راولپنڈی :24گھنٹے میں 34ڈینگی کے کیسز رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251006-08-15
راولپنڈی(صباح نیوز) گزشتہ24 گھنٹوں کے دوران راولپنڈی میں 34ڈینگی کے نئے مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔ محکمہ صحت کے مطابق راولپنڈی میں ڈینگی کے کل 12249 مریضوں کی اسکریننگ کی گئی جس میں 793 ڈینگی کنفرم مریض آئے۔ رواں سال اب تک ڈینگی سے کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی جبکہ ڈینگی کے 82 کنفرم مریض اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ڈینگی سرویلنس ٹیموں کی تعداد 1499 ہے اور اب تک 55 لاکھ 14 ہزار 346 گھروں کی چیکنگ ہوچکی ہے جس میں سے 1 لاکھ 71 ہزار 050 گھر ڈینگی پازٹیو رہے۔ اسپاٹ چیکنگ 15 لاکھ 1 ہزار، 096 سپاٹ چیک کیے گے اور 23 ہزار 035 اسپاٹ پازٹیو رہے ۔ ایک لاکھ 94 ہزار 085 مقامات سے لاروا ملا جسے تلف کردیا گیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈینگی کے
پڑھیں:
چربی کے خلیات کے ذریعے ریڑھ کی ہڈی کے فریکچر کا جدید علاج سامنے آ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جاپان کی یونیورسٹی آف اوساکا میٹروپولیٹن کے محققین نے ریڑھ کی ہڈی کے فریکچر، خاص طور پر آسٹیوپروسس کے مریضوں کے لیے ایک جدید اور غیر جراحی علاج دریافت کیا ہے، جو مستقبل میں روایتی سرجری کا متبادل بن سکتا ہے۔
اس تحقیق کے مطابق مریض کی جسمانی چربی سے حاصل کردہ اسٹیم سیلز کو ہڈی بنانے والے خلیات میں تبدیل کیا جاتا ہے، اور انہیں چھوٹی تین بُعدی “خلیاتی گولیوں” کی شکل دی جاتی ہے جو اپنی ساخت اور کام کے لحاظ سے ہڈی جیسی خصوصیات اختیار کر لیتی ہیں۔ ان گولیوں کو بیٹا-ٹری کیلشیم فاسفیٹ کے ساتھ ملا کر فریکچر والے مقام پر انجیکشن کے ذریعے داخل کیا جاتا ہے۔ چوہوں پر کیے گئے تجربات میں اس طریقے سے ریڑھ کی ہڈی کی مضبوطی میں اضافہ، زخم کے جلد بھرنے اور ہڈی بنانے والے جینز کی سرگرمی میں بہتری دیکھی گئی۔
آرتھوپیڈک سرجن اور تحقیق کے قائدین میں سے ایک ڈاکٹر شینجی تاکا ہاشی کے مطابق یہ طریقہ نہ صرف سادہ اور مؤثر ہے بلکہ پیچیدہ فریکچر کے کیسز میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر یوٹا ساوادا نے کہا کہ چونکہ اسٹیم سیلز مریض کی اپنی چربی سے حاصل کیے جاتے ہیں، اس لیے یہ محفوظ ہیں اور اضافی بوجھ نہیں ڈالتے، خاص طور پر بزرگ مریضوں کے لیے یہ طریقہ موزوں ہے۔
روایتی علاج میں زیادہ تر ہڈیوں کے نقصان کو روکنے یا درد کم کرنے پر توجہ دی جاتی ہے، لیکن یہ تکنیک پہلی بار متاثرہ ہڈی کو دوبارہ بنانے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ امریکہ میں 20 ملین سے زائد آسٹیوپروسس کے مریض ہیں، جن میں اکثریت خواتین کی ہے، اور ریڑھ کی ہڈی کے کمپریشن فریکچر اس بیماری کی سب سے عام اور خطرناک پیچیدگیوں میں شامل ہیں کیونکہ یہ مستقل درد اور زندگی کے معیار میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ اگلا مرحلہ انسانی کلینیکل ٹرائلز میں اس تکنیک کا استعمال ہے تاکہ آنے والے برسوں میں یہ جدید علاج آسٹیوپروسس سے متاثرہ مریضوں کے لیے ایک محفوظ اور مؤثر حل بن سکے۔ اس دریافت سے نہ صرف ہڈیوں کے فریکچر کے علاج میں انقلاب ممکن ہے بلکہ غیر جراحی اور تیز رفتار علاج کے نئے مواقع بھی کھل سکتے ہیں، جس سے مریض بغیر تکلیف دہ سرجری کے اپنی معمول کی زندگی گزار سکیں گے۔