا کہ ان کی فراہم کردہ معلومات حملوں کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔ اب تک 76 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے بھی کہا کہ یہ حملے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں اور “بلا مقدمہ قتل” کے مترادف ہیں۔ برطانیہ اس تشخیص سے متفق ہے۔
کینیڈا نے بھی امریکی فوجی حملوں سے فاصلے اختیار کر لیا ہے، حالانکہ وہ امریکی کوسٹ گارڈ کے ساتھ منشیات کی روک تھام کے آپریشنز میں تعاون جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن اس نے واضح کر دیا ہے کہ اس کی انٹیلی جنس امریکی ہلاکت خیز حملوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔
یہ فیصلے امریکی اور اس کے قریبی اتحادیوں کے تعلقات میں اہم فرق کو ظاہر کرتے ہیں اور لاطینی امریکہ میں امریکی فوجی مہم کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔